پاکستان اور بھارت جنگ بندی پر متفق: امریکی صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت فوری جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت امریکا کی ثالثی کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک نے مکمل اور فوری سیز فائر پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں نے ہوش مندی اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے فوری سیز فائر پر اتفاق کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے، تاہم ملکی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا یاد رہے کہ بھارت نے 6 اور 7 مئی کی رات پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں پر حملے کیے تھے جن کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا۔ جوابی کارروائی میں پاکستان نے بھارت کے متعدد ائیر بیسز، جنگی طیارے اور سائبر نظام کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں بجلی کا نظام مفلوج ہوگیا جبکہ بھارتی ملٹری سیٹلائٹ بھی غیر فعال کردیا گیا وزیراعظم شہباز شریف نے اس کامیاب دفاعی کارروائی پر افواج پاکستان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا، جس کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، مگر کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا عالمی مبصرین کے مطابق یہ سیز فائر ایک مثبت پیش رفت ہے، تاہم دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے مسلسل سفارتی کوششیں ناگزیر ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان اور نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن فارمولا پیش ، صدر ٹرمپ کا عرب رہنماؤں کو خصوصی پیغام
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی،یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا۔غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی۔غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ۔اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل،تجاویز میں شامل
منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے،عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقات نتیجہ خیز رہی، امریکی خصوصی ایلچی
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں جن میں شامل ہیں؛مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی۔یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا۔غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی۔ غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ۔اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل۔علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید” قرار دیا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماو?ں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کردی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے” کے مترادف ہوگا۔