سیلینا گومز کی کمپنی مالی بحران کا شکار، ملازمین کو عدم ادائیگی کے بعد فارغ کرنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
معروف امریکی گلوکارہ اور اداکارہ سیلینا گومز اپنی ذہنی صحت کے فروغ کے لیے قائم کردہ کمپنی ’ونڈر مائنڈ‘ کو درپیش مالی مسائل کے باعث سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہیں۔
امریکی جریدے فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق کمپنی کو ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور صحت سے متعلق سہولیات میں کٹوتی جیسے سنگین مالی مسائل کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ونڈر مائنڈ کی سی ای او اور سیلینا کی والدہ، مینڈی ٹیفی، نے کمپنی کے قرض اتارنے کے لیے اپنے گھر پر قرض لیا ہے، تاہم ایک اور میڈیا ذرائع نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
فوربز کے مطابق کمپنی نے تاخیر سے ملازمین کو ایک تنخواہ ادا کر دی ہے جبکہ ایک اور تنخواہ اب بھی باقی ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو پریشانی کا سامنا ہے۔ ونڈر مائنڈ کے ترجمان نے اس حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی ان دنوں ’ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے‘ اور جلد ہی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگی۔
سوشل میڈیا پر صارفین اور سیلینا گومز کے مداحوں کی جانب سے ان کی خاموشی پر ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے خاص طور پر جب ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 700 ملین سے 1.
سیلینا کو سوشل میڈیا کے مخلتف پلیٹ فارمز پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی مالی طاقت رکھنے کے باوجود کمپنی ملازمین کو تنخواہیں ادا نہ کرنا افسوسناک ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملازمین کو
پڑھیں:
پنشن اخراجات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کنٹری بیوٹری اسکیم، نیا مالی ماڈل متعارف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے پنشن نظام میں تاریخی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم نافذ کردی ہے۔
اس نئی اسکیم کے تحت سرکاری ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع کرائیں گے، جب کہ حکومت کی جانب سے 12 فیصد حصہ شامل کیا جائے گا۔ یوں مجموعی طور پر 2 فیصد رقم ہر ماہ پنشن فنڈ میں جمع ہوگی جو مستقبل میں ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کی مالی معاونت کے طور پر استعمال ہوگی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ کے ریگولیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس حوالے سے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔
نئی اسکیم یکم جولائی 2024 سے بھرتی ہونے والے تمام سول ملازمین پر نافذ ہوگی، جب کہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر اس کا اطلاق جولائی 2025 سے کیا جائے گا۔
یہ نظام پرانے “ڈیفائنڈ بینیفٹ” ماڈل کی جگہ لے گا اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کی سفارشات کے مطابق تیار کیا گیا ہے، تاکہ پنشن کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر قابو پایا جا سکے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق حکومت نے بجٹ 2024-25 میں اس اسکیم کے لیے 10 ارب روپے اور 2025-26 میں مزید 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کا پنشن خرچ 2024-25 میں 10 کھرب 5 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔ صرف مسلح افواج کے پنشن واجبات 742 ارب روپے تک جا پہنچیں گے، جب کہ سول ملازمین کے اخراجات بھی 243 ارب روپے تک متوقع ہیں۔
نئے نظام کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس اسکیم کو چلائیں گے۔ ملازمین ریٹائرمنٹ سے قبل رقم نہیں نکال سکیں گے، البتہ ریٹائرمنٹ کے وقت زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکالنے کی اجازت ہوگی۔ بقیہ رقم “والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002” کے مطابق کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھی جائے گی۔
حکومت ملازمین کے حصے کے ساتھ اپنا حصہ بھی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے فنڈ میں منتقل کرے گی جو مکمل ریکارڈ کی نگرانی کرے گا۔ ملازمین کی ماہانہ سیلری سلپ میں پنشن فنڈ سے متعلق تمام تفصیلات واضح طور پر درج ہوں گی۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق اس نظام کا مقصد پنشن کے بوجھ کو کم کرتے ہوئے مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا اور آئندہ نسل کے سرکاری ملازمین کے لیے ایک مضبوط، خودکار اور شفاف پنشن سسٹم قائم کرنا ہے ، جو قومی خزانے پر انحصار کم کرے گا اور ملازمین کو باقاعدہ بچت اور سرمایہ کاری کے ذریعے ریٹائرمنٹ کے بعد مالی تحفظ فراہم کرے گا۔