واشنگٹن میں امریکی نیشنل گارڈز کی 20 سالہ اہلکار سارا بیک اسٹروم ہلاک، صدر ٹرمپ کا خراجِ عقیدت
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے قریب افغان شہری کی گھات لگا کر فائرنگ میں شدید زخمی ہونے والی نیشنل گارڈز کی 20 سالہ اہلکار سارا بیک اسٹروم دم توڑ گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس افسوسناک خبر کی تصدیق تھینکس گیونگ کے موقع پر سروس ممبرز سے گفتگو کے دوران کی اور سارا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ سارا ایک شاندار، باصلاحیت اور انتہائی باوقار نوجوان اہلکار تھیں، جنہوں نے جون 2023 میں سروس شروع کی اور ہر لحاظ سے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے افغان حملہ آور کے بھی شدید زخمی ہونے کی تصدیق کی اور واضح کیا کہ نیشنل گارڈز اور سیکیورٹی فورسز ملک کی خدمت کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں اور ان پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں امریکہ کی عسکری طاقت کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ کے پاس دنیا کی سب سے مضبوط فوج اور جدید ترین دفاعی آلات موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بی 2 بمبار طیاروں نے 37 گھنٹے کی طویل فلائٹ کے بعد اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور پائلٹس بالکل ٹام کروز کی طرح بہادر اور ماہر ہیں۔ مزید یہ کہ کچھ ہی دیر قبل امریکی فضائیہ کی طاقت بڑھانے کے لیے مزید بی 2 بمبار طیاروں کے آرڈرز پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کے اس حملے میں سارا کے ساتھ ایئر فورس اسٹاف 24 سالہ سارجنٹ اینڈریو وولف بھی زخمی ہوئے تھے۔ دونوں اہلکاروں کو ایمبوش اسٹائل فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ڈیوٹی سے واپس آ رہے تھے، حملہ اتنا اچانک تھا کہ انہیں دفاع کا موقع بھی نہ مل سکا۔ سارا بیک اسٹروم اور اینڈریو وولف نیشنل گارڈ کے اہلکار تھے جنہیں اگست میں واشنگٹن ڈی سی بھیجا گیا تھا، جب صدر ٹرمپ نے وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف ریاستوں سے نیشنل گارڈ طلب کیے تھے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
شکست خوردہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتی دنیا
اسلام ٹآئمز: واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ خصوصی رپورٹ:
ایک امریکی اخبار نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ "دور ما بعد امریکہ" (Post-American Era)، جس کی پیشگوئی پہلے تجزیہ کار پہلے ہی کر رہے تھے، اب اس کا وقت آ چکا ہے۔ اپنی رپورٹ میں امریکی جریدے نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دور ما بعد امریکہ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس تجزیے کی بنیاد اس بات کو قرار دیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت ایک ایسے سالانہ اجلاس سے مکمل غیر حاضر رہی جو ہمیشہ سے مغربی جمہوریتوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو مضبوط کرنے کا اہم ترین فورم سمجھا جاتا ہے۔
تجزیئے کے مطابق اس سال ہالیفاکس بین الاقوامی سلامتی کانفرنس ایک بالکل مختلف ماحول میں منعقد ہوئی، جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت اور امریکی فوج کی مکمل غیر موجودگی، اور امریکی صدر ٹرمپ کی امریکہ سب سے پہلے جیسی پالیسیوں سے واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کی گہری مایوسی اور نا امیدی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال نہ ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ اہلکار اور نہ ہی پینٹاگون کا کوئی جنرل یا ایڈمرل ہالیفاکس میں دکھائی دیا۔ امریکہ کی واحد باضابطہ نمائندگی سینیٹ کے دو جماعتی وفد نے کی، لیکن ان ریپبلکن اراکین کو بھی شرکاء کی جانب سے ٹرمپ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ کینیڈین مصنوعات پر پہلے سے نافذ 35 فیصد محصولات میں مزید 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا، یوں اب کینیڈا اپنے ایک اہم ترین اتحادی کی جانب سے 45 فیصد تک ڈیوٹی کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ شرح یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان پر عائد 15 فیصد محصولات سے کہیں زیادہ ہے اور اس نے کینیڈا کو معاشی کساد بازاری کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جواب میں اوٹاوا نے جوابی محصولات لگائے، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، اور یہاں تک کہ امریکی ایف-35 جنگی طیاروں کی خرید منسوخ کرنے اور انہیں سویڈش گریپن طیاروں سے بدلنے پر بھی غور کیا۔ اس کے بعد امریکہ کا سفارتی میدان سے غائب ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نہ صرف ہالیفاکس اجلاس سے غیر حاضر رہی بلکہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی-20 کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا۔
مصنف سوال کرتا ہے کہ جب امریکہ خود ہی میدان میں موجود نہیں تو اسے سفارتی کامیابی کی امید کیسے ہو سکتی ہے؟۔ گروپ 20 اجلاس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی غیر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا مختلف معاملات میں واشنگٹن کے بغیر بھی پیش رفت کر سکتی ہے۔ واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ جی-20 اجلاس کے دوران امریکہ کی غیر حاضری میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کیا جائے، لیکن جنوبی افریقہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مکمل اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ امریکی اتحادیوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لئے ہالیفاکس کی سالانہ سلامتی کانفرنس میں کینیڈا اور یورپ کے شرکاء نے واضح طور پر کہا کہ اب وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں بہت سے لوگ اسے ایک عارضی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اب کوئی بھی ایسی امید نہیں رکھتا۔ اب ایک نیا سناریو شروع پو چکا ہے۔ یعنی امریکہ کے بغیر مغرب میں سامنے آتا نیٹو۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ "بعد از امریکہ دنیا" جس کی فرید زکریا نے 2008 میں پیشگوئی کی تھی، اب واقعی سامنے آ چکی ہے۔ وہ عالمی جمہوری اتحاد کا خواب جسے جان مکین برسوں تک اسی ہالیفاکس فورم میں فروغ دیتے رہے، اب غالباً امریکہ کی عدم موجودگی میں، یورپ اور ایشیائی جمہوریتوں کی قیادت میں آگے بڑھایا جائے گا۔