بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب؛ مایا علی کا پاک فوج کو خراج عقیدت
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
پاکستان کی فضائیہ کے شاندار ردعمل اور بھارتی جارحیت کے دندان شکن جواب کے بعد پورا ملک ایک بار پھر اپنے جوانوں کے عزم اور بہادری پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ اس موقع پر معروف اداکارہ مایا علی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پاک فوج کےلیے جذباتی پیغام شیئر کیا ہے۔
مایا علی نے نہ صرف پاک افواج کی بے مثال قربانیوں کو سراہا بلکہ امن کے لیے اپنی گہری خواہش کا اظہار بھی کیا۔
مایا علی نے اپنے پیغام میں پاک فوج کے جوانوں کی بے مثال ہمت کو سلام پیش کیا، جنہوں نے دشمن کے سامنے ڈٹ کر ملک کی حفاظت کی۔ انہوں نے قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’’10 مئی 2025، وہ دن جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنگ بندی دونوں طرف کے لیے امن لاتی ہے، اور میں ہمیشہ کہتی رہی ہوں کہ جنگ کبھی حل نہیں ہوتی۔‘‘
View this post on InstagramA post shared by Maya Ali (@official_mayaali)
ان کے الفاظ نے نہ صرف فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ ایک پرامن مستقبل کی خواہش بھی ظاہر کی۔
یاد رہے کہ 10 مئی 2025 کی صبح، پاکستان نے ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کے تحت بھارت کی فوجی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ ادھم پور، آدم پور اور پٹھان کوٹ کے اہم فضائی اڈوں سمیت متعدد اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے پاک فضائیہ نے ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کی۔ یہ کارروائی اتنی جامع تھی کہ بھارت کو جلد ہی اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی ثالثی میں دونوں طرف کے حکام فوری جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مایا علی
پڑھیں:
دنیا بھر کے اہل عقیدت کربلا جا رہے ہیں اور اہل پاکستان
اسلام ٹائمز: برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشہور امریکی صحافی جکسن ہینکل نے ٹویٹ کیا کہ میں اربعین واک کے لیے عراق جا رہا ہوں، ان کی اس ٹویٹ سے کمنٹس کا ایک طوفان آگیا۔ جکسن امریکہ میں رہتے ہیں مگر یوں سمجھیے ان کی روح فلسطین میں رہتی ہے۔ وہ ہر وقت اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور امریکی فیصلہ سازوں کی منافقت اور اسرائیلی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں مگر جیسے ہی انہوں نے عراق اور مشی پر جانے کا اعلان کیا آل سعود اور استعمار کے گماشتے ان پر حملہ آور ہوگئے کہ وہ آخر کیوں اس واک میں شریک ہو رہے ہیں؟ سب سے قابل رحم حالت ان کوتاہ فکر لوگوں کی تھی جو ایک مذہب سے بھی آزاد خیال جکسن کو یہ سمجھا رہے تھے کہ کربلا جانا شرعی طور پر حرام ہے اس لیے آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیئے۔ یہ خطے پر امریکی اسلام کے اثرات ہیں جو لوگوں کو حریت پسندوں کے امام کی زیارت سے روکتے ہیں۔ جکسن نے عراق پہنچ کر فلسطین کانفرنس میں شرکت کی اور بہت بہترین انداز میں اہل فلسطین کا مقدمہ پیش کیا۔ اب وہ مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں کہ کیسے اربعین واک دنیا بھر کے مظلوموں بالخصوص اہل فلسطین کے لیے آواز بن رہی ہے۔ بچے، جوان اور مزاحمت کار کیسے نسل پرستوں اور نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
سچی بات ہے آج کل سوشل میڈیا کو اس لیے نہیں دیکھ رہا کہ ہر طرف اربعین کی ویڈیوز اور مشی کے تذکرے ہیں۔ جسم یہاں اور دل اسی راستے پر ہے، یوں لگتا ہے وہیں کہیں ہم بھی عازم کربلا ہیں۔ اللہ کے تکوینی ارادے کی طاقت کا عملی اظہار ہے آج لوگ عراقی صحرا کی پچپن درجہ حرارت گرمی میں سوئے کربلا بڑھ رہے ہیں۔اہل عراق کے جود و سخی اور محبت اہلبیتؑ بلکہ عشق اہلبیتؑ کی ایسی حیرت انگیز مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کل برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ جب سماج اپنے والدین کو گھروں سے باہر نکال رہا ہے تو محبت حسینؑ یہ تربیت کر رہی ہے کہ سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے مہمانوں کو تلاش کرو اور گھر لا کر ان کی بہترین خدمت کرو۔
اس بار اہل پاکستان کی کمی کو ایران و عراق ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کچھ فلائٹس چلیں اور خوش قسمت عشاق حسینؑ مشی میں کربلا پہنچ گئے مگر ہزاروں کی تعداد میں غریب زائرین اپنی حسرتیں لیے وطن میں ہی منتظر رہ گئے، حکومت نے بلوچستان میں جو مسائل بتائے ہیں وہ یقینا ہوں گے اور پچھلے ایک ہفتے میں بلوچستان میں ایک سو سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ واقعات کچھ بڑی پلاننگ کی گئی تھی جس کی بھنک ہمارے اداروں کو پڑ گئی۔ اس سب سے زائرین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ فوری طور پر فلائٹس چلیں گی۔ آج کی تاریخ تک اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی غالبا صرف ایک فلائٹ غالبا کوئٹہ سے تفتان ہوئی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بار بار اس پر بحث ہو رہی ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑی نااہلی ہے بلوچستان کے حالات سب کے سامنے تھے اور ہمارے وزیر داخلہ محترم جناب محسن نقوی صاحب کبھی ایران اور کبھی عراق اربعین کے حوالے سے مسلسل مصروف نظر آئے۔ سچ پوچھیں تو ہم پر امید تھے کہ اس بار ہمیں اربعین میں زیادہ سہولیات مسیر آئیں گی اور بڑی تعداد میں اہل وطن اربعین کے موقع پر شریک مشی ہو سکیں گے۔ ویزے اور چند ابتدائی معاملات کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی سننے کو ملیں۔
میٹنگز اور ساری دوڑ دھوپ کا نتیجہ صفر نکلا کہ زائرین کے سفرِ اربعین پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ حکومت پورا سال سوئی رہتی ہے اور آخری ماہ میں بہت سے ایس او پیز یاد آ جاتے ہیں۔ اللہ کے بندوں لاکھوں اہل وطن کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہو، کسی نے عمر بھر پائی پائی جمع کرکے نواسہ پیغمبرﷺ کے پاس جانے کے وسائل مہیا کیے ہیں، کچھ نے کمیٹیاں ڈالی ہیں، کچھ نے جانور فروخت کیے ہیں اور کچھ تو قرض لے کر عازم کربلا ہونا چاہتے تھے مگر بیروکریسی کی نااہلیوں کی وجہ سے ان جذبات کا خون کیا گیا۔ ہر سال یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ فیری سروس شروع کی جائے گی۔ اب تو یہ لگنے لگا ہے کہ یہ باقاعدہ ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے کہ اس طرح کے بیانات دے کر اہل وطن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے اور جیسے ہی اربعین گزر جائے پھر سے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جائیں۔
یہاں ہر طرح کا مافیا عروج پر ہے ،بائی ائر روٹ والے اور بسوں کے کاروبار سے وابستہ طاقتور گروہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ فیری سروس شروع ہو، اس سے ان کے استحصال کا راستہ بند ہو جائے گا۔ بہت سے اور لوگ بھی ہیں جن کا کاروبار زائرین کے نام پر حکومتی خزانہ لوٹنے سے چلتا ہے ان کا ذریعہ آمدن بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے یہ گروہ زائرین کے لیے کسی بھی آسانی کے خلاف ہیں۔ زاہدان سے کوئٹہ دو اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ ہے، ایک بہت موثر آپریشن ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جس سے زائرین بروقت منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ کراچی سے ایرانی بندرہ گاہ چاہ بہار تک فاصلہ 347 ناٹیکل میل ہے اور یہ سفر چودہ گھنٹے میں مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ مہنگا بھی ہو تو پندرہ سے بیس ہزار کرایہ لگے گا۔ کراچی سے بصرہ بھی دو دنوں کا سفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت جلد از جلد اہل پاکستان کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گا جب مختلف آپشنر ہوں گے تو سفری اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