یمنی بندرگاہوں پر اسرائیل نے حملہ نہیں کیا، انصار اللہ کے سینئر رکن
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
محمد البخیتی، انصاراللہ کی سیاسی کونسل کے رکن نے تاکید کر کے کہا کہ یمن کی بندرگاہوں پر صیہونی حکومت کا کوئی حملہ نہیں ہوا، اگرچہ ان پر بمباری کے امکانات موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ کی اعلیٰ سطح کی قیادت کے ایک رکن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے یمن کی بندرگاہوں پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، انصاراللہ کی سیاسی کونسل کے رکن نے صیہونی حکومت کی جانب سے یمن کی تین بندرگاہوں پر بمباری کی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک ان بندرگاہوں پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے۔ محمد البخیتی، انصاراللہ کی سیاسی کونسل کے رکن نے تاکید کر کے کہا کہ یمن کی بندرگاہوں پر صیہونی حکومت کا کوئی حملہ نہیں ہوا، اگرچہ ان پر بمباری کے امکانات موجود ہیں۔
انہوں نے الجزیرہ مباشر کو انٹرویو میں کہا کہ یمن کی کارروائیاں صیہونی حکومت کے خلاف جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یمن، اسرائیل کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ جنگ کے نئے اصول مسلط کرے اور عرب خطے کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے۔ چند گھنٹے قبل، صیہونی حکومت کی فوج نے یمن میں رأس عیسیٰ، الحدیدہ اور الصلیف کی بندرگاہوں کو فوری طور پر خالی کرنے کی وارننگ جاری کی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے ان بندرگاہوں میں موجود افراد سے کہا کہ وہ فوراً ان علاقوں کو چھوڑ دیں۔ کچھ اسرائیلی میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی لڑاکا طیارے ان تین یمنی بندرگاہوں پر بمباری کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کوئی حملہ نہیں انصاراللہ کی کی بندرگاہوں بندرگاہوں پر صیہونی حکومت کہا کہ یمن یمن کی
پڑھیں:
گروسی امریکہ و اسرائیل کیلئے جاسوسی میں مشغول ہے، دنیا کی سب سے بڑی صیہونی لابی کا برملاء اعتراف
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ایران سے متعلق صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کے زیر اہتمام منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں صیہونی ماہرین نے برملاء اعتراف کیا ہے کہ سربراہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے ہی ایران کیخلاف امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں موثر کردار ادا کرتے ہوئے ایران کی کمزوریوں کی نشاندہی میں امریکہ کو خصوصی مدد پہنچائی ہے اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے قریب آنے پر، دنیا کی سب سے بڑی صیہونی لابی فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) نے واشنگٹن میں ایک اہم اجلاس منعقد کیا ہے کہ جس کا مقصد اُن طریقوں کا جائزہ لینا تھا کہ جن کے ذریعے امریکہ، ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو استعمال میں لا سکتا ہے۔ اس اجلاس میں؛ سی ای او ایف ڈی ڈی جوناتھن شینزر، سینئر مشیر رچرڈ گولڈ برگ، چین کے پروگرام ڈائریکٹر کریگ سنگلٹن اور ڈائریکٹر آف دی ٹیکنالوجی اینڈ سائبر لیب مارک مونٹگمری نے شرکت کی جبکہ صیہونی ماہرین کی اس ٹیم نے ایران کو، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے، خاص طور پر عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسی کثیر الجہتی تنظیموں کے میدان میں، نہ صرف ٹیکٹیکل بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک "تزویراتی چیلنج" قرار دیا!
اس بحث کے اہم موضوعات میں سے ایک سیکرٹری جنرل آئی اے ای اے رافائل گروسی کا کردار بھی تھا جبکہ وہاں موجود اسرائیلی ماہرین کے مطابق، اسی "ایران مخالف کردار" کے سبب رافائل گروسی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے بھی ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔ ایف ڈی ڈی کے ماہرین کے مطابق اس تشخیص کی اہم وجہ "رافائل گروسی کی جانب سے امریکی ایجنڈے کے عین مطابق اور واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگی کے ساتھ، ایرانی جوہری کیس کا انتظام و انصرام" ہے۔ صیہونی ماہرین نے رافائل گروسی کو ایک ایسا فرد قرار دیا کہ جو غیر ضروری تناؤ پیدا کئے بغیر ہی، انتہائی مؤثر طریقے سے ایران کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہا کہ جسے امریکی نقطہ نظر سے "اسٹریٹیجک فائدہ" قرار دیا جا رہا ہے۔
ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق اس اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ایران کی "جوہری عقب نشینی" درحقیقت واشنگٹن کے لئے ایک کامیابی ہے جبکہ رافائل گروسی ہی کی "سفارتکاری" نے ایران کی محدودیتوں کو نمایاں کیا اور یہی امر امریکہ کے لئے ایک قسم کی "نرم فتح" یا "نرم طاقت پر مبنی اہم کامیابی" کا سبب بنی ہے۔
-
اس حوالے سے صیہونی ماہرین نے مزید تاکید کی کہ امریکہ کو خصوصی ایجنسیوں پر اثر انداز ہونے پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے نہ کہ صرف سیکرٹری جنرل پر کیونکہ ایرانی جوہری معاملے کا براہ راست طور پر، اس ایجنسی کے ریگولیٹری فنکشن کے ساتھ تعلق ہے لہذا اس جیسے عالمی اداروں میں "مغرب نواز قیادت" کو یقینی بنانا ہی بالواسطہ طور پر ایران کو محدود کرے گا۔ ایف ڈی ڈی کے ماہرین نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے چینی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی موجودگی کے بارے میں بھی "تشویش" کا اظہار کیا اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین اور روس جیسی طاقتوں کہ جن کے مفادات ایران کے ساتھ منسلک ہیں، کے زیر اثر کثیر الجہتی ریگولیٹری ڈھانچے کا وجود، اس عمل کو پیچیدہ بنا سکتا ہے لہذا امریکہ ان اداروں کی مالی امداد کے ذریعے اپنا مطلوبہ اثر و رسوخ استعمال کرے کیونکہ اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اربوں ڈالر خرچ ہونے جا رہے ہیں تو اس مالیاتی فائدے کو "مطلوبہ اصلاحات" یا "ایران سے متعلق پابندیوں کے نفاذ" کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے!