عمران خان کی مقبولت کا گراف گرا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) پاکستان کے سینئر صحافی سجاد میر کے بقول یہ بات درست ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک بڑے اور مقبول لیڈر ہیں لیکن وہ موجودہ بحران سے بڑے نہیں تھے۔
سجاد میر کا کہنا ہے کہ اس بحران میں عوام کی بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ہے۔
عمران خان سمیت بہت سے سیاسی ایشوز اب پس منظر میں چلے گئے ہیں، '' اب اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر مقبول رہتی ہے یا عمران خان کا گراف کہاں جا کر رکتا ہے اس کا درست جواب تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔ ‘‘ سب کچھ ہی بدل گیاگزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی ووٹرز اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ میں بٹے ہوئے تھے۔
(جاری ہے)
ووٹرز کی اس تقسیم میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کو برتری حاصل رہی تھی۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی جاوید فارووقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگی صورتحال نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہو چکی ہے، ''پاکستان کا سارا سیاسی منظر نامہ اس وقت حالیہ کشیدگی کے زیر اثر ہے، ایک اس صورتحال سے پہلے کا پاکستان تھا اور ایک بعد کا پاکستان ہے، جو بہت مختلف ہے۔
اس کشیدگی نے پاکستان کی سیاست، عام لوگوں کی سوچ اور عمومی سیاسی حقائق سب کچھ بدل دیا ہے۔‘‘پاکستان کے ممتاز دانشور اور کالم نگار قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی مقبولیت کا درست اندازہ تو کسی سروے یا بلدیاتی انتخابات میں ہی لگایا جا سکے گا، '' لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
‘‘سینئر تجزیہ کار ثقلین امام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران کی مقبولیت کا سوال اب اہم نہیں رہا، '' آپ پی ٹی آئی کا کس جماعت سے موازنہ کریں گے؟ اب قومی منظر نامے پر عمران اور اس کی مقبولیت ایک طرف ہو چکی، ساری سیاست بھی پس منظر میں جا چکی ہے، اب پاکستانی سیاست پر پاکستان اور بھارت کی کشیدگی، حب الوطنی، نیشنل ازم اور بھارت دشمنی ہی غالب آ چکی ہے۔
‘‘ اسٹیبلشمنٹ مضبوط، عمران کو ریلیف ملنے کے امکانات کمایک سوال کے جواب میں جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی حمایت میں بیانات دیے تھے لیکن اس سیاسی پارٹی نے اس طرح سپورٹ نہیں کیا، جیسے دیگر جماعتوں نے کھل کر کیا۔
تاثر ہے کہ پی ٹی آئی کے بیانات میں ایک جھجھک اور فاصلہ سا بھی تھا، جسے عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اچھی طرح محسوس کیا ہے۔
اب حالات یہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عوام میں فاصلے کم ہو گئے ہیں لیکن عمران خان اور اسٹیبلسمنٹ میں فاصلے بڑھ گئے ہیں، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان کو غیر معمولی ریلیف ملنے کے امکانات کافی کم ہو گئے ہیں۔ماہر سیاسیات ڈاکٹر ریحانہ ہاشمی نے بتایا، ''یہ درست ہے کہ اس وقت ملکی دفاع کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے لیکن عمران کی مقبولیت کا سوال ایک طرف رکھ کر ہمیں بڑے ٹھنڈے دل سے اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں ہم نے جو کچھ پنجاب اور سندھ میں دیکھا، ویسا ہمیں کے پی اور بلوچستان میں نظر کیوں نہیں آیا۔
‘‘ کیا عمران خان کی مقبولیت بحال ہو سکے گی؟جاوید فاروقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان آج بھی نوجوانوں کا ہیرو ہیں، ''اگر وہ جیل سے باہر آ گئے تو وہ لوگوں کے ہجوم کو اپنی ارد گرد اکٹھا کرنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنے کی موثر کوشش کر سکتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت کے بغیر جیل سے باہر آتے نظر نہیں آ رہے۔
‘‘ عمران خان کی مقبولیت کیوں کم ہو رہی ہے؟قیوم نظامی نے بتایا، ''عمران خان کے جیل جانے پر اس کے لیے عوام کی بڑی تعداد میں ایک ہمدردی کی لہر پیدا تو ہوئی تھی لیکن اب ''طاقتور لوگوں‘‘ کی پارٹی میں مداخلت، پاکستان کی تاریخ کے برعکس کیے جانے والے غیر دانشمندانہ فیصلے (جو اب عمران خان کو الٹے پڑ گئے ہیں) اور طویل عرصے کی جیلیں، احتجاج کی تیاری کے بغیر کالیں اور مقدموں کے نتیجہ خیز نہ ہونے سے خود پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی مایوسی پھیل رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''اپنی اہلیہ کے زیر اثر عمران خان کے عجیب و غریب فیصلوں نے بھی ان کا تاثر خراب کیا ہے۔‘‘
جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی وجوہات میں بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے علاوہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات، غلط تنظیمی فیصلے اور پارٹی کو مؤثر قیادت کا میسر نہ ہونا بھی ہے۔
عمران کی حمایت میں نوجوان اب بھی آگےڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد نوجوانوںنے بالکل مختلف رائے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ حکمران پارٹیوں کی بری کارکردگی کی وجہ سے ان کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔
کلیم نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ عمران کی اپنی شخصیت کے علاوہ ان کی مقبولیت کی ایک وجہ وہ غلط لوگ بھی ہیں، جو پچھلے چالیس سالوں سے برسراقتدار ہیں اور وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، '' کیا وہی ڈرامے بازیاں اب نہیں ہو رہیں، کیا اب بھی سارا زور اشتہاروں پر نہیں۔ کیا اب بھی سیاسی حکومت بیساکھیوں پر غیر آئینی طور پر نہیں کھڑی۔ جب تک یہ سب کچھ ہے عمران خان کی مقبولیت برقرار رہے گی۔‘‘
طارق نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جو لوگ حالیہ کشیدگی کے دوران عمران خان کی پاکستانی فوج کی حمایت پر سوال اٹھاتے ہیں، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مذمت کیوں نہیں کی ہے۔
ان کے خیال میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو مایوس نوجوان پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کی محنت مزدوری کی کمائی، جب ان کے گھر آتی ہے تو فارن رمیٹنسز بڑھتی ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران کی مقبولیت کم ہو گئی۔
طارق کے بقول ، ''عمران کی مقبولیت پر سوال اٹھانے والے دراصل وہی لوگ ہیں، جو آٹھ فروری سے پہلے پی ٹی آئی کے الیکشن سے فارغ ہو جانے کی پشین گوئیاں کر رہے تھے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ عمران خان کی مقبولیت عمران کی مقبولیت ان کی مقبولیت حالیہ کشیدگی پی ٹی ا ئی کے بڑی تعداد گئے ہیں کے ساتھ اب بھی
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کابینہ میں تبدیلی، پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما علی امین گنڈا پور کے نشانے پر
کارکردگی کے نام پر خیبر پختونخوا کابینہ سے نکالے گئے ممبران کا پشاور جلسے کے واقعات سے کیا تعلق ہے؟ اصل معاملہ کیا ہے؟
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ملاقات کے بعد کابینہ کی کارکردگی اور ردوبدل کے نام پر 2 اہم وزرا سے استعفیٰ لیا۔ تاہم، پارٹی کے اندرونی معاملات سے باخبر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ دونوں کو پشاور جلسے میں وزیراعلیٰ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی سزا کے طور پر نکالا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پشاور جلسے کے فوراً بعد پیر کے روز اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین سے 2 گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ ترجمان خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق علی امین نے عمران خان کو سیاسی اور حکومتی معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی اور وزیراعلیٰ کو کابینہ کے حوالے سے کسی بھی فیصلے کا مکمل اختیار دیا گیا۔
