بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے کیے گئے پاک فوج کے آپریشن بنیان المرصوص کے دوران حافظ عبدالرؤف کے مارے جانے کا بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب ہوگیا۔

رپورٹ کے مطابق مسعود اظہر کے بھائی  حافظ عبدالرؤف کے مارے جانے  کی خبریں بھارتی میڈیا میں زیر گردش ہیں، بھارتی حکومت اور میڈیا دونوں اس حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں، مولانا حافظ عبدالرؤف کی نماز جنازہ کی تصاویر برطانیہ میں تعینات بھارتی سفیر نے اسکائے نیوز کے پروگرام میں دکھائیں۔

حافظ عبدالرؤف کے مارے جانے کی خبر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں  حافظ عبدالرؤف کے مارے جانے کے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا۔

پریس کانفرنس کے دوران ثبوت کے طور پر حافظ عبدالرؤف کا تازہ ویڈیو بیان میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، حافظ عبدالرؤف پاکستان کی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں۔

بھارتی حکومت نے حافظ عبدالرؤف  کی تصاویر کا غلط استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکا م کوشش کی، بھارت  کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر تھوپ دیتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حافظ عبدالرؤف کے مارے جانے حافظ عبدالرو ف ف کے مارے جانے

پڑھیں:

