برطانوی سیکریٹری خارجہ کا دورہ پاکستان، اعلامیہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کے دورہ پاکستان پر برطانوی ہائی کمشین نے اعلامیہ جاری کردیا ہے۔
برطانوی ہائی کمشین کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ2021 کے بعد کسی برطانوی سیکریٹری خارجہ نے پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا، ڈیوڈ لیمی نے دورہ پاکستان میں جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا کہ تنازعہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا برطانوی سیکریٹری خارجہ سے رابطہ، دو طرفہ تعاون میں اضافے پر اتفاق
اعلامیے کے مطابق برطانوی حکومت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک برطانیہ کے اہم شراکت دار ہیں، برطانوی وزیر خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر سینئر حکام سے ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں میں دونوں ممالک کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو سراہا۔
برطانوی وزیر خارجہ نے برطانوی زندگی میں پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے کردار کو سراہا، انہوں نے دونوں ممالک میں کشیدگی سے پیدا ہونے والی تشویش کا اظہار کیا، ڈیوڈ لیمی نے پہلگام میں دہشتگرد حملے کی مذمت کی، انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے برطانیہ کے عزم کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو زرداری سے برطانوی سیکریٹری خارجہ کی ملاقات
برطانوی سیکریٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں برطانیہ کے قریبی دوست ہیں، ہم اس جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تعاون برطانوی اور پاکستانی شہریوں کی خوشحالی کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
وزیر خارجہ نے 15 مئی کو اپنے بھارتی ہم منصب سے بھی بات چیت کی، انہوں نے جلد نئی دہلی کے دورے کی خواہش کا اظہار کیا، اسلام آباد میں قیام کے دوران وزیر خارجہ نے برطانوی ہائی کمیشن کے قونصلر عملے سے ملاقات کی، انہوں نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران برطانوی شہریوں کی مدد کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانیہ پاکستان ڈیوڈ لیمی سیکریٹری خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ پاکستان ڈیوڈ لیمی سیکریٹری خارجہ برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
چینی وزیر خارجہ وانگ کا شیڈول دورہ بھارت
نئی دہلی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 اگست ۔2025 )بھارت اور چین 5سال بعد سرحدی تجارت دوبارہ شروع کرنے پر بات چیت کر نے جارہے ہیں، چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے مذاکرت کےلئے آئندہ پیر کو بھارت کے دورے کا امکان ہے غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق ٹرمپ کے محصولات سے متاثرہ عالمی تجارتی نظام میں بھارت چین تعلقات میں نرمی لانے پر مجبور ہوئے ہیں ماضی میں برف پوش اور بلند و بالا ہمالیائی سرحدی راستوں سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت ہوتی تھی تاہم اس کا حجم کم ہوتا تھا لیکن پھر بھی اس کی بحالی کو علامتی طور پر اہم سمجھا جا رہا ہے.(جاری ہے)
دونوں بڑی اقتصادی طاقتیں طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتی رہی ہیں تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے نظام سے پیدا ہونے والے عالمی تجارتی اور جغرافیائی سیاسی بحران کے تناظر میں دونوں ممالک تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت تمام نامزد تجارتی پوائنٹس یعنی اتراکھنڈ میں لیپولیکھ پاس، ہماچل پردیش میں شپکی لا پاس اور سکم میں ناتھو لا پاس کے ذریعے سرحدی تجارت کو دوبارہ شروع کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے چینی حکام کے ساتھ گفتگو کرراہ ہے بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی مذاکرت کےلئے آئندہ پیر کو نئی دہلی آمد متوقع ہے جب کہ اس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر جولائی میں بیجنگ کا دورہ کر چکے ہیں. دوسری جانب عالمی امورکے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دہلی اور بیجنگ کے درمیان تجارتی تعلقات ہر دور میں قائم رہے ہیں یہاں تک کہ لداخ کے علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپو ں کے دوران بھی تجارت نہیں رکی اور 2020میں سرحدی جھڑپوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم2سوارب ڈالر کے قریب تھا اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے عہد صدارت میں چین کی اسٹیل مصنوعات پر پابندیوں کے پیش نظرچینی صنعت کاروں نے بھارت کو تیسرے ملک کے طور پر چنا تھا اور بڑے پیمانے پر اسٹیل کی مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں بھارت میں قائم کی گئی تھیں . انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت تجارتی لین دین کوترجیح دیتے ہیں جبکہ خطے میں دیگر ممالک کی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ خطے میں دنیا میں ایک تہائی سے زیادہ آبادی موجود ہے اور جنوبی ایشیاءکے ممالک آپسی تجارت سے معاشی اہداف کو پورا کرسکتے ہیں . انہوں نے کہا کہ خطے میں روس اور ایران جیسے تیل کے بڑے پروڈیوسرموجود ہیں اسی طرح چین اوربھارت بڑی زرعی اور صنعتی طاقتیں ہیں علاقائی طاقتیں مل کر خود انحصاری کی طرف جانا چاہیں تو جنوبی ایشیاءکا اتحاد دنیا کا سب سے طاقتور معاشی اتحاد بن سکتا ہے.