حساس انٹیلیجنس کیوجہ سے امریکا نے پاک بھارت کشیدگی میں اپنی مداخلت بڑھائی، امریکی صحافی کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں فریقین کو بات چیت پر آمادہ کیا ہے، امریکا سمجھتا ہے کہ نائب صدر وینس کا مودی کو فون کرنا اس سارے معاملے میں اہم موڑ تھا۔ اسلام ٹائمز۔ وائٹ ہاؤس کو کور کرنے والی امریکی ٹی وی سی این این کی صحافی آلیانہ ٹرینی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جمعہ کی صبح امریکا کو ایک تشویشناک انٹیلی جنس موصول ہوئی، اس حساس انٹیلی جنس کی وجہ سے امریکا نے پاک بھارت کشیدگی میں اپنی مداخلت بڑھائی۔ امریکی صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ امریکی عہدیداروں نے حساس ہونے کی وجہ سے اس انٹیلی جنس کی نوعیت نہیں بتائی۔ نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے بھارتی وزیراعظم مودی کو فون کیا، وینس نے مودی کو بتایا کہ کشیدگی جاری رہی تو ہفتے کے اختتام پر اس میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔ صحافی نے کہا کہ نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ روبیو اور وائٹ ہاؤس چیف آف اسٹاف پاک بھارت تنازع کو مانیٹر کر رہے تھے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وین نے جنگ بندی مذاکرات کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کیا، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ امریکی نائب صدر نے مودی پر پاکستان سے براہ راست رابطہ کرنے کے لیے زور ڈالا، وینس نے مودی پر زور ڈالا کہ کشیدگی کم کرنے کے متبادل راستوں پر غور کیا جائے، نائب صدر نے مودی کو ممکنہ متبادل راستے کی ایسی تجویز بھی دی، جو پاکستان کے لیے بھی قابل قبول ہوسکتی تھی۔ اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ اور محکمہ خارجہ کے اہلکار رات بھر بھارت، پاکستان حکام سے رابطے میں رہے۔ امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں فریقین کو بات چیت پر آمادہ کیا ہے، امریکا سمجھتا ہے کہ نائب صدر وینس کا مودی کو فون کرنا اس سارے معاملے میں اہم موڑ تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی صحافی مودی کو فون کی صحافی کیا ہے
پڑھیں:
امریکی حملے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے میں ناکام رہے، انٹیلیجنس رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی نیوز چینل سی این این اور نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے ابتدائی جائزے کے مطابق امریکی فوج کی جانب سے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملے اس کے جوہری پروگرام کے بنیادی اجزا کو تباہ کرنے میں ناکام رہے، اور ان حملوں کے نتیجے میں یہ پروگرام صرف چند ماہ پیچھے چلا گیا۔
اسرائیل اور ایران جنگ بندی پر متفق: ٹرمپ کا اعلان
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاہم منگل کو امریکی میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ایران پر امریکی حملوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ کے لیے روک دیا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کہا، ’’ایران میں جوہری مقامات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں!‘‘
وائٹ ہاؤس نے بھی گوکہ اس انٹیلیجنس جائزے کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ ’ہم اس سے متفق نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
‘وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ جب آپ 30 ہزار پاؤنڈ وزنی 14 بم ٹھیک نشانے پر گراتے ہیں، تو اس کا مطلب مکمل تباہی ہوتا ہے، نہ کہ جزوی نقصان ہوتا ہے۔
ایران پر امریکی حملے، کون سا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے؟
امریکی فوج کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ آپریشن منصوبے کے مطابق مکمل ہوا اور اسے زبردست کامیابی قرار دیا گیا ہے.
رپورٹ میں کیا ہے؟ذرائع کے مطابق یہ ابتدائی جائزہ امریکی محکمہ دفاع کی انٹیلیجنس ایجنسی (ڈی آئی اے) نے تیار کیا ہے اور یہ رپورٹ امریکی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے حملوں کے بعد کیے گئے (جنگی نقصان کے تجزیے) کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
تاہم، ایرانی جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان اور اس کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ ابھی جاری ہے، اور مزید معلومات آنے پر یہ نتائج تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ابتدائی نتائج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کی افزودگی کی تنصیبات کو ’مکمل اور پورے طور پر تباہ کر دیا‘ ہے۔
اس سے قبل، امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں ’تباہ کر دی گئی ہیں۔‘
رپورٹ سے واقف دو افراد نے بتایا کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ تباہ نہیں ہوا، ایک ذریعے نے کہا کہ سنٹری فیوجز بڑی حد تک ’صحیح سلامت‘ ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈی آئی اے کا اندازہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے پروگرام کو شاید زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کے لیے پیچھے دھکیلا ہے۔
ذرائع کے مطابق، فردو، نطنز اور اصفہان کی تینوں تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان زیادہ تر زمین سے اوپر کے ڈھانچوں تک محدود رہا، جن میں توانائی کے انفراسٹرکچر اور وہ عمارتیں شامل ہیں جو یورینیم کو دھات میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے عمل کا ایک مرحلہ ہے۔
ایران نے کیا کہا؟ایران کی حکومت نے منگل کو کہا کہ اس نے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ’’ضروری اقدامات‘‘ کیے ہیں۔
ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلمی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا، "(سہولیات) کو دوبارہ شروع کرنے کے منصوبے پہلے سے تیار کر لیے گئے ہیں، اور ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ پیداوار اور خدمات میں خلل نہ پڑے۔‘‘
اس دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر نے کہا کہ ان کے ملک کے پاس اب بھی افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے اور یہ کہ ’’کھیل ختم نہیں ہوا ہے۔
‘‘ ٹرمپ کے مواخذے کی کوشش مستردامریکی ایوان نمائندگان نے کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران پر فوجی حملے شروع کرنے کے لیے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کوشش کو مسترد کرنے کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹیکساس کے ڈیموکریٹ آل گرین کی طرف سے ایوان میں لائی گئی تحریک پر بہت کم بحث ہوئی اور ان کی پارٹی بھی اس معاملے پر منقسم تھی۔
مواخذے کی کوشش کو مسترد کرنے میں سے بہت سے ڈیموکریٹس اپنے ریپبلکن ساتھیوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ووٹ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے، گرین نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ ’’جمہوریت اور خود مختاری کے دو راہے پر‘‘ ہے۔
گرین نے کہا، "میں نے یہ تحریک اس لیے پیش کی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ امریکہ کی کانگریس سے مشاورت کے بغیر 300 ملین سے زیادہ لوگوں کو جنگ میں لے جائے۔‘‘
ٹرمپ کے مواخذے کی یہ تحریک 344 کے مقابلے 79 ووٹوں سے ناکام ہو گئی۔
ادارت: صلاح الدین زین