ڈیوڈ وارنر کی پی ایس ایل کے بقیہ میچز میں شرکت کی تصدیق
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) پر اعتماد کا اظہار کر دیا۔
اس حوالے سے آسٹریلوی میڈیا کا کہنا ہے کہ کراچی کنگز کے کپتان ڈیوڈ وارنر پی ایس ایل کے بقیہ میچز میں شرکت کےلیے پاکستان واپس جائیں گے، وہ پی ایس ایل مکمل کرنے کےلیے بقیہ میچز میں شریک ہوں گے۔
آسٹریلوی میڈیا نے کہا کہ ڈیوڈ وارنر نے پی ایس ایل میں شرکت کی میڈیا کو تصدیق کی ہے۔ پی ایس ایل ملتوی ہونے کے بعد غیر ملکی کھلاڑی پاکستان سے چلے گئے تھے۔
آسٹریلوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بین میکڈرموٹ بھی پی ایس ایل کےلیے دوبارہ پاکستان جانے کا پلان کر رہے ہیں۔
سیز فائر کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پی ایس ایل دوبارہ شروع کرنے کا پلان کر رہا ہے، پی سی بی نے پی ایس ایل کے دوبارہ شروع کرنے کے لیے فرنچائز سے میٹنگز کی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور پی ایس ایل فرنچائز نے پاکستان سپر لیگ 10 کے بقیہ میچز کےلیے 17 سے 25 مئی کی ونڈو پر اتفاق کرلیا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ایس ایل کے ڈیوڈ وارنر بقیہ میچز
پڑھیں:
دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ
وطن عزیز کو ہر سال یا تو پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے یا پھر ہر سال مون سون کے موسم میں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیشہ سے انسانی حیات کا تعلق پانی سے جڑا ہوا ہے اور اسی لیے دریاؤں، چشموں اور دیگر ذرائع آب کے قریب انسانی بستیاں آباد ہوتی رہی ہیں۔ تربیلا ڈیم 1976 میں بنا اور اس کے بعد کوئی بڑا ڈیم ملک میں نہ بن سکا اور یہیں سے ہماری بدقسمتی کی ابتدا ہوئی۔
خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں دنیا کا سب سے وسیع اور جدید نہری نظام موجود ہے۔ اور کبھی ہم زراعت کے نظام میں خود کفیل تھے، ماضی میں ہماری زراعت نے کافی ترقی کی۔ لیکن آج بدقسمتی سے دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ بنجرزمین کو زیر کاشت نہیں لایا جاسکتا، کیونکہ ہم نے اپنی نااہلی کی وجہ سے کوئی قابل ذکر پانی ذخیرہ کرنے کا پروجیکٹ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔
پاکستان اپنے آبی وسائل کا صرف 7 فیصد پانی ہی ذخیرہ کر پاتا ہے جو کہ پاکستان میں صرف 30 دن کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے برابر ہے۔ دوسرا پہلو سیلابی صورتحال کا ہے جس کا سامنا ہمارے دیہاتوں اور بڑے شہروں خصوصاً کراچی کو ہمشہ رہتا ہے۔ ملک عزیز میں زیادہ تر آبی گزرگاہوں میں ہونے والی تجاوزات ہی ان سیلابی ریلوں کی زد میں آتی ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومت نے آئندہ سیلاب سے بچاؤ کےلیے دریاؤں کے کنارے پر تعمیرات پر پابندی سمیت متعدد حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلانات کاغذوں تک ہی محدود رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دریائے سوات اور دریائے راوی سمیت مختلف مقامات پر غیرقانونی تعمیرات پانی کے ریلوں میں بہہ گئیں، جس سے شدید جانی و مالی نقصان ہوا۔
پنجاب سمیت ملک کے تمام صوبوں میں بھی اس وقت یہی صورتحال ہے، جہاں دریاؤں کی گزرگاہوں پر غیرقانونی تعمیرات کی بھرمار ہے۔ ہر سال مون سون کے آغاز پر اس حوالے سے شور مچتا ہے، اجلاس ہوتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں لیکن جیسے ہی برسات کا موسم ختم ہوتا ہے، یہ سب وعدے اور منصوبے سرد خانے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت آبی گزرگاہوں میں موجود تجاوزات کے خلاف کارروائی میں واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اس حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔ عوام کو بھی یہ شعور دینا ہوگا کہ دریا کے کنارے یا آبی راستوں میں تعمیرات خود کو خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔
دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات پاکستان میں ایک بڑا ماحولیاتی اور انتظامی چیلنج بنتا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف آبی وسائل کو متاثر کررہا ہے بلکہ سیلاب جیسی قدرتی آفات کے خطرات میں بھی اضافہ کررہا ہے۔ دریائی علاقوں پر غیرقانونی قبضے اور تعمیرات نے نہ صرف ماحولیاتی توازن کو بگاڑا ہے بلکہ انسانی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ریاست کی مثال اس ماں کی طرح ہے جو شفقت بھی کرتی ہے اور اپنے بچوں کی تربیت کےلیے ڈانٹ ڈپٹ اور تھوڑی بہت سزا کا بھی اہتمام کرتی ہے تاکہ معاشرے میں ان کے گھر کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اس وقت ہمارے ہاں دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات کی تین اقسام و اشکال موجود ہیں۔
1۔ رہائشی تجاوزات: قدرتی آبی گزرگاہوں اور دریائی راستوں پر غیرقانونی آبادیاں، سستے رہائشی یونٹس کی تعمیر، کچی آبادیوں کا پھیلاؤ
2۔ تجارتی و صنعتی تجاوزات: دریاؤں کے کناروں پر فیکٹریوں کا قیام، صنعتی فضلے کا براہ راست دریاؤں میں اخراج، غیرقانونی تجارتی مراکز کی تعمیر
3۔ زرعی تجاوزات: دریائی راستوں پر کاشتکاری، نہروں اور آبی گزرگاہوں پر غیرقانونی قبضے۔
وطن عزیز آج ان تجاوزات کے اثرات و نتائج دیکھ رہا ہے۔ قدرتی آفات اور سیلاب کی تباہ کاریاں انسان کی قدرت سے چھیڑ خانی کا نتیجہ ہیں۔ انسانی ہوس، لالچ اور قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگوں نے دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے اتنی تجاوزات کھڑی کردی ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کا قدرتی بہاؤ بہت چھوٹا رہ گیا ہے۔ اب جب معمول سے تھوڑی زیادہ بارش ہوتی ہے، تو یہ آبی گزرگاہیں تو اپنا راستہ خود بنا لیتی ہیں اور پھر ساری تجاوزات کی تباہ کاریاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور چلاتے ہیں۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ آج ہم انسانی پیدا کردہ تجاوزات اور ترقی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ ہر سال آنے والی سیلابی صورتحال اور ماحولیاتی نظام کی تباہی نے ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا یہ سب قدرتی آفت ہے یا پھر ہماری اپنی پیدا کردہ تباہی؟
پاکستان میں دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات کی صورت حال خاصی سنگین ہے۔ بڑے شہروں کے ند ی نالوں اور دریائی علاقوں پر غیرقانونی قبضے عام ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے۔ سیاسی مداخلت، انتظامی کمزوری، اور عوامی لاپرواہی اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔ کراچی میں ایک وقت وہ تھا جب یہاں موسمی دریا (لیاری اور ملیر) اور چھوٹے بڑے ندی نالے اس شہر میں بارشوں کے دوران پوری آب و تاب کے ساتھ بہتے تھے اور اُن کے بہاؤ کو لوگ اپنی زندگی سمجھتے تھے۔ لیکن آج ہم نے ان موسمی دریاؤں اور ند ی نالوں میں سیوریج کا پانی ڈال دیا ہے ہماری حکومتوں کی یہ ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی حقیقتاً فطرت سے دشمنی مول لینے کے مترادف ہے۔
دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین معاشرتی اور اقتصادی چیلنج ہے جس کے حل کےلیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے یعنی:
1. حکومتی سطح پر مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
2. اداروں کے درمیان بہتر تعاون ضروری ہے۔
3. عوامی شعور اور شرکت لازمی ہے۔
4. طویل المدتی منصوبہ بندی اور مسلسل نگرانی ضروری ہے۔
حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوام کے باہمی تعاون سے ہی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے اور آنے والی نسلوں کےلیے محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں آج حالات یہ ہیں کہ شاید ہی کوئی سڑک، دریا یا کوئی ندی نالے ہماری تجاوازات سے محفوظ ہوں، حتیٰ کہ ہم نے سمندر کو بھی نہیں بخشا۔ آج ان انسانی کاوشوں اور حکومتی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ماحول کے آلودہ ہونے کا منطقی نتیجہ آبی حیات اور آبی نظاموں کو نقصان، آبی ذخائر اور مہلک بیماریوں کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال تین ملین لوگ صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں روز افزوں ہوتی ماحولیاتی آلودگی نے حقیقت میں پاکستانیوں کےلیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
یونائیٹڈ نیشن کے ذیلی ادارے UN- HABITAT PAKISTAN کی 2023 میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 195 ممالک کی فہرست میں پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں بدترین ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً 3.3 کھرب روپئے کا نقصان اٹھانا پڑا اور 80 لاکھ افراد کو سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے موحول کو آلودگی سے بچانا ہے تو ہمیں جنگی بنیادوں پر قانونی اور انتظامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ شہری اور دریائی علاقوں کے تحفظ کےلیے موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا۔ تجاوزات کا فوری خاتمہ کروانا ہوگا۔ قدرتی ماحول کی بقا کےلیے شاہراؤں، ریل کی پٹریوں، دریاؤں، ندی نالوں اور سمندر کے اطراف ہر قسم کی تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ صاف ستھرے ماحول کی بقا سے ہماری بقا مشروط ہے۔
اس کے علاوہ عوامی سطح پر آبی وسائل کے تحفظ کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تعلیم کو شامل کرنا اور میڈیا کے ذریعے عوامی شعور پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حکومتی ادارے ماحولیاتی نگرانی کےلیے ڈرون، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے تجاوزات، جنگلات، دریاؤں، ندی نالوں، اور حیاتیاتی تنوع کی بہتر نگرانی کرسکتے ہیں۔
عوام اور ہماری حکومتیں مل کر ماحول دوست پالیسیوں اور اجتماعی کوششوں سے ہی اپنے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔ اور اگر ہم نے کوئی کوتاہی یا غفلت برتی تو اس کے نتائج ہماری آنے والی نسلوں کےلیے انتہائی مہلک ہوں گے۔ بارشیں ہوں یا ندی نالوں کا بہاؤ یہ سب فطرت کا سنگیت اور زندگی ہیں۔ لیکن آج لوگ بارشوں سے ڈرتے اور دریاؤں، ندی نالوں کے بہاؤ سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ڈر اور خوف لینڈ مافیا اور اندھی ترقی کے تصور کی وجہ سے عوام میں سرائیت کرگیا ہے۔ دریا اور ندی نالوں کا سیلابی بہاؤ ہمیں بار بار سبق دے رہا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی حدود میں واپس چلیں جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