کیا جنگی بندی 18مئی کو ختم ہو جائیگی؟ ابہام دور ہو گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے تصادم اور پاکستان کے بھرپور جواب کے بعد پاکستان نے بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کا مثبت جواب دیا تھا۔ تاہم اسی کے ساتھ ہی بھارتی حکام کی جانب سے جنگ بندی کو ’عارضی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر آج ملک بھر میں یوم تشکر منایا جارہا ہے
اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام میں اس وقت بھی اضافہ ہوا جب گزشتہ روز (بروز جمعرات) پاکستان کے وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے جمعرات کے روز سینیٹ کو بتایا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی افواج کے اعلیٰ حکام کے درمیان بدھ اور جمعرات کو رابطے ہوئے، جن میں دونوں جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو اتوار (18 مئی) تک توسیع دینے پر اتفاق ہوا ہے۔
اسحاق ڈار نے سینیٹ کو مزید آگاہ کیا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان آج بھی ہماری بات چیت ہوئی اور جنگ بندی کا معاہدہ اب 18 مئی تک مؤثر رہے گا۔
اس صورتحال میں ایک عام پاکستانی کے ذہن میں پہلا سوال یہی ہے کہ کیا مقررہ مدت کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو جائے گا؟ اور کیا پھر سے محاذ گرم ہوسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:پاکستان انڈیا سیز فائر، آگے کیا ہوگا؟
جنگ بندی کے حوالے سے پائی جانے والے اس ابہام کے حوالے سے سیکیورٹی ذرائع نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ جنگ بندی میں کوئی وقت کی پابندی نہیں ہے، یہ اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ دونوں یا کوئی ایک فریق اس کی خلاف ورزی نہ کرے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دو ملکوں کی درمیان ہوئی اس جنگ بندی کی بھارت جب بھی خلاف ورزی کرے گا اسے ہمیشہ کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18 مئی اسحاق ڈار بھارت پاکستان تصادم جنگ بندی سیز فائر سینیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار بھارت پاکستان سیز فائر سینیٹ
پڑھیں:
شام میں مارچ میں قتل عام ’ممکنہ جنگی جرائم،‘ اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) شامی ساحلی علاقوں میں 1,400 ہلاکتیں ممکنہ جنگی جرائم، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے شام کے لیے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال مارچ میں شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران عبوری حکومت کے اہلکاروں اور سابق حکمرانوں کے وفادار جنگجوؤں، دونوں ہی کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق اس پرتشدد لہر میں زیادہ تر علوی برادری کو نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 1,400 افراد، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، ہلاک ہوئے۔ اس تشدد کے بعد بھی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔
یہ واقعات گزشتہ سال صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شام میں پیش آنے والا سب سے خونریز سانحہ تھے۔ اس کے بعد عبوری حکومت نے حقائق کے تعین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر