UrduPoint:
2025-05-17@06:46:42 GMT

عمران خان کی مقبولت کا گراف گرا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

عمران خان کی مقبولت کا گراف گرا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) پاکستان کے سینئر صحافی سجاد میر کے بقول یہ بات درست ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک بڑے اور مقبول لیڈر ہیں لیکن وہ موجودہ بحران سے بڑے نہیں تھے۔

سجاد میر کا کہنا ہے کہ اس بحران میں عوام کی بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ہے۔

عمران خان سمیت بہت سے سیاسی ایشوز اب پس منظر میں چلے گئے ہیں، '' اب اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر مقبول رہتی ہے یا عمران خان کا گراف کہاں جا کر رکتا ہے اس کا درست جواب تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔ ‘‘ سب کچھ ہی بدل گیا

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی ووٹرز اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ میں بٹے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ووٹرز کی اس تقسیم میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کو برتری حاصل رہی تھی۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی جاوید فارووقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگی صورتحال نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہو چکی ہے، ''پاکستان کا سارا سیاسی منظر نامہ اس وقت حالیہ کشیدگی کے زیر اثر ہے، ایک اس صورتحال سے پہلے کا پاکستان تھا اور ایک بعد کا پاکستان ہے، جو بہت مختلف ہے۔

اس کشیدگی نے پاکستان کی سیاست، عام لوگوں کی سوچ اور عمومی سیاسی حقائق سب کچھ بدل دیا ہے۔‘‘

پاکستان کے ممتاز دانشور اور کالم نگار قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی مقبولیت کا درست اندازہ تو کسی سروے یا بلدیاتی انتخابات میں ہی لگایا جا سکے گا، '' لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

‘‘

سینئر تجزیہ کار ثقلین امام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران کی مقبولیت کا سوال اب اہم نہیں رہا، '' آپ پی ٹی آئی کا کس جماعت سے موازنہ کریں گے؟ اب قومی منظر نامے پر عمران اور اس کی مقبولیت ایک طرف ہو چکی، ساری سیاست بھی پس منظر میں جا چکی ہے، اب پاکستانی سیاست پر پاکستان اور بھارت کی کشیدگی، حب الوطنی، نیشنل ازم اور بھارت دشمنی ہی غالب آ چکی ہے۔

‘‘ اسٹیبلشمنٹ مضبوط، عمران کو ریلیف ملنے کے امکانات کم

ایک سوال کے جواب میں جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی حمایت میں بیانات دیے تھے لیکن اس سیاسی پارٹی نے اس طرح سپورٹ نہیں کیا، جیسے دیگر جماعتوں نے کھل کر کیا۔

تاثر ہے کہ پی ٹی آئی کے بیانات میں ایک جھجھک اور فاصلہ سا بھی تھا، جسے عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اچھی طرح محسوس کیا ہے۔

اب حالات یہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں فاصلے کم ہو گئے ہیں لیکن عمران خان اور اسٹیبلسمنٹ میں فاصلے بڑھ گئے ہیں، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان کو غیر معمولی ریلیف ملنے کے امکانات کافی کم ہو گئے ہیں۔

ماہر سیاسیات ڈاکٹر ریحانہ ہاشمی نے بتایا، ''یہ درست ہے کہ اس وقت ملکی دفاع کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے لیکن عمران کی مقبولیت کا سوال ایک طرف رکھ کر ہمیں بڑے ٹھنڈے دل سے اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں ہم نے جو کچھ پنجاب اور سندھ میں دیکھا، ویسا ہمیں کے پی اور بلوچستان میں نظر کیوں نہیں آیا۔

‘‘ کیا عمران خان کی مقبولیت بحال ہو سکے گی؟

جاوید فاروقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان آج بھی نوجوانوں کا ہیرو ہیں، ''اگر وہ جیل سے باہر آ گئے تو وہ لوگوں کے ہجوم کو اپنی ارد گرد اکٹھا کرنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے کی موثر کوشش کر سکتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت کے بغیر جیل سے باہر آتے نظر نہیں آ رہے۔

‘‘ عمران خان کی مقبولیت کیوں کم ہو رہی ہے؟

قیوم نظامی نے بتایا، ''عمران خان کے جیل جانے پر اس کے لیے عوام کی بڑی تعداد میں ایک ہمدردی کی لہر پیدا تو ہوئی تھی لیکن اب ''طاقتور لوگوں‘‘ کی پارٹی میں مداخلت، پاکستان کی تاریخ کے برعکس کیے جانے والے غیر دانشمندانہ فیصلے (جو اب عمران خان کو الٹے پڑ گئے ہیں) اور طویل عرصے کی جیلیں، احتجاج کی تیاری کے بغیر کالیں اور مقدموں کے نتیجہ خیز نہ ہونے سے خود پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی مایوسی پھیل رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''اپنی اہلیہ کے زیر اثر عمران خان کے عجیب و غریب فیصلوں نے بھی ان کا تاثر خراب کیا ہے۔‘‘

جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی وجوہات میں بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے علاوہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات، غلط تنظیمی فیصلے اور پارٹی کو مؤثر قیادت کا میسر نہ ہونا بھی ہے۔

عمران کی حمایت میں نوجوان اب بھی آگے

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد نوجوانوںنے بالکل مختلف رائے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ حکمران پارٹیوں کی بری کارکردگی کی وجہ سے ان کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔

کلیم نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ عمران کی اپنی شخصیت کے علاوہ ان کی مقبولیت کی ایک وجہ وہ غلط لوگ بھی ہیں، جو پچھلے چالیس سالوں سے برسراقتدار ہیں اور وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، '' کیا وہی ڈرامے بازیاں اب نہیں ہو رہیں، کیا اب بھی سارا زور اشتہاروں پر نہیں۔ کیا اب بھی سیاسی حکومت بیساکھیوں پر غیر آئینی طور پر نہیں کھڑی۔ جب تک یہ سب کچھ ہے عمران خان کی مقبولیت برقرار رہے گی۔‘‘

طارق نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جو لوگ حالیہ کشیدگی کے دوران عمران خان کی پاکستانی فوج کی حمایت پر سوال اٹھاتے ہیں، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مذمت کیوں نہیں کی ہے۔

ان کے خیال میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو مایوس نوجوان پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کی محنت مزدوری کی کمائی، جب ان کے گھر آتی ہے تو فارن رمیٹنسز بڑھتی ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران کی مقبولیت کم ہو گئی۔

طارق کے بقول ، ''عمران کی مقبولیت پر سوال اٹھانے والے دراصل وہی لوگ ہیں، جو آٹھ فروری سے پہلے پی ٹی آئی کے الیکشن سے فارغ ہو جانے کی پشین گوئیاں کر رہے تھے۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ عمران خان کی مقبولیت عمران کی مقبولیت ان کی مقبولیت حالیہ کشیدگی پی ٹی ا ئی کے بڑی تعداد گئے ہیں کے ساتھ اب بھی

پڑھیں:

عمران خان مذاکرات کے لیے راضی، گھر کو ٹھیک کرنا ضروری ہے!

اطلاع یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان بآلاخر مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

اس حوالے سے گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان مذاکرات کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انا کا مسئلہ بنانے والے پاکستان کو نقصان پہنچارہے ہیں،

ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے سے سرمایہ کاری نہیں آرہی، ہمیں ذات سے نکل کر ملک کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور پر اگرچہ خود پی ٹی آئی کے حلقوں کو بھی زیادہ اعتماد نہیں رہا اور اُنہیں عمران خان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی تمام تحریکوں کو ایک خاص نقطۂ اُبال پر لاکر ٹھنڈا کرنے اور پیچھے ہٹا کر حوصلوں کو شکستہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے تاہم اُنہوں نے یہ بات درست کہی ہے کہ ‘‘ انا کا مسئلہ بنانے والے پاکستان کو نقصان پہنچارہے ہیں، ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے سے سرمایہ کاری نہیں آرہی، ہمیں ذات سے نکل کر ملک کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے ’’ ۔

کم وبیش یہی اطلاع تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین اور مرنجان مرنج بیر سٹر گوہر نے بھی دی ہے۔ اُن کے حوالے سے ایک معاصر اخبار میں یہ اطلاع ایک ایسے نمائندے کے تبصرے کے ساتھ شائع ہوئی جو عمران مخالف جذبات کے ساتھ خبروں کو زاویہ بند کرنے کے ذمہ دار تصور کیے جاتے ہیں۔

اُنہوں نے بیرسٹر گوہر علی خان کے حوالے سے اپنی خبر میں واضح کیا ہے کہ ‘‘عمران خان نے پیر کے روز اڈیالہ میں ملاقات کیلئے آئے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو مذاکرات کی اجازت دی۔ تاہم سابق وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مذاکرات ٹی وی کیمروں کی چکاچوند سے دور ہوں تاکہ بامعنی نتائج کو یقینی بنایا جا سکے ’’۔

علی امین گنڈاپور کے ساتھ بیرسٹر گوہر بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خود اُن کی جماعت کے اندر نشانہ تنقید بنایا جاتا ہے، اور جنہیں انتہائی ‘‘اہم مواقع’’ پر خاموش رہنے اور اپنے کردار کو فعال نہ رکھنے پر موردِ الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو علی امین گنڈا پور، بیر سٹر گوہر دونوں ہی کی جانب سے یہ خبر جن حالات میں دی گئی ہے، وہ ایک بار پھر مخصوص حالات میں ایک سیاسی مشق اور ایک بار پھر گفتگو کا ڈول ڈال کر وقت گزاری کی ایک صورت ثابت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ کوششیں منظم طور پر ہوتی رہی ہیں اور اسے میڈیا کے مخصوص نمائندوں کی زاویہ بند خبروں سے بوقت ضرورت اعتبار دینے یا سبوتاژ کرنے کے دونوں کام لیے جاتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں معاصر اخبار میں ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے کی خبر کا تناظر بھی یہی بنتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات چیت کی فضا وزیر اعظم شہباز شریف کے قومی اسمبلی سے حالیہ خطاب کے بعد اُبھری ہے ۔ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران، وزیراعظم نے پی ٹی آئی کو قومی مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ اُس وقت جہاں بیرسٹر گوہر علی خان نے تجویز کا خیر مقدم کیا تھا، وہیں پارٹی حلقوں نے واضح کر دیا تھا کہ عمران خان کی واضح رضامندی کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف جنگی مہم جوئی کے تناظر میں سیاسی مفاہمت کے مطالبات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔جنگ بندی کے باوجود بھارتی وزیراعظم کے خطاب میں‘‘نیو نارمل’’ کی جنگی اور پاکستان کی سرحدوں کا احترام نہ کرنے والی تعبیر نے پاکستان کے لیے ہمہ وقت جنگی خطرے کو ایک ‘‘نیا نارمل’’ بنا دیا ہے، جس میں چوبیس گھنٹے پلکیں جھپکائے بغیر وطن عزیز کا دفاع اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ پاکستان کی شاندار فتح نے بھارت کے اوسان خطا کیے ہیں، وہیں بھارت کے اندر یہ شکست ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہورہی اور وہاں جارحیت کی مودی ڈاکٹرائن اور فالس فلیگ آپریشن کی اجیت ڈوال کی بغلی چھڑی سے پیٹھ پر وار کرنے کی مکروہ چالبازی پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔

چنانچہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاک فوج اب اپنا کُل وقت سرحدوں کے تحفظ پر صرف کرے اور پاکستان کے اندر ایک مربوط سیاسی نظام کے ساتھ قومی ہم آہنگی کی خوشگوار فضا مستقل برقرار رہے۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت پہلے مرحلے میں اگر پاکستان کے خلاف سرحدی اور فضائی کھلے معرکے شروع نہیں بھی کرتا تو وہ اندرون ملک اپنی ‘‘پراکسیز ’’ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لانے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کے دو صوبے اس وقت مقامی افراد کی ناراضیوں کا شکار ہیں،اس فضا کو بھارت خوب خوب استعمال کر رہا ہے۔

یہ وقت بھی پاکستان پر آنا تھا کہ بھارت کے ساتھ معرکہ آرائی میں پاکستان کو ایک وفد کے ذریعے افغانستان جا کر یہ ‘‘تسلی ’’ حاصل کرنا پڑی کہ پاک بھارت زور آزمائی میں پاک افغان سرحد کسی خطرے کا باعث نہیں بنے گی۔

اس تناظر میں پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ آئندہ دنوں میں جتنے بڑے اور خطرناک محاذوں پر لڑنا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر ایک ٹھوس سیاسی مفاہمت کی بنیاد ڈال دی جائے۔ اور عمران خان کے ساتھ مفاہمت کی حالیہ کوشش کو چند سیاست دانوں کے ذاتی مفادات اور ہوس اقتدار کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔

ظاہر ہے کہ عمران خان کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کی کوشش میں ایک خطرہ تو خود انتظامیہ کے بعض حصوں سے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کی وسیع تر سیاسی حمایت سے خائف اُن حلقوں سے بھی ہیں جنہیں اصل میں ان مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچا نا ہے اور خود اُنہیں ہی عمران خان کے ساتھ کسی بھی نتیجہ خیز مذاکرات کا ‘‘سیاسی نقصان’’ بھی پہنچنا ہے۔

پاکستان میں ایسے حکمران ابھی دکھائی نہیں دیتے جو اجتماعی مفادات میں اپنے قد سے بلند ہو کر سوچ سکیں ۔ جو عوامی جذبات کا خیال اپنے سیاسی مفادات کو تج کر رکھ سکیں۔ جو وقت کی آواز کو اپنے تعصبات کی مدہوشی میں سن سکیں۔ ان بدترین معروضی حقائق میں پاکستان میں جب بھی جس نے بھی اپنا حق حاصل کیا ہے یا کوئی سیاسی ہدف پایا ہے تو وہ کسی خوشگوار اُصولی یا قانونی طریقے سے اخلاقی چھتری تلے نہیں پایا۔

