حریت کانفرنس کی تنازعہ کشمیر پر امریکہ کی ثالثی کی کوششوں کا خیر مقدم
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
ترجمان حریت قیادت کا کہنا ہےکہ کشمیری عوام کی حقیقی قیادت، جن میں سے بیشتر بھارتی جیلوں میں قید ہیں، کو مجوزہ مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی اور تنازعہ کشمیر پر امریکہ کی ثالثی کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں ثالثی کی پیشکش پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بامعنی مذاکرات کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کشمیری عوام کی حقیقی قیادت، جن میں سے بیشتر بھارتی جیلوں میں قید ہیں، کو مجوزہ مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے تجارت اور امن کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ، اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل، خطے میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کو فروغ دینے کے لیے اہم ثالث کا کردار ادا کرے۔ حریت ترجمان نے مزید کہا کہ حریت قیادت کی شرکت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سب سے زیادہ متاثرہ کشمیری عوام کی آواز سنی جائے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ستمبر 2019ء میں بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیری رہنمائوں کے ساتھ سیاسی روابط دوبارہ شروع کرے اور مقبوضہ علاقے میں رائے شماری کرائے جس کا بھارت نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے بھی 9 ستمبر 2019ء کو مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی تسلط پسندانہ عزائم اور ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیوں کو ترک کرے اور مذاکرات کے لیے مخلصانہ اور تعمیری سوچ اختیار کرے۔ حریت ترجمان نے دو جوہری طاقتوں کے درمیان امن اور دوستی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ تنازعہ کشمیر کا پرامن حل خطے میں دیرپا امن کی کنجی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ کشمیری عوام کی کشمیر کے ثالثی کی انہوں نے زور دیا
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، جھوٹے الزامات کے تحت 2 ڈاکٹروں سمیت 7 کشمیری نوجوان گرفتار
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عدیل کو ایک پوسٹر لگانے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جس پر دکانداروں کو بھارتی ایجنسیوں سے تعاون نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے ڈاکٹروں سمیت بے گناہ کشمیری جوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے ان نوجوانوں کو سرینگر، شوپیاں، گاندربل، پلوامہ اور کولگام اضلاع میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران گرفتار کیا۔ گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں ڈاکٹر مزمل احمد گنائی اور ڈاکٹر عدیل احمد کے علاوہ عارف نثار ڈار، یاسر الاشرف، مقصود احمد ڈار، مولوی عرفان احمد اور ضمیر احمد آہنگر شامل ہیں۔ ادھر سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے بھارتی پولیس کی طرف سے جھوٹے الزامات کے تحت ڈاکٹروں سمیت کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بے بنیاد الزامات کے تحت پیشہ ور ڈاکٹروں خصوصا نوجوانوں کی گرفتاریاں ایک معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عدیل کو ایک پوسٹر لگانے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جس پر دکانداروں کو بھارتی ایجنسیوں سے تعاون نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری نژاد ڈاکٹر عدیل جواتر پردیش کے علاقے سہارنپور میں مقیم ہیں کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ڈاکٹر مزمل شکیل سمیت دیگر ڈاکٹروں کو بھی اس جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا ہے۔ ڈاکٹر عدیل 24 اکتوبر 2024ء تک گورنمنٹ میڈیکل کمپلیکس اسلام آباد میں بطور سینئر ریزیڈنٹ خدمات انجام دے چکے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پولیس کا دعویٰ انتہائی کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ڈاکٹروں کو ایک پوسٹر کی بنیاد پر گرفتار کر کے ان کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی شخص کیلئے صرف پوسٹر لگانے کیلئے اتنی دور سرینگر آنا انتہائی مشکل ہے، جہاں پہلے ہی ہر طرف نگرانی کیلئے کیمرے نصب ہیں۔ پولیس کا یہ دعویٰ بھی قابل قبول نہیں کہ ڈاکٹر عدیل نے رائفل ایک سال تک ہسپتال میں رکھی جبکہ وہ ادارہ گزشتہ سال ہی چھوڑ چکے ہیں۔
سہارن پور میں ڈاکٹر عدیل کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان پر دبائو ڈال کر دیگر کشمیری ڈاکٹروں کو بھی اس کیس میں ملوث کیا، جن میں ڈاکٹر مزمل شکیل بھی شامل ہیں جن کی دلی کے قریبی علاقے فریدآباد میں واقع کلینک سے پولیس نے مبینہ طور پر دو AK-47 رائفلیں اور دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے۔ پولیس کمشنر فرید آباد کمار گپتا کے مطابق ضبط شدہ رائفلیں AK-47 نہیں تھیں، جس سے بھارتی پولیس کا دعوے مزید مشکوک ہو گیا ہے۔ اس بارے میں بھارتی میڈیا کے بیانات میں بھی واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ NDTV کی رپورٹ کے مطابق اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد ڈاکٹر مزمل شکیل سے برآمد کیا گیا، جبکہ دیگر بھارتی ذرائع نے ان کا نام مفازل شکیل ظاہر کیا ہے۔ ٹائمز نائو کے مطابق ڈاکٹر کے پاس سے 2900کلو دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا ہے، جو تقریبا ایک ٹرک کے وزن کے برابر ہے جسے اپنے پاس خفیہ رکھنا کسی طور پر ممکن نہیں۔ یہ تضادات بھارتی فورسز کی ناقص کارکردگی اور غلط بیانی کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان مضحکہ خیز تفصیلات سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی فورسز کے بے بنیاد دعوئوں میں کوئی صداقت نہیں۔ یہ واقعہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی حکام نے کشمیریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے 2022ء سے مقبوضہ کشمیر میں دکانداروں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب لازمی قرار دے رکھی ہے اس کے علاوہ سرینگر اور دیگر شہروں میں بھی تقریبا ہر گلی میں سکیورٹی کیمرے نصب ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی قابض انتظامیہ کشمیری مسلمانوں کو مجرم بنا کر ان سے اعلیٰ عہدے چھینے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیری ڈاکٹروں کو بھی بھارتی فورسز کی جانب سے بڑھتی ہوئی تذلیل اور جبر کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نئے انٹرن ڈاکٹروں کو تنخواہیں ادا نہیں کی جاتی جبکہ تجربہ کار ڈاکٹروں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اپنے اندرونی سکیورٹی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