چائنا میں صرف بیجنگ اور شنگھائی ہی نہیں بلکہ ’ گوانگشی‘ بھی ہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
بیجنگ کی بلند و بالا عمارات سے میں کام کرنے والے بستے ہیں اور مجھے گمان ہوتا ہے کہ یہ شہر کام، کام اور بہت سارا کام کرتا ہے، ہفتے میں چھٹی کے دنوں میں بھی یہاں کے لوگ یہیں رہ جاتے ہیں، کبھی پارکوں میں رقص کی محفلیں جمتی ہیں تو کبھی کھانے کی میزوں پر دوست یار مل بیٹھتے ہیں کچھ کھاتے پیتے ہیں اور واپس کنکریٹ کی عمارتوں میں اپنے کمروں کی دھیمی روشنی اور موبائل کی دنیا میں گم رہتے ہیں۔
یہ احساس مجھے گوانشی جا کر ہوا کہ میں بھی ایسا ہی ہو گیا ہوں۔ کام، کاج کے بعد کمرے تک محدود کرلیا تھا خود کو، پاکستان کے دوست کہتے تھے چین میں گھومو پھرو، لیکن یارو! کہاں جائیں، زبان سے نا آشنائی اور اس ملک کی وسعت اتنی ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم کہاں جائیں، خود کو کیسے اس ملک کی وسعتوں تک پہنچائیں اور کیسے اس ملک کی ہزاروں سال پرانی ثقافت کو دریافت کر پائیں۔
لیکن آخر وہ دن آ ہی گیا۔ آفس میں ایک کولیگ نے بتایا ہم اگلے ماہ گوانگشی کا سفر کر رہے ہیں۔ سوال پوچھا کتنے روز کے لیے بتایا گیا قریباً 10 دن کے لیے۔ پوچھا علاقہ کیسا ہے بتایا گیا سمندر پہاڑ، گاؤں اور صنعتی علاقوں کے علاوہ پورٹس بھی ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ ہم 13 اپریل کو سامان اُٹھائے گوانگشی کی اوور نکل پڑے۔ پہلے پہل جس شہر میں اُترے اس نینگ کہتے ہیں، یہ اس علاقے کا صدر مقام بھی ہے۔ ایک سر سبز شہر جہاں جا بجا تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔ ایک بات آپ کو اور بتا دوں یہ علاقہ بیجنگ سے 2200 کلو میٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ تو سفر بذریعہ ہوائی جہاز ہوا۔
جب ہم نینگ ہوائی اڈے سے بذریعہ بس اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے اور شہر کی شاہراہوں اور گلیوں میں داخل ہوئے، تو پہلی چیز جس نے میری توجہ مبذول کرائی وہ خوبصورت فطرتی ماحول اور جدید کاری کا امتزاج تھا۔ اعلیٰ معیار کی گلیوں اور شاہراہوں، بلند و بالا فلک بوس عمارتوں کیساتھ معیاری اور خوبصورت شہری ماحول نے ہمیں خوش آمدید کہا۔
نینگ ہوائی اڈے پر پہنچنے کے لمحے سے ہی ترقی اور جدید کاری کے آثار واضح تھے۔ شہر کی اہم سڑکوں اور فٹ پاتھوں کے ساتھ سرخ اور گلابی پھولوں نے شہر میں گھومنے پھرنے کو سو گنا زیادہ خوشگوار بنا دیا، اور چمبیلی کی خوشبو دلکش تھی۔
سچ پوچھیں تو یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا، ایک ایسا سفر جو میری زندگی کے اب تک کے سب سے منفرد تجربات میں سے ایک بن گیا۔ گوانگشی کی کشش اور خوبصورتی ایسی ہے کہ بعض اوقات الفاظ ان کی وضاحت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ تو آپ کو بھی سفر کرنا چاہیے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔
نینگ میں اترتے ساتھ ہی سب سے پہلے تو یہ احساس ہو گیا کہ بھائی غلط کپڑے لائے ہو۔ بیجنگ کے مقابلے میں یہاں پر درجہ حرارت زیادہ تھا۔ خیر پہلی رات ہی قریبی مال میں گئے اور چند شرٹس خرید لائے تاکہ اگلے چند روز یہاں بہتر انداز میں بسر کر پائیں۔ جب سفر شروع کیا تو یہی تھا کہ کام ہوگا اور صرف کام ہوگا لیکن کام سے سیاحت میں یہ سفر ایسا بدلا کہ ہم بیجنگ تو پہنچ گئے ہیں لیکن شاید دل گوانشی میں ہی چھوڑ آئے ہیں۔
