' پیام مشرق' کو منصہ شہود پر آئے پورے سو برس بیت گئے۔ ہمارے ڈاکٹر تحسین فراقی اور ان کی بزم اقبال نے اس موقع کو ضایع نہیں جانے دیا۔ ' پیام مشرق ' کا ڈی لکس ایڈیشن شائع کر کے اس موقع کو یادگار بنا دیا ہے۔ اس پر وہ اور ان کا ادارہ مبارک باد کا مستحق ہے۔گوئٹے کی مشرق کے اسرار میں دل چسپی اور اس کے دیوان نے افکار کی دنیا میں کیا ہل چل مچائی؟ اقبال کی ' پیام مشرق ' اسی سوال کا جواب ہے۔
یہ ناگزیر تھا کہ 'پیام مشرق' کی صدی مکمل ہونے پر اس کا پس منظر کو بیان کیا جائے جس کی وجہ سے یہ شاہ کار وجود میں آیا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے یہ اہم کام بڑے اہتمام سے کیا ہے اور اس مقصد کے لیے قریباً 80 صفحات پر مشتمل ایک دیباچہ تحریر کیا ہے۔ دیباچے میں انھوں نے اقبال اور گوئٹے کی شخصیت اور فکر کے ضروری حصوں پر روشنی ڈالی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے اس دیباچے میں وجد کی کیفیت ہے اور ان کے قلم سے الفاظ کسی قدرتی جھرنے کی طرح بہتے چلے گئے ہیں۔ ایک آمد کی سی کیفیت ہے جس میں وہ اقبال اور گوئٹے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ان کے فکر کو چھوتے ہوئے اس کی گہرائی اور گیرائی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ' پیام مشرق ' کے انتساب کو اگر اس مجموعے کا حاصل سمجھا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں اقبال امیر امان اللہ خان کو بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کیا ہیں اور اس کی اپنی قوم خوار و زبوں کیوں ہے۔ ڈاکٹر فراقی دیباچے میں اقبال کے اس فکری شاہ کار کے اس حصے کو چھوتے ہوئے ان کے شعری مزاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پھر ان کے کلام کے فنی کمالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
' پیام مشرق ' معمولی کتاب نہیں، اس کا شمار دنیائے فکر کی امہات کتب میں کیا جانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے دیباچے میں بھی اسی علمی معراج پر نظر آتے ہیں اور وہ ایک جوئے رواں میں اقبال کے موضوعات اور تصورات کا تذکرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اقبال کے ساتھ ایک نہیں کئی حادثات ہوئے ہیں۔ حادثے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کے شارحین اور مترجمین نے ان کی ترجمانی کے نام پر اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے لہٰذا لوگوں تک اصل اقبال تو نہیں پہنچ سکا، وہ اقبال پہنچ گیا جو وہ نہیں تھا لہٰذا اقبال کے بارے میں غلط فہمیوں کا ایک جہان وجود میں آ گیا۔ اقبال کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ کچھ لوگ اقبال کو پڑھے اور سمجھے بغیر ماہرین اقبالیات بن گئے جنھوں نے اقبال کے بارے ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑیں جن کی برکت سے وہ صرف اور صرف کسی علامہ یا مولوی کا اقبال بن کر رہ گیا۔
خوش قسمتی سے اگر یہ مخلوق اس دیباچے سے کسی قدر فیض حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی تو آیندہ چند دہائیوں کے لیے ان کی گفتگو میں کام کی کچھ باتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔ اس اعتبار سے یہ دیباچہ گویا ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا نور طویل عرصے تک ہمارے قلب و نظر کو فیض یاب کرتا رہے گا۔اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ' پیام مشرق ' ایک علمی اور فکری شاہ کار ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریر کو اس کے بلند معیار سے نیچے نہیں اترنے دیا۔ ماہر اقبالیات کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کی یہ خدمت تادیر یاد رکھی جائے گی اور اس سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔
بلند خیالی اقبال کے مزاج کا سب سے بڑا وصف ہے لیکن اپنے اس وصف میں وہ جتنے عروج پر جاتے ہیں اتنے ہی بے باک بھی ہو جاتے ہیں اور جہاں محسوس کرتے ہیں، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہہ کر وہ کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں جسے سن کر ہما شما سناٹے میں آ جاتے ہیں۔ ان کا ' شکوہ ' اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
ان سطور کے لکھنے والے کو کوئی دعویٰ تو ہرگز نہیں۔ وہ خود کو اقبال کے خوشہ چینوں کے ہم مرتبہ سمجھنے کی جرات رندانہ بھی نہیں رکھتا البتہ ایک عامی کی حیثیت سے اس کے ذہن میں کچھ سوالات ہیں جو پریشانی میں بدل چکے ہیں۔ تفصیل سے بچنے کے لیے اس پریشانی کو اگر ایک سوال کی صورت دی جائے تو یہ ہو گی کہ ' پیام مشرق ' کا ہماری آج کی زندگی سے تعلق کیا ہے؟
یہ سوال اتنا آسان نہیں۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑے فلسفی کے فلسفے کو زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے ساتھ جوڑنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ اعتراض وزن رکھتا ہے لیکن اپنے مشفق و مہرباں ڈاکٹر تحسین فراقی سے مجھے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ ان کے لطف و کرم سے میں ہمیشہ فیض یاب رہا ہوں۔ اس لیے میں اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔ہمارے آج کا سلگتا ہوا مسئلہ فلسطین ہے جہاں دشمن نے باقاعدہ نسل کشی کر کے پچاس ہزار سے زائد مسلمان تہہ تیغ اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
ہماری سرزمینوں پر صرف فلسطین اور کشمیر ہی تو دو ایسے خطے نہیں جہاں ظلم ہو رہا ہے اور لہو بہہ رہا ہے۔ نگاہ جس طرف بھی اٹھتی ہے، ایک ہی ماجرا دکھائی دیتا ہے۔ سوویت یونین ہو یا امریکا، باہر سے آنے والوں نے بھی افغانستان میں بہت تباہی مچائی اور پانی کی طرح خون بہایا ہے لیکن یہ خون ریزی اور تباہی اس سے کہیں کم ہے جتنی خود اس سرزمین پر بسنے والوں نے کی ہے۔
ہم جانتے بھی ہیں اور ہمیں بتایا بھی جاتا ہے کہ قدرت نے جتنی دولت اور جتنے خزانے ہمیں عطا کیے ہیں، شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئے ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ غربت اس کے باوجود ہمارے معاشروں میں ہی ننگا ناچ ناچتی ہے۔ کیا سبب ہے کہ ہماری دولت خود ہمارے اپنے کام نہیں آتی اور یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم نادار ہیں اور کمزور بھی۔
یہ بات ان چند سوالوں پر ختم نہیں ہو جاتی، سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا اور کوئی نہیں ہے جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھ کر ہماری بے چینی کو چین میں بدل سکے۔
گھمسان کے اس رن میں میرا سوال یہی ہے کہ وہ حکیم الامت جس نے ایک صدی پیش تر ہمارے مرض کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کر کے ایک شافی نسخہ تجویز کیا تھا، اس کی بیاض میں ہمارے تازہ دکھوں کا بھی کوئی علاج ہے کہ نہیں؟ 'پیام مشرق' میرے لیے اسی وجہ سے اہم ہے اور میں اسی نیت سے اس کے مطالعے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر تحسین فراقی ہماری کچھ راہ نمائی اس ضمن میں بھی کرتے۔ ' پیام مشرق' ان سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر صاحب کو 80 مزید صفحات لکھنے پڑیں گے، اگر بدقسمتی سے جواب فراہم نہیں کرتی تو بھی اتنا ہی طویل ایک اور مقدمہ لکھنے کی ضرورت ہو گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر تحسین فراقی ڈاکٹر صاحب پیام مشرق اقبال کے جاتے ہیں ہیں اور اور اس ہے اور کے لیے
پڑھیں:
’اسلام کا دفاع‘
ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر 500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔
منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔
عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔ صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔
کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔
میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔
میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا
’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔
کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘
حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے
’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔
ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا
مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا
’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘
ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں