اے چشمِ زمانہ!سن کہ یہ فسان دہرفقط چندصفحاتِ تاریخ نہیں،یہ ایک امت کے خوں چکاں اشکوں کی تحریرہے،جوہرورق پرنوحہ گر ہے۔اے دلِ بینا!یہ صرف خط کشمیرنہیں،یہ نوعِ انسان کی غیرت وحمیت کاپیمان آزمائش ہے،جہاں خامشی دراصل گناہ ہے،اورتاخیر بذاتِ خودایک سنگین سازش۔ایک خونچکاں داستانِ جدوجہد واستحصال جوگزشتہ سات دہائیوں سے انسانی حقوق کے چیمپئن کادعویٰ کرنے والوں کے ضمیر پر ہتھوڑے برسارہی ہے۔
برصغیرکی فضاجب صدیوں کی غلامی کی زنجیروں کوتوڑنے کومچلی،تب تقدیرنے ایک فیصلہ کن لمحے کوجنم دیا۔تقسیم ہندکاوہ طوفانی لمحہ، جسے14 اگست1947ء کے سورج نے پاکستان کے قیام کے ساتھ دیکھا،ایک وعدے،ایک اصول اورایک نصب العین پر مبنی تھا:مسلم اکثریتی علاقوں کوپاکستان میں شامل کیاجائے گا۔یہی وہ خدائی اصول تھاجس نے قوم کودوقومی نظریے کی روح سے منورکیا۔مگرافسوس!جب کشمیرکی وادیوں میں اذانوں کی صدائیں99فیصد مسلمان آبادی کی گواہی دیتی تھیں،وہاں سازشوں کی سیاہ گھٹائیں چھا چکی تھیں۔
آج دنیاکے نقشے پرایٹمی سائے میں لپٹا اگرکوئی خطہ ہے جوسراپاآتش فشاں ہے،تووہ جنوبی ایشیاہے جہاں چارایٹمی قوتیں اپنی سرد وگرم آویزشوں کے ساتھ برسرِپیکارہیں۔پاکستان اور بھارت جوکشمیرکے مسئلے پرازل سے متخاصم،ہرلمحہ ایک نئے تصادم کے دہانے پرکھڑے ہیں اور ہر مرتبہ دنیاکوان کے ایٹمی تصادم کاخطرہ لاحق رہتا ہے جوعالمی امن کیلئے ایک تباہی کاسبب بن سکتا ہے۔
ذراپیچھے مڑکرجائزہ لیں تو1946ء ،ایک ننگِ انسانیت سودا،جس نے سرزمینِ کشمیر کوتاجِ برطانیہ کے تاجرمزاج حاکموں نے محض پچھتر لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض گلاب سنگھ ڈوگرہ کوبیچ ڈالا۔یہ سوداعہد نام امرتسر کہلایا۔ گو یہ کشمیر،اس سوداگری کااسیربنا،جہاں انسانوں کوزمین کی طرح خریداگیا۔سعدی نے کہا تھا: ’’آں کہ زرخرد،زرفروشد‘‘،یعنی جو انسانوں کوخریدے وہ انسانیت کوفروخت کرتا ہے۔
جب1947ء میں تقسیم کاسورج طلوع ہوا،ریاستوں کواختیاردیاگیاکہ وہ یاتوپاکستان سے الحاق کریں یاہندوستان سے۔گلاب سنگھ کے وارث،مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدامیں کسی سے الحاق سے انکارکیا۔یہ انکاراس کے عزم کاغمازنہ تھابلکہ سازشوں کی تمہیدتھی۔ چنانچہ،جب کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کامطالبہ کیا تو بزدل ہندومہاراجہ جوراجہ نہ بن سکا،اورہندوں کی سازش کے تحت26اکتوبر1947ء کوہندوستان سے نام نہادالحاق کااعلان کردیا،جس کی کوئی ائینی حیثیت اس لئے نہیں کہ یہ نام نہادالحاق کا واقعہ دراصل بھارتی فوجی مداخلت کے بعدپیش آیا۔
برطانوی مرخ ’’الفریڈسکوپوفیلڈ‘‘ اپنی مشہور تصنیف’’دی ڈسپیوٹڈلیگیسی‘‘ میں اس معاملے کی چشم کشاحقیقتیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’یہ امرمسلم ہے کہ الحاق کی دستاویزایک افسانہ ہے، جوبعدمیں تیارکی گئی۔برطانوی سلطنت یا ہندوستانی تسلط کے سرکاری ریکارڈمیں کوئی مستند اصل آلہ موجودنہیں ہے‘‘۔سکوپوفیلڈلکھتی ہیں کہ یہ تمام رپورٹس ہندوستان کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھولتی ہے۔
اقوام متحدہ نے1948ء سے1957ء تک متواتر قراردادیں منظورکیں جن میں کشمیری عوام کوحقِ خودارادیت دینے پرزوردیاگیا۔خاص طور پر 21اپریل1948ء کی قراردادمیں ہندوستان کو پابند کیاگیاکہ وہ کشمیرمیں رائے شماری کا انعقاد کرے۔قرارداد نمبر47، قرارداد نمبر91، قرارداد نمبر 122سب کی سب یہی فریاد کرتی رہیں مگر وعدے وفانہ ہوئے۔
قرارداد39(20جنوری1948): اقوام متحدہ نے بھارت اورپاکستان کے درمیان ثالثی کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تاکہ کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔اس قرارداد میں جموں وکشمیرمیں امن وامان کی بحالی اوررائے شماری کے انعقادکی سفارش کی گئی تاکہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ قراردادکے مطابق پاکستان کوریاست سے قبائلیوں اورغیرمقامی افرادکوواپس بلانے کاکہاگیا۔بھارت کواپنی افواج کوکم سے کم سطح پرلانے اوررائے شماری کیلئے ماحول سازگاربنانے کی ہدایت دی گئی۔اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ایک غیرجانبداررائے شماری کاانعقادتجویزکیاگیا۔
قرارداد91(30مارچ1951):اس قراردادمیں بھارت اورپاکستان کویاددلایاگیاکہ جموں وکشمیرکی حتمی حیثیت کاتعین اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اورمنصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیاجائے گا۔قراردادمیں کہاگیاکہ جموں وکشمیرکی آئندہ حیثیت کاتعین صرف اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیاجائے گا۔
قرارداد122(24جنوری1957):اس قرارداد میں کہاگیاکہ جموں وکشمیرکی آئندہ حیثیت کاتعین صرف اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اورمنصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
قرارداد211(20ستمبر1965):اس قرارداد میں بھارت اورپاکستان کے درمیان جنگ بندی کامطالبہ کیاگیااوردونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ5اگست1965سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جائیں۔
اقوام متحدہ نے21 اپریل 1948 کی قرارداد نمبر 122تک،کشمیریوں کوحقِ خودارادیت دینے کاوعدہ کیا۔ان قراردادوں پردستخط کرنے والے پانچ ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، اور روس بطورضامن شامل تھے۔ان ممالک نے قراردادوں کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا اور کشمیرمیں رائے شماری کے انعقادکی حمایت کی۔ان سب نے ،بطور سلامتی کونسل کے ارکان،اس پردستخط کیے۔یہ تمام عالمی طاقتیں سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی حامل تھیں،اوران پرلازم تھا کہ وہ ان قراردادوں پرعملدرآمدکویقینی بناتیں۔ مگر:
٭امریکانے بھارت کوچین کے خلاف ایک تزویراتی دیوارکے طورپراستعمال کیا۔
٭روس نے بھارت کواسلحہ فراہم کرکے معاشی مفادحاصل کیا۔
٭برطانیہ اورفرانس نے انسانی حقوق سے زیادہ اپنے تجارتی مفادات کواہم جانا۔
یہ تاخیراورخاموشی دراصل وعدہ شکنی، عہدسے فرار،اورکشمیریوں سے کھلا دھوکہ تھا۔ ان کے ضمیرنے سامراجی مصلحت کے آگے سرجھکا دیا جس کی آج تک سزاکشمیریوں کومل رہی ہے۔ اور پھرکیاہوا؟نہ رائے شماری ہوئی،نہ انصاف ملا۔ بڑی طاقتوں،امریکا،برطانیہ،فرانس نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کوحقِ خود ارادیت کی ضمانت دی، مگر یہ وعدے کاغذی ثابت ہوئے۔طاقت کے ایوانوں میں انصاف کی صدادب گئی اورکشمیری آج بھی غلامی کی زنجیروں میں سسک رہے ہیں۔ آج بھی کشمیرحق خودارادیت کی قراردادوں کی منظوری کے باوجودطاقتورضامنوں کے مکرکاشکار ہے۔
آخریہ تاخیرکیوں؟جنوبی ایشیا دنیا کا واحد ایٹمی گنجان خطہ ہے جہاں بیک وقت پاکستان اور بھارت دومتحارب ایٹمی قوتیں ہیں۔چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اورروایتی طورپر بھارت سے متصادم ملک ہے۔روس(وسطی ایشیاکی سرحد پر) عالمی اسلحہ منڈی اورخطے میں اثرورسوخ رکھنے والاملک ہے۔ایران ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے قریب ہے،جومغرب اوراسرائیل کیلئے باعث تشویش ہے۔اس قدر حساس خطے میں،کشمیرایک ایسا شعلہ ہے جوکبھی بھی پورے خطے کوایٹمی آتش فشاں میں بدل سکتاہے۔
بعض عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیرکوجان بوجھ کر التوا میں رکھتی ہیں تاکہ وہ مسلسل ثالث بن کراپنی سفارتی اہمیت برقراررکھ سکیں۔ خطے میں فوجی اورانٹیلی جنس موجودگی کاجوازقائم رکھ سکیں٭ چین کے اثرکوقابومیں رکھنے کیلئے پاکستان کومحدودرکھاجائے۔
٭عالمی طاقتوں کی وعدہ خلافی کی وجوہات ان کے سیاسی مفادات کی نذرہوگئے ہیں۔
٭امریکااورمغربی طاقتیں بھارت کوچین کے خلاف تزویراتی شراکت دارسمجھتی ہیں۔انہیں خدشہ ہے کہ اگرکشمیرکے مسئلے پربھارت کوسختی سے روکاگیاتووہ چین کی طرف جھک جائے گا۔
٭بھارت دنیاکاسب سے بڑااسلحہ خریدنے والاملک ہے۔امریکا،فرانس،روس سب کیلئے یہ سنہری منڈی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ’’سلجھانے‘‘ سے یہ منڈی سکڑسکتی ہے۔
٭اقوامِ متحدہ خودپانچ طاقتورممالک کے رحم وکرم پرچلتی ہے۔ان میں سے کوئی بھی ویٹوپاوراگرمداخلت نہ چاہے توکوئی قراردادمؤثر نہیں ہوسکتی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رائے شماری کے پاکستان کے
پڑھیں:
اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-01-21
