دوہرے قتل کیس میں سزائے موت پانے والا ملزم 12 سال بعد بری
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
لاہور ہائی کورٹ نے 12 سال بعد دوہرے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے کو سرکاری وکیل کی طرف سے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکامی پر بری کردیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم اور جسٹس عبہر گل خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی جمعرات کو سماعت کی۔
اپیل کنندہ کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان تسنیم نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، مقدمہ کی ایف آئی آر اور پوسٹمارٹم تاخیر سے ہوا، غلام عباس کا مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ٹرائل کورٹ کا سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
پراسیکیوٹر نے اپیل کی مخالفت کی اور کہاکہ غلام عباس کو 2013 میں سحرش اور کامران کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔
2020میں غلام عباس کو ٹرائل کے بعد سزائے موت کا حکم سنایا تھا اور اس حوالے سے ثبوت موجود ہیں۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد اپیل منظور کرتے ہوئے غلام عباس کو ماتحت عدالت کی طرف سے سنائی جانیوالی سزا کالعدم قرار دے کر بری کردیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غلام عباس سزائے موت
پڑھیں:
لاہور: لیسکو کے اسسٹنٹ لائن مین کا اغوا و قتل، مرکزی ملزم گرفتار
—فائل فوٹولاہور کے علاقے باٹا پور سے اغواء و قتل کیس کے مرکزی ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
ترجمان انویسٹی گیشن ونگ کے مطابق گرفتار ملزم لیسکو کے اسسٹنٹ لائن مین کے قتل میں ملوث ہے۔
انویسٹی گیشن ونگ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ملزم کی نشاندہی پر لیسکو کے اسسٹنٹ لائن مین کی لاش کو نہر سے نکال لیا گیا۔
ترجمان نے مزید بتایا ہے کہ ملزم نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لیسکو کے لائن مین کو 24 اپریل کو اغواء کیا تھا۔
انویسٹی گیشن ونگ کے ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ قتل کے بعد ملزمان نے لاش پتھر سے باندھ کر نہر میں پھینک دی تھی۔