گوانگشی ژونگ کا علاقہ، چین کے وسیع اور متنوع جغرافیہ کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں اس کی حیرت انگیز خوبصورتی ، سرسبز و شاداب درخت، بلند و بالا پہاڑی سلسلے، آئینے کی طرح بہتے صاف دریا اور چشمے، مسحور کن آبشار آپ کے ذہنوں کے دریچوں کو ایسے کھولیں گے کہ آپ قدرت کے سحر میں گرفتار ہو جائیں گے۔یہ خطہ، جس کا رقبہ قریباً 237,600 مربع کلومیٹر ہے، چین کے بڑے انتظامی علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
گوانگشی عالمی سطح پر اپنے ’کارسٹ‘ پہاڑوں اور دریائے ’ لی‘ کے مناظر کے لیے مشہور ہے۔ یہ مناظر اتنے خوبصورت اور دلکش ہیں کہ انہیں 20 یوآن کے چینی بینک نوٹ پر دکھایا گیا ہے۔ شہر، اپنی سبز پہاڑیوں اور پرسکون دریاؤں کے ساتھ، سیاحوں اور قدرتی نظاروں کو لئے فوٹوگرافروں کے لیے جنت قرار دیا گیا ہے۔
فطرت اور ثقافت کے شوقین افراد کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو اس خطے کی بھرپور تاریخ کو سراہتے ہیں، مختلف نسلی گروہوں کے درمیان امن اور قربت کی گرمی اور ان کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر گرم اور کہرے موسم کی جابرانہ گرمی اور نمی کو بھول جاتے ہیں۔
ایک ایسی جگہ جہاں اس کے باشندے، متعدد نسلی اختلافات اور تنوع کے باوجود، مثالی بقائے باہمی، تعاون اور صحبت کے ساتھ، قدرتی، زرعی، سیاحتی، ثقافتی، فنکارانہ، صنعتی اور دیگر وافر صلاحیتوں اور وسائل سے مالا مال اس خطے کی ترقی کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، تاکہ اس علاقے کے تمام باشندوں کے لیے ایک مشترکہ اور خوبصورت تقدیر پیدا ہو اور چین کی وسیع سرزمین اور یہاں تک کہ اس کی سرحدوں سے باہر کے تمام لوگوں کے لیے ایک مشترکہ تقدیر کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کریں۔
گوانگشی ژوانگ علاقہ، اس کے قدیم قدرتی مناظر کے لیے مشہور، متنوع ثقافت، چین میں نسلی اقلیتوں کی سب سے بڑی آبادی کا گھر، اس خطے میں مختلف نسلی گروہوں کی موجودگی کے نتیجے میں ایک اعلیٰ ثقافتی تنوع پیدا ہوا ہے، جس میں مختلف طرز زندگی، خوبصورت اور رنگین مقامی لباس، متنوع مقامی کھانے، مقامی تیوہار، تقریبات اور مقامی اور نسلی رقص، موسیقی اور گانے شامل ہیں۔ اس نے خوبصورت گوانگشی خطے کو سیاحوں کے لیے ایک پرکشش اور مکمل منزل بنا دیا ہے۔
اگرچہ شمالی، وسطی اور مغربی چین کے وسیع علاقے صفر سے کئی ڈگری نیچے کا تجربہ کرتے ہیں، لیکن وہ گوانگشی کا سفر کرکے ایک خوشگوار آب و ہوا اور رنگین پینٹنگز کی طرح خوبصورت قدرتی زمین کی تزئین سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
اس خطے کے مختلف نسلی گروہوں کے باشندوں اور لوگوں نے اپنے متنوع رسم و رواج، خوبصورت اور متنوع ثقافتوں، حیرت انگیز اور رنگین روایتی لباس، مقامی رقص، گانے اور موسیقی، رنگین نسلی اور مقامی کھانوں اور منفرد تیوہاروں کے ساتھ گوانگشی کو ’ثقافتوں کے زندہ عجائب گھر‘ میں تبدیل کردیا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چائنا شنگھائی گوانگشی وی نیوز کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
عوام و افواج کا مضبوط تعلق
پاکستان کی ریاست محض ایک زمینی حدود کا نام نہیں بلکہ ایک نظریے پر قائم وہ وحدت ہے جس نے دنیا کے نقشے پر ایک الگ اور خودمختار ریاست کی صورت میں جنم لیا۔
یہ نظریہ اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی ایک منصفانہ، خودمختار، اور خوددار معاشرہ قائم کرنے کا تصور پاکستان کی روح ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ داخلی انتشار، سیاسی عدم استحکام، اور معاشی چیلنجز نے قوم کو نظریے سے بتدریج دور کیا، اور قومی وحدت کمزور ہوتی دکھائی دی۔
نظریہ اور جغرافیہ کا باہمی تعلق
کسی بھی نظریاتی ریاست کے لیے نظریہ اور جغرافیہ دونوں لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ نظریہ ریاست کو فکری بنیاد فراہم کرتا ہے، جبکہ جغرافیہ اس نظریے کے نفاذ کی عملی سرزمین مہیا کرتا ہے۔ اگر نظریہ نہ ہو تو جغرافیہ محض ایک زمین کا ٹکڑا رہ جاتا ہے، اور اگر جغرافیہ نہ ہو تو نظریہ محض ایک خیال۔ پاکستان کے تناظر میں یہ تعلق اور بھی زیادہ مقدس ہو جاتا ہے کیونکہ یہ سرزمین لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی تھی، اور اس کی بنیاد ہی نظریہ اسلام تھا۔
افواجِ پاکستان: نظریہ اور جغرافیہ کی محافظ
پاکستان کی افواج محض ایک عسکری ادارہ نہیں بلکہ ریاست کے نظریے، جغرافیہ، اور عوام کی محافظ ہیں۔ افواج نہ صرف بیرونی دشمنوں سے سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ قدرتی آفات، داخلی مسائل اور دہشتگردی جیسے چیلنجز میں بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہیں۔ یہ ادارہ قومی خودمختاری کی علامت اور عوام کے اعتماد کا مرکز ہے۔ جب عوام اور افواج کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے تو ریاست کی نظریاتی اور جغرافیائی سلامتی کو ناقابلِ تسخیر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
بھارتی جارحیت اور قوم کی بیداری
تاریخی حقیقت ہے کہ بھارتی ریشہ دوانیوں نے پاکستان کو مزید مضبوط کیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھارت نے پاکستان کے وجود کو چیلنج کیا، پاکستان نہ صرف ان سازشوں کے خلاف کامیابی سے نبرد آزما ہوا بلکہ مزید مضبوط بن کر ابھرا۔ 1948، 1965 اور 1971 کی جنگیں، کارگل کا محاذ، اور سرحدی دراندازیوں کے علاوہ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کی گرفتاری یہ سب بھارت کے ان عزائم کا اظہار ہیں جن کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔ لیکن ہر موقع پر پاکستانی قوم نے غیرمعمولی اتحاد، افواج نے غیر متزلزل عزم، اور قیادت نے دفاعی اور سفارتی محاذوں پر دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔
بھارت کی مسلسل دشمنی نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ نہ صرف عسکری میدان میں خود انحصاری اختیار کرے بلکہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم بنائے۔ آج پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے، اپنی دفاعی صنعت میں نمایاں ترقی کر چکا ہے، اور چین، ترکی، سعودی عرب، اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک تعلقات قائم کر چکا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ جیسے قریبی ممالک اب بھارتی چنگل سے نکل کر دیگر علاقائی طاقتوں کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔
یہ حقیقت اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان نے ہر بھارتی چال کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ اسے اپنی قومی یکجہتی، دفاعی مضبوطی اور عالمی وقار میں اضافے کا ذریعہ بنایا۔
حالیہ دنوں میں بھارت کی طرف سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور جارحیت نے ایک بار پھر اس خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ لیکن اس بار ایک فرق نمایاں طور پر نظر آیا , وہ یہ کہ بھارتی اشتعال انگیزی نے پاکستانی قوم کو بیدار کر دیا۔ جو قوم داخلی مسائل میں الجھ کر نظریے سے دور ہو رہی تھی، وہ یکدم جاگ اٹھی۔ قوم نے نہ صرف اپنے نظریے کو یاد کیا بلکہ افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر اپنی یکجہتی اور حب الوطنی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
