پاکستان نے بھارتی بارڈر سکیورٹی اہلکار واپس کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2025ء) بھارتی نیم فوجی دستوں بی ایس ایف نے آج بدھ کو ایک بیان میں کہا، ''آج بی ایس ایف جوان پرنم کمار شا، جو 23 اپریل 2025 سے پاکستان رینجرز کی تحویل میں تھے، کو تقریباً دن ساڑھے دس بجے جوائنٹ چیک پوسٹ اٹاری، امرتسر کے ذریعے بھارت کے حوالے کیا گیا۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا، ''حوالگی پرامن طریقے سے اور مسلمہ پروٹوکول کے مطابق کی گئی۔
‘‘ معاملہ کیا تھا؟بھارتی حکام کے مطابق پنجاب کے فیروز پور میں تعینات 40 سالہ بی ایس ایف جوان نے جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہلاکت خیز حملے کے ایک دن بعد 23 اپریل کو نادانستہ طور پر سرحد پار کر لی تھی۔
بھارتی اور پاکستانی فوجی قیادت کے مابین رابطے
اس حملے کی وجہ سے سرحد پر کشیدگی بڑھ گئی تھی اور ان کی واپسی میں تاخیر ہوئی۔
(جاری ہے)
پرنم کمار شا جب پاکستان میں داخل ہوئے تو اپنی وردی میں تھے اور اپنی سروس رائفل اٹھائے ہوئے تھے۔
پاکستان میں حراست میں لیے جانے کے چند دن بعد، شا کی حاملہ بیوی رجنی، ان کے سات سالہ بیٹے اور خاندان کے دیگر افراد نے بھارتی فوج کے حکام سے ملاقات کی تھی اور شا کی جلد رہائی میں مدد کی اپیل کی تھی۔
چالیس سالہ شا کا تعلق مغربی بنگال کے ہوگلی ضلع سے ہے۔
شا سے پوچھ گچھ کی جائے گیبھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے بی ایس ایف حکام کے حوالے سے بتایا کہ بھارت واپسی پر اب شا کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا جائے گا، جس کے بعد ایک کونسلنگ اور 'ڈی بریفنگ‘ سیشن ہو گا، جس میں ان سے بی ایس ایف حکام ان کی 21 دن کی حراست کے بارے میں ''متعلقہ سوالات‘‘ پوچھیں گے۔
پاکستانی جیل میں 28 برس گزارنے کے بعد بھارتی شہری وطن واپس
ان کو فعال ڈیوٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا اور بی ایس ایف کے پنجاب فرنٹیئر کی طرف سے قائم کی گئی ایک سرکاری انکوائری کا سامنا کرنا ہو گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان کی کوئی کوتاہی ان کی گرفتاری کا سبب بنی تھی۔
دریں اثنا اپنے شوہر کی واپسی پر راحت محسوس کرتے ہوئے رجنی شا نے کہا، ''میں ان سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔
قوم ان کے ساتھ تھی۔ وزیر اعلیٰ (ممتا بینرجی) نے مجھے کئی بار فون کیا اور امید دلائی۔ میں ان کی شکر گزار ہوں۔‘‘ پاکستانی رینجرز کا اہلکار بھی وطن واپسپاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق آج ہی بھارت نے بھی پاکستانی رینجرز کے ایک اہلکار کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔
بھارتی عدالت کا پاکستانی شہری کی مدت ِقید میں توسیع سے انکار، فوراً رہائی کا حکم
رپورٹ میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان رینجرز کے محمد اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
محمد اللہ تقریباﹰ دو ہفتے سے بھارتی فوج کی حراست میں تھے۔ انہیں راجستھان کے سری گنگا نگر ضلع میں بین الاقوامی سرحد کے پاس سے بی ایس ایف نے پکڑا تھا۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بی ایس ایف کے حوالے حکام کے
پڑھیں:
دلجیت دوسانجھ کا ایشیا کپ کے حوالے سے بھارتی حکومت کے دوغلے پن پر گہرا طنز
بالی ووڈ کے پنجابی اداکار دلجیت دوسانجھ نے ملائیشیا میں اپنے کنسرٹ کے دوران بھارتی حکومت اور میڈیا پر کڑا طنز کرتے ہوئے اپنی فلم ’سردار جی 3‘ پر لگنے والی پابندی کو غیر منطقی قرار دیا۔
دلجیت نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان کی فلم پر تو پابندی لگ گئی، لیکن ایشیا کپ 2025 جاری ہے۔
دلجیت دوسانجھ نے اپنے مداحوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’میری فلم ’سردار جی 3‘ فروری میں شوٹ ہوئی تھی، جبکہ پہلگام واقعہ اپریل میں ہوا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ مجرموں کو سزا ملے، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ میری فلم حملے سے پہلے بنی تھی، جبکہ کرکٹ میچ تو اس وقت بھی کھیلے جا رہے ہیں۔‘‘
اداکار نے ملائیشیا میں ہندوستانی پرچم لہراتے ہوئے ایک شخص کو دیکھ کر کہا ’’یہ میرے ملک کا پرچم ہے جس کے لیے ہمیشہ احترام رہے گا۔‘‘ تاہم انہوں نے بھارتی میڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ’’میڈیا مجھے غدار وطن بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا، لیکن پنجابی اور سکھ کبھی اپنے ملک کے خلاف نہیں جا سکتے۔‘‘
یاد رہے کہ پہلگام واقعے کے بعد فلم فیڈریشن آف انڈیا نے نہ صرف ’سردار جی 3‘ پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، بلکہ دلجیت دوسانجھ کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ فلم بھارت میں ریلیز نہیں ہوسکی، لیکن اس نے عالمی سطح پر زبردست کامیابی حاصل کی۔
دلجیت دوسانجھ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے باوجود ایشیا کپ جیسے کرکٹ ٹورنامنٹس جاری ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں دونوں معاملات میں تضاد کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اداکار نے زور دے کر کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ملک کے وفادار رہیں گے، لیکن انصاف کے تقاضے یہ ہیں کہ تمام معاملات میں یکساں پیمانہ استعمال کیا جائے۔ ان کی یہ بات بھارتی میڈیا اور حکومتی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