بلکہ یہ ایک ‘‘سازشی ماحول’’ میں درون خانہ مفادات کی کھچڑی پکا کر ہی ممکن ہو سکا ہے۔ بظاہر عمران خان نے اس پورے کھیل کو اُتھل پتھل کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی رہائی میں دلچسپی نہ لے کرپاکستان کے موجودہ سیاسی چال چلن میں ایک ‘‘حیرت’’ کا تاریخی اضافہ کیا ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ جنگی ماحول میں بھی اس سیاسی مفاہمت کی فضا کو پید اکرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا نہیں، یا پھر یہ سب ماضی کی طرح کھیلے گئے ایک مکروہ چال چکر کا عمل ثابت ہوتا ہے۔

یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد نہیں ہے کہ عملاً پاکستان کا سیاسی، قانونی ، انتظامہ اور عدالتی ڈھانچہ ہر اعتبار سے مکمل طور پر قابو کر لیا گیا ہے۔ جس میں کسی بھی نظیر ، دلیل ، اپیل اور وکیل کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ تمام فیصلے، پہلے سے طے شدہ طریقے سے ہر سطح پر ہو رہے ہیں۔ 26ویں ترمیم نے عدالتی ڈھانچے کو انتظامی دستبرد میں دے دیا ہے۔ اور انصاف کی دیوی کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارت کے ساتھ ہم جنگ بندی کے باوجود جنگ آزما حالات سے دوچار ہیں، ایک مرتبہ پھر عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا کو حرکت دے دی گئی ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کی انتظامی مشنری کی سخت چکی حرکت میں آگئی ہے۔

اس کی تازہ مثال گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) لاہور سے سامنے آئی جہاں عدالت نے عمران خان کے فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ کی اجازت دے دی۔ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے جج منظر علی گل نے 9مئی جلاؤ گھیراؤ کے 12مقدمات میں عمران خان سے تفتیش کے معاملے پر کیس کی سماعت کی اور وکلا کے دلائل کے بعد پراسکیوشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے رات گئے فیصلہ سنا دیا۔ دنیا میں شاید ہی ایسے کسی پراسیکیوش کی مثال ملے جہاں ایک ملزم کی گرفتاری کو 7سو 29 دن ہوچکے ہو ،اور اب جاکر اس نوع کے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہوں۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ہمارا نظام بدترین خطرات میں بھی ایک خاص ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر دنیا کی مختلف قوموں کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال ہمیشہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بڑی بڑی سلطنتیں اپنے اوج اور عروج میں دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود کیوں تباہ ہوتی رہیں۔

مورخین نے ہمیشہ نشاندہی کی کہ زوال کے تمام اسباب داخلی ہوتے ہیں۔ جو بیرونی خطرات میں بھی جوں کے توں رہتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے دشمن پر وقتی فتح تو حاصل کر لی ہے۔ مگر آئندہ ماہ وسال میں مقبولیت کی یہ فضا برقرار نہیں رہ سکے گی یہ قانون فطرت ہے۔ پاکستان کے داخلی تضادات میں حکمرانوں کے خلاف پائی جانے والی ہمہ گیر نفرت اپنا راستہ ڈھونڈ لے گی۔

ایسی صورت میں پھر یہ دن تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ اس لیے حکمرانوں کو موجودہ پاکستان کی فضا میں سیاسی مفاہمت کے امکانات کو مجسم کرنے پر فوری توجہ دینی چاہئے۔ اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کبھی کوئی ڈیل نہیں کریں گے: بیرسٹر گوہر
  • عمران خان مذاکرات کے لیے راضی، گھر کو ٹھیک کرنا ضروری ہے!
  • اختلافات ختم کر کے عمران خان کو رہا کیا جائے: بیرسٹر سیف
  • ایئروائس مارشل اورنگزیب گوگل پر سب سے  زیادہ تلاش کی جانے والی شخصیت بن گئے
  • عمران پے رول رہائی، مریم نوازسے درخواست کرناہوگی
  • پاک بھارت جنگ کے بعد کیا عمران خان کی رہائی کے امکانات بڑھ گئے ہیں؟
  • ’عمران خان مذاکرات کے لیے راضی ہوگئے‘
  • عمران خان مذاکرات کے لیے راضی ہوگئے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی
  • " اسٹیبلشمنٹ اور ٹاؤٹ کی “لوّ سٹوری” میں اتار چڑھاؤ ضرور آتے ہیں جس سے ۔ ۔ ۔"اقرارالحسن بھی میدان میں آگئے