قوم و افواج کا مضبوط تعلق: ایک قومی سرمایہ
بھارت کے جارحانہ رویے نے ایک بار پھر اس امر کی یاد دہانی کرائی کہ نظریاتی ریاستیں صرف فکری نعروں سے نہیں بلکہ مضبوط افواج، عوامی اتحاد اور قومی شعور سے محفوظ رہتی ہیں۔ پاکستانی عوام نے جس اعتماد اور جذبے سے افواج کی حمایت کی، وہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ تعلق پاکستان کے مستقبل میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہ باہمی اعتماد نہ صرف قومی سلامتی کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے وقار میں اضافہ کرے گا۔
دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ اور عالمی ساکھ
افواجِ پاکستان نے جس مہارت، نظم و ضبط اور جدید ٹیکنالوجی سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا، اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جو جنگ نہیں چاہتا، لیکن اگر مسلط کی جائے تو دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ اس مظاہرے سے ’’میڈ ان پاکستان‘‘ دفاعی مصنوعات کو بھی پذیرائی ملے گی، اور ملکی ٹیکنالوجی کے شعبے کو تقویت حاصل ہو گی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ: نئی قوت، نیا جذبہ
بھارت کو دفاعی میدان میں منہ توڑ جواب دینے کے بعد پاکستان کو ایک اور محاذ پر نئی قوت حاصل ہوگی وہ اندرون ملک بھارتی معاونت سے چلنے والی دہشت گرد کارروائیوں کا خاتمہ ہے۔
سالہا سال سے پاکستان میں دہشت گردی کی کئی لہریں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پشت پناہی سے پنپتی رہیں، جن کا مقصد پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا تھا۔ لیکن اب، جب کہ قوم متحد ہو چکی ہے اور دشمن کی اصلیت کھل کر سامنے آ چکی ہے، ریاستی اداروں کو خوارج، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل ہو گی۔
یہ نیا جذبہ، افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرے گا اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو ایک نئی جہت دے گا۔ قوم کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ داخلی امن اور نظریاتی و جغرافیائی سلامتی لازم و ملزوم ہیں، اور اب ہر پاکستانی اس جنگ کا سپاہی بن کر دشمن کے ناپاک عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کو تیار ہے۔
بے یقینی کا خاتمہ، اعتماد کا آغاز
یہ حالات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ جیسے جیسے جنگ کے بادل چھٹیں گے، ایک مضبوط، پرعزم اور مستحکم پاکستان ابھر کر سامنے آئے گا۔ داخلی انتشار کی جگہ قومی یکجہتی لے چکی ہے، نظریے کی جگہ پھر سے فکری روشنی آ گئی ہے، اور عوام و افواج کے درمیان اعتماد کا رشتہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ یہی تعلق پاکستان کو سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور عالمی اعتماد کی جانب لے جائے گا۔
ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ قوم اور افواج پاکستان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ بھارت کی جارحیت نے بظاہر خطے کو خطرے میں ڈالا، مگر درحقیقت اس نے پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ آج کا پاکستان اپنے نظریے سے منسلک، اپنے جغرافیے کا محافظ، اور اپنی افواج پر یقین رکھنے والی ایک زندہ اور متحد قوم بن کر ابھر رہا ہے۔ اور یہی وہ پاکستان ہے جس کی بنیاد قائداعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