واشنگٹن /غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کی ہے کہ غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکورٹی فورس (ISF) قائم کرنے کی منظوری دی جائے، جو کم از کم 2 سال کے لیے تعینات رہے گی۔ امریکی ویب سائٹ ایکسِیوس کے مطابق امریکا نے یو این ایس سی کے رکن ممالک کو ایک ڈرافٹ قرارداد کا ارسال کیا ہے، جس میں فورس کے اختیارات، ذمہ داریاں اور قیام کی تفصیلات شامل ہیں، یہ فورس غزہ بورڈ آف پیس کے مشورے سے تشکیل دی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ڈرافٹ کے مطابق فورس کو غزہ کی سرحدی سیکورٹی، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، فلسطینی پولیس کی تربیت، اور علاقے کو غیر عسکری بنانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی، فورس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس ایف ایک فورس ہوگی، امن مشن نہیں۔ اس کا مقصد غزہ میں عبوری سیکورٹی فراہم کرنا ہے تاکہ اسرائیل بتدریج علاقے سے انخلا کرے اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کے بعد انتظام سنبھال سکے‘ غزہ کی سول انتظامیہ ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے ذریعے چلائی جائے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ابراہم کارڈ میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے۔ صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یقین نہیں کہ آیا دو ریاستی حل ہوگا، مسئلہ کا حل اسرائیل اور مجھ پر منحصر ہے۔ اسرائیلی فوج کی جیل سے فلسطینی قیدی پر تشدد کی وڈیو لیک کرنے کے بعد استعفا دینے والی اعلیٰ عہدیدار کو گرفتار کرلیا گیا۔ میجر جنرل یفات تومر یروشلمی، ملٹری ایڈووکیٹ جنرل تھیں، لیک وڈیو اگست2024 میں اسرائیلی چینل نے نشر کی تھی۔ وڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کو سدی تیمان جیل میں فلسطینی قیدی کو تشدد کا نشانہ بناتے دکھایا گیا تھا۔تشدد کے بعد قیدی کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا، واقعے کے بعد 5 اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی وڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا افسر کو حراست میں لے لیا گیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انہوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔امن کے دشمن اسرائیل کی دہشت گردی تھم نہ سکی، غزہ امن معاہدے کی بار بار خلاف ورزیاں جاری رہیں۔ صہیونی فضائیہ نے خان یونس اور جنوبی غزہ پر بمباری کی، دیر البلاح کے مشرقی علاقوں میں اسرائیلی توپ خانے سے بھی گولہ باری کی گئی، مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کے حملے میں 3 فلسطینی شہید ہوگئے، غزہ امن معاہدے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہادتوں کی تعداد 236 ہو گئی۔ اسرائیل نے مزید 5 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ۔الجزیرہ نے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ روز کو آزاد کیے گئے 5 افراد کو طبی معائنے کے لیے دیر البلح کے الاقصی اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ان کے رشتہ داروں کا ہجوم جمع ہوا، کچھ نے رہائی پانے والے قیدیوں کو گلے لگایا ‘غزہ میں فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے 45فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئیں جنہیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے حوالے کیا گیا۔ اس طرح قابض اسرائیل سے موصول ہونے والی شہدا کی لاشوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 270 ہوگئی ہے‘غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں مزاحمتی سیکورٹی فورس کی ایک خفیہ اور اہم کارروائی میں 5 غداروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی علی الصبح عمل میں لائی گئی جسے مزاحمتی سیکورٹی کے ذیلی یونٹ رادع فورس نے انتہائی مہارت اور رازداری کے ساتھ انجام دیا۔ گرفتار افراد حسام الاسطل نامی ملیشیا سے وابستہ تھے جو دشمن کے لیے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اس کارروائی کے دوران اسلحہ اور بڑی مقدار میں نقد رقم بھی برآمد کی گئی ۔ سیکورٹی ذرائع نے واضح کیا کہ دشمن سے وابستہ یا قابض اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی جاری رہے گی۔