ہمالیہ کی گھاٹیوں سے فولادی بھائیوں تک

یہ تاریخ کاایک نادرباب ہے کہ جہاں کل تک ہندی چینی بھائی بھائی کی صدائیں گونج رہی تھیں،آج وہاں تمام موسموں کے فولادی بھائیوں کی داستان رقم ہوچکی ہے۔یہ محض سیاسی تقرب کانتیجہ نہ تھابلکہ وقت کی سوئیوں کے ساتھ رواں بین الاقوامی مفادات، خطے کی حرکیات، اورعالمی قوتوں کی چالوں کاوہ پیچیدہ تاناباناتھا،جس نے دوایسے ممالک کوایک دوسرے کے پہلوبہ پہلو لاکھڑا کیا،جواپنے خمیرمیں یکسرمختلف،مگراپنے مقاصدمیں ہم آہنگ ہوگئے۔ہمالیہ کی گھاٹیوں سے فولادی بھائیوں تک اورہندی-چینی بھائی چارے سے چین-پاکستان اشتراک کی داستان کاایک ایسا آغازہوا جس نے آسمانوں کی بلندیوں اور وسعتوں،سمندروں کی گہرائی سے بھی کہیں زیادہ کی مثالیں سچ ثابت کردیں۔
دنیاکی سیاست میں کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں جوبظاہرحالات کے جبرسے بنتے ہیں، مگروقت انہیں ایسی پائیداری عطاکرتاہے کہ وہ نسلوں تک نظیربن جاتے ہیں۔چین اور پاکستان کے درمیان موجودہ تعلق کواگرفولادی بھائی چارہ کہاجائے تواس کی بنیادصرف مشترکہ مفادات پرنہیں بلکہ اس تاریخ پرہے جومغرب کی بچھائی ہوئی سرحدی بساط، سامراجی میراث،اورسردجنگ کی سفارتی دھند سے جنم لیتی ہے۔1950ء کی دہائی کے آغازمیں بیجنگ کادل دہلی پرمائل تھامگراگلی دہائی کے آتے آتے یہ دیوانگی سردپڑگئی،اور پاکستان، جو اس وقت امریکاکاقریبی اتحادی تھا،چین کیلئے ایک غیرمتوقع مگرموزوں رفیق بن گیا۔
مابعدِنوآبادیاتی عہدمیں جہاں نئی ریاستیں اپنی شناخت کیلئے کوشاں تھیں،وہیں چین،ایک عظیم الشان انقلابی تحریک کے بعد1949ء میں عوامی جمہوریہ کے طورپرابھرا۔بیجنگ کی اولین ترجیحات میں بھارت نمایاں تھا۔پچاس کی دہائی کے افق پراگرچین کی نظریں محبت ومفاہمت کے آئینے میں کسی چہرے کوتلاش کررہی تھیں تووہ چہرہ بھارت کاتھا،جس کے ساتھ پنچ شیل کے اصول اورافہام و تفہیم کی نویدسنائی جارہی تھی۔کمیونزم کی نئی حکومت بیجنگ میں منصہ شہودپرآئی،تواس نے امریکاکے مخالف کیمپ سے خودکو جوڑنے کیلئے سوویت اثرونفوذکے سائے میں بھارت کوزیادہ قابلِ اعتبار شراکت دارپایا۔اس وقت تک بھارت غیروابستہ تحریک کا علمبرداراورسوویت روس کیلئے ایک قابلِ اعتمادتوازن تصورہوتاتھا۔ چین اور بھارت نے پنچ شیل معاہدے(1954)پر دستخط کیے اور دنیانے ایک نئے بھائی چارے کاجشن منایا۔
اس وقت کے اخبارات،جلسے،اورپالیسی بیانات ہندی چینی بھائی بھائیکے نعروں سے گونج اٹھے۔چین نے اپنی سفارتی زبان میں پہلی بارایشیاکی مشترکہ تقدیرکاتصورپیش کیا،جس میں بھارت کوایک فطری ساتھی کی حیثیت دی گئی لیکن اندرونِ خانہ خاموشی سے ایک اورکہانی لکھ رہی تھی۔اکسائی چن اوراروناچل پردیش پرپرانی برطانوی لکیریں جھوٹے جغرافیائی خوابوں کی بنیاد بن چکی تھیں۔چین کے نزدیک یہ خطے تاریخی طور پر تبت یاسنکیانگ کاحصہ تھے،جبکہ بھارت انہیں کشمیر اوراپنے شمال مشرقی صوبے کا لازمی جزو گردانتارہا۔اس وقت پاکستان امریکاکی جھولی میں تھا،سیٹواورسنٹوکاوفاداررکن،اوراس کی خارجہ پالیسی میں امریکاکاسایہ ایسامحیط تھاجیسے صحرامیں کہیں دوردھندمیں لپٹاہواسراب لیکن کسی کومعلوم نہیں تھا کہ جلدہی یہ منظرنامہ بدلنے والا تھاجب دوست دشمن ہوجائے گا اوردشمن دوست بن جائے گااورایک خواب کی تعبیر اور تعبیرکی بربادی کاسفراس طرح شروع ہوجائے گا کہ ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگانے والے’’بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام کہنے‘‘ والوں کااصلی چہرہ سامنے آجائے گا۔
پرانے محاورے ہیں کہ دنیاکاکوئی تعلق ابدی نہیںاورسیاست میں مستقل دشمنی یادوستی کوئی شے نہیں،صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جس پرآنے والی دہائی نے مہرِتصدیق ثبت کی۔ہندی-چینی دوستی کی نرم چادرپر پہلی خراش1959کے بعد نمایاں ہوئی جب تبتی رہنما دلائی لامانے بھارت میں پناہ لی۔دلائی لاماکی بھارت میں پناہ گزینی،چین کیلئے سفارتی چوٹ تھی۔ اس وقت چین کی قیادت نے محسوس کیا کہ جس بھارت کووہ بھائی سمجھتارہا،وہ درحقیقت اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کامرتکب ہو منافق بن چکاہے۔
اکسائی چن کاسرحدی تنازع،مکماہون لائن پر اختلاف،اروناچل پردیش پرچین کے دعویان تمام قضیوں نے چین وبھارت تعلقات میں وہ دراڑ ڈالی جواب بڑھتے ہوئے دیوار چین بن چکی ہے ۔ اس کے بعداچانک بھارت کی طرف سے سرحدی جھڑپیں معمول بن گئیں جوجلدہی 1962ء کی جنگ پرمنتج ہوئی۔اس مختصر مگر شدید جنگ نے ہندی-چینی بھائی چارے کی تدفین کردی۔ اس جنگ نے جہاں نہ صرف برصغیرکے جغرافیائی توازن کوہلاکررکھ دیا،اورچین کے سیاسی مزاج کوبھی نئی جہت دی بلکہ ہمارے حکمران ایوب خان بھی امریکی دھوکہ میں آکر پلیٹ میں پڑے کشمیرکوحاصل نہ کرسکے گویا ’’لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزا‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔
یہی وہ ایک لمحہ تھاجب چین کواحساس ہواکہ بھارت نہ صرف اس کے جغرافیائی مفادات کیلئے خطرہ بن چکاہے بلکہ سردجنگ کے تناظرمیں امریکاسے بھی قریب ہوتاجارہاہے۔یوں چین نے متبادل ساتھی کی تلاش میں پاکستان کی طرف رخ کیا۔چین نے فیصلہ کرلیا کہ اگربھارت غیرقابلِ اعتماد ہے،توپاکستان،جس سے بھارت کی ازلی رقابت ہے،قابلِ غور دوست ہوسکتاہے۔اسی نکتے نے پاکستان اور چین دوستی کی سمت کاتعین کردیا۔
یہاں سوال اٹھتاہے کیایہ دوستی چین کی پیش رفت تھی یاپاکستان کی سیاسی فہم وفراست کی بدولت؟حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف سے یہ قربت تدریجا،لیکن پختگی سے پروان چڑھی ۔ پاکستان نے چین کوجلدی پہچان لیا1951ء میں پاکستان،چین کوتسلیم کرنے والا پہلامسلم ملک بنا جس نے چین کوسفارتی طورپرتسلیم کیاتھاحالانکہ پاکستان سیٹواورسنٹوجیسے امریکی معاہدوں کارکن بننے کے باوجود،جنرل ایوب خان کی قیادت میں ایک ’’متوازن خارجہ پالیسی‘‘ کا آغازہوا،جس میں چین کورفتہ رفتہ ایک اسٹریٹجک پارٹنرکے طور پر جگہ دی گئی۔جلدہی تجارت، ثقافت، سفارت، اور بالآخرعسکری وجغرافیائی اشتراک کاایساسلسلہ شروع ہواجس کی گونج آج تک جاری ہے۔ اینڈریوسمال کی کتاب’’دی چائنا پاکستان ایکسز، ایشیانیوجیو پالیٹکس‘ ‘ (چین پاکستان محور:ایشیاکی نئی جغرافیائی سیاست) میں یہی نکتہ اٹھایاگیاکہ 1950ء کی دہائی میں بیجنگ کے خوابوں میں دہلی تھالیکن حقیقت کی بیداری نے اسے اسلام آبادکی طرف مائل کر دیا۔
1963ء میں پاکستان اورچین کے درمیان سرحدی معاہدہ طے پایا،جس کے تحت پاکستان نے چین کوشکسگم ویلی(تقریباً 5,180مربع کلومیٹر علاقہ) دیا،جوگلگت بلتستان اور سنکیانگ کے درمیان واقع ہے۔اس معاہدے نے جہاں چین کوایک محفوظ زمینی راستہ فراہم کیا وہاں پاکستان کوایک عظیم دوست طاقت کی قربت حاصل ہوگئی۔گویاجہاں پاک چین اشتراک کی بنیادیں استوارہوناشروع ہوگئیں وہاں یہ معاہدہ بھارت کیلئے چونکانے والاتھا۔اس وقت کی بھارتی حکومت نہ صرف اسے سفارتی جارحیت قراردیابلکہ پاکستان نے اس کو خطے میں ایک بڑی جغرافیائی تبدیلی کاآغازبھی قراردے دیا اور یوں انڈیاکیلئے پاک چین دوستی ایک مشترکہ دشمن قرارٹھہری۔
1971ء کے بعداقوام متحدہ میں پاکستان نے چین کی نمائندگی کوتسلیم کروانے میں مرکزی کرداراداکیا۔1974ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا،چین نے نہ صرف اسے ’’عدم توازن‘‘قراردیابلکہ پاکستان کے خدشات کو ’’جائز‘‘ کہاجس کے بعدچین نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بھی بالواسطہ معاونت کی۔
کشمیرجہاں تین دیوتاؤں کے خواب ٹکراتے ہیں۔کشمیرکاتنازع ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیادسمجھاگیالیکن جغرافیائی حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیراب ایک سہ فریقی الجھن بن چکاہے اوراب چین بھی اس جھگڑے کاایک اہم فریق بن چکاہے۔ رونگ شنگ گوکے مطابق ،کشمیرکا 45.62 فیصدحصہ بھارت، 35.15 فیصدپاکستان،اور 19.23 فیصدچین کے زیرانتظام ہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مشق معرکہ بقا کیلئے سویلینز کی بھی نامزدگی
  • ایران میں اسرائیلی طیارے مار گرائے جانے کا دعوٰی
  • بھارتی میڈیا باز نہ آیا، ایئر انڈیا حادثے میں ترکیہ کو ملوث کرنے کا پروپیگنڈا بے نقاب
  • بھارتی میڈیا بے نقاب
  • ہمالیہ کی گھاٹیوں سے فولادی بھائیوں تک
  • امریکا کے ساتھ بھارت کی دوغلی پالیسی اور بدلتے پینترے، گودی میڈیا کی ٹرمپ پر تنقید
  • عاصم اظہر اور میرب علی کا منگنی ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان
  • لڑکی سے ملنے کیلیے آنے والے آشنا کے پکڑے جانے پر ساتھیوں نے فائرنگ کردی، دو زخمی
  • خاتون سے شوہر کے سامنے زیادتی کے ملزم کی مقابلے میں ہلاکت کا خدشہ ہے: بھائی کی درخواست
  • امریکا میں بھارتی خفیہ نیٹ ورک نقاب؛ ’’ہندو امریکن فاؤنڈیشن‘‘ مودی سرکار کا آلہ کار