ہالی ووڈ اداکار پاکستان اور فلسطین کے حق میں بول پڑے
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
ہالی ووڈ اداکار جیکب برجر نے انسٹاگرام پر پاکستان اور فلسطین کے حق میں ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی : او آئی سی کی طرف سے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ
دی کرنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق جیکب برجر اپنی فلموں دیٹ ڈے اور اے جیو مسٹ ڈائی کے حوالے سے بھی خاصے مشہور ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے اپنے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔
اپنی نئی ویڈیو میں برجر کو فلسطین اور پاکستان دونوں کی بھرپور حمایت کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں وہ اسرائیلی پالیسی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی صارفین مسلمانوں کو آن لائن نشانہ بناتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی شہروں پر قبضے سے متعلق بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا، مگر حقیقت کیا ہے؟
ویڈیو میں جیکب برجر نے کہا کہ بھارت 7 اکتوبر 2024 (جب اسرائیل نے غزہ میں شدید جنگی کارروائیاں دوبارہ شروع کیں) کی کاپی کر رہا ہے تاکہ دنیا کی سپورٹ حاصل کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ تمام صیہونی پاکستان کی نہیں بلکہ بھارت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے جاگتے رہو، تم سب‘۔
ویڈیو اور اس کے کیپشن نے سوشل میڈٰیا پر لاتعداد تبصرے آنے شروع ہوگئے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے حامیوں نے برجر کی مسلم کمیونٹیز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور ان کے خلاف متعصبانہ کارروائیوں پر آواز اٹھانے پر ان کی تعریف کی۔
مزید پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ: عوام کا پاک فوج سے اظہار یکجہتی
تھائی لینڈ کے ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’ہم تھائی لینڈ اور کینیڈا میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
ایک اور صارف نے کہا کہ ’جیکب، پاکستان کے لیے آواز اٹھانے کے لیے آپ کا شکریہ۔ کسی نے لکھا کہ فلسطین اور پاکستان ایک ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاکستان جیکب برجر فلسطین ہالی ووڈ اداکار جیکب برجر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان جیکب برجر فلسطین جیکب برجر
پڑھیں:
’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میں: آج کے عنوان سے مجھے ماضی کے کئی ایسے واقعات یاد آرہے ہیں، جب ہم بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر ہم کبھی اپنے بیرونی آقائوں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کبھی اپنی بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
وہ: ایسا پہلی بار تو شاید سن ۴۸ء میں ہوا جب کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوکر مسلسل آگے بڑھتے گئے مگر بھارت اقوام متحدہ چلا گیا اور اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بس رک جائیں اب ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور اس کی جانب سے رائے شماری کا لولی پاپ دیے جانے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور جتنا کشمیر حاصل کرسکے وہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
میں: خیر اس وقت ہم بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ نو آزاد پاکستان کو نہ جنگی وسائل میسر تھے اور نہ ہی خاطر خواہ فوجی قوت۔ شاید دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برسوں گزرنے جانے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکی۔ اور اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہمیشہ کے لیے فائلوں، عرضیوں اور یادداشتوں کی نذر کردیا۔
وہ: اسی طرح سن ۶۲ء میں چین انڈیا جنگ کے موقع پر چین کے اشارہ دیے جانے کے باوجود پاکستان امریکا کے فریب میں آگیا جب اس نے کہا ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ امریکا بیچ میں پڑ کے اس مسئلے کو حل کرے گا اور یوں کشمیر حاصل کرنے کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر چین انڈیا جنگ کے خاتمے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو نام نہاد مذاکرات ہوئے وہ چائے بسکٹ کی پارٹیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تب پاکستان کو اپنی کم عقلی کا احساس ہوا تو جذبات اور غصے میں آکر انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کا آغاز کردیا جو ۶۵ء کی جنگ کا باعث بنا۔ ۷۱ء میں آدھا پاکستان گنوایا، ۹۰ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بے غیرتی کا طوق گلے میں لٹکا کر ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔
پھر روس کی افغانستان پر یلغار کے وقت ۸۰ء میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیا سے کہا کہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ مگر جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ ضرور کریں گے اور ہم نے خاموشی سے سرتسلیم خم کردیا۔ اور پھر نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے کورنش بجالانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ۹۹ء میں کارگل جنگ چھیڑ کر کشمیر حاصل کرنے کا ایک اور موقع ایک بار پھر کھودیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سر جھکا کر امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پیش ہوئے اور ہم نے ایک بار پھر ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ کا حکم سن کر سیکڑوں جانیں گنوائیں اور خاموشی کے ساتھ کارگل سے واپسی کی راہ لی۔
میں: میرے خیال سے کارگل سے پسپائی اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملک ایٹمی طاقت بن چکے تھے لہٰذا خطے کے لیے ایسی کوئی بھی جنگ شدید خطرناک ہوسکتی تھی۔
وہ: پاکستان بھارت کی دیرینہ چپقلش اور دشمنی کی وجہ سے یہ خطرہ تو اس خطے پر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا، لہٰذا مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور فوری حل از حد ضروری ہے۔ ورنہ ایک ملک اس مسئلے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھے گا اور دوسرا محض زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر سفارتی سطح پر چند بیانات دینے کے علاوہ کبھی کوئی پیش قدمی نہیں کرے گا۔ تمہیں یاد ہوگا ۲۰۱۹ء میں جب ہمیں ایک بار پھر کشمیرکے مسئلے پر آواز بلند کرنے اور آگے بڑھ کرکچھ کرنے کا موقع ملا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں Kashmir Hour منانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر پاکستانی اپنے گھر اور دفتر سے باہر آکر آدھے گھنٹہ احتجاج کرے گا۔ پر مشکل یہ تھی کہ ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے کیوں کہ بھارت کے اس اقدام سے ایک ماہ پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ امریکا میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے جس میں ٹرمپ نے انہیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس ممکنہ اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے جواب میں کچھ نہ کرنے کی ضمانت مانگی تھی اور کہا تھا کہ بھارت یہ ارادہ رکھتا ہے مگراس کے ردعمل میں آپ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے یعنی ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘۔ اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا۔
میں: تم آخر کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
وہ: ابھی گزشتہ ہفتے موجودہ آرمی چیف، وائٹ ہائوس میں مدعو تھے۔ جو بلاشبہ پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ جنگی سبقت کے تناظر میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ٹرمپ کے بیان نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقینا اس نے پاکستان کے قدمیں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن اس ملاقات نے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی، اور امریکا یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جنگی حوالے سے کوئی مدد کرے۔ یہ ظہرانہ شاید پاکستان کو یہی باور کرانے کے لیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف آپ ایران کی حمایت فقط سفارتی سطح تک محدود رکھیں گے اس سے زیادہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور ہم شاید برسوں سے اپنی اس روش پر اسی طرح قائم ہیں یعنی ہمارا جواب جی بہت بہتر کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور پھر اتنی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد کیا ہم امریکا کے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے۔
میں: لیکن یہ سب تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: نہیں میں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر صرف یہ خیال ظاہر کررہا ہوں، کیوں کہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے لیے جنگی برتری صرف اور صرف میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی مہارتوں پر منحصر ہے۔ لیکن ایک خیال پھر بھی ذہن میں باربار پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہم امریکا کے سامنے اتنی زبان کھولنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے کہ اگر آپ فلسطین اور ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلم کھلا سیاسی حمایت اور بے دریغ عسکری مدد کرسکتے ہیں تو پھر پاکستان اپنے مسلم برادر ملک ایران کے ساتھ صف آرا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
آپ کچھ بھی نہیں کریں گے جناب
بس وہی جو بھی ہم کہیں گے جناب
آپ ایسے ہی جی حضور رہیں
ساتھ ہم بھی یونہی رہیں گے جناب