مزید پڑھیں: فیصلہ سازی کور کمیٹی کرتی ہے، علیمہ خان یا گنڈاپور کا سیاسی کردار نہیں، لطیف کھوسہ
ملاقات کے بعد پشاور واپسی پر ہی کابینہ کے 2 اہم وزرا کے استعفے آئے، جنہیں علی امین نے کابینہ کی معمول کی ردوبدل کا حصہ قرار دیا لیکن اندرونی باخبر ذرائع اسے سیاسی انتقام بتا رہے ہیں۔
’یہ سب پشاور جلسے میں علی امین کے خلاف محاذ آرائی کا نتیجہ ہے‘پی ٹی آئی کے ایک سرگرم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ میں اچانک تبدیلی کا آغاز پشاور جلسے کے بعد ہوا اور اس حوالے سے عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور جلسے کے دوران علی امین گنڈا پور سخت ناراض ہوئے کیونکہ جب وہ تقریر کے لیے آئے تو پنڈال میں شور شرابہ شروع ہو گیا، ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی، جوتے دکھائے گئے اور بوتلیں پھینکی گئیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ جلسے کے تمام انتظامات علی امین کی ذاتی میڈیا ٹیم کر رہی تھی اور تمام کیمرے بھی اسی ٹیم کے تھے، جن کی مدد سے ان افراد کی نشاندہی کی گئی جن کا تعلق صوابی اور مردان سے نکلا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی آن بان شان سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی کیوں آئی؟
ان کے مطابق علی امین گنڈاپور سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف محاذ آرائی کے ذمہ دار صوبائی کابینہ کے کچھ لوگ ہیں، جنہیں وزیراعلیٰ کے مخالف عاطف خان گروپ کی سرپرستی حاصل ہے۔ شہرام ترکئی اور اسد قیصر بھی کسی نہ کسی طرح اسی گروپ کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو کلپس کی مدد سے محاذ آرائی کرنے والوں کی نشاندہی کے بعد اسد قیصر اور شہرام ترکئی کو بتایا گیا کہ ان کے بھائیوں کو کابینہ سے نکالا جا رہا ہے، جس پر دونوں نے استعفیٰ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے واقعات سے باخبر ایک اور سینئر رہنما نے بھی اس کی تصدیق کی۔
یاد رہے کہ کابینہ سے نکالے گئے فیصل ترکئی کا تعلق صوابی کے بااثر ترکئی خاندان سے ہے اور وہ سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے چھوٹے بھائی ہیں جبکہ عاقب اللہ، اسد قیصر کے بھائی ہیں۔
’فیصل ترکئی نوجوان اور فعال وزیر تھے‘پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے بتایا کہ پارٹی کے اندر بھی کچھ کابینہ ممبران کی کارکردگی بہتر نہ ہونے اور بعض وزرا پر کرپشن کے الزامات کی خبریں تھیں، لیکن فیصل ترکئی کا نام ان میں شامل نہیں تھا۔ فیصل ترکئی کا نام اچانک سامنے آیا ہے۔ ان کے خلاف کوئی شکایت یا الزام نہیں تھا۔ وہ نوجوان اور بہت فعال وزیر تھے۔
مزید پڑھیں: علیمہ خان پی ٹی آئی کو کمزور کرنے کی خاطر ایم آئی کے لیے کام کررہی ہیں، علی امین گنڈاپور کا الزام
انہوں نے مزید بتایا کہ عاقب اللہ کی وزارت میں ان کے بڑے بھائی اسد قیصر کی مبینہ مداخلت کی اطلاعات تھیں، جس پر علی امین خوش نہیں تھے۔ تاہم اسد قیصر نے اس تاثر کی تردید کی ہے۔
’کچھ کابینہ ممبران پر ناقص کارکردگی اور کرپشن کے الزامات ہیں۔‘پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور نے کابینہ کے کچھ ممبران کو ناقص کارکردگی اور کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ 5 کابینہ ممبران کے خلاف شکایات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان میں مالاکنڈ، مردان اور ہزارہ ریجن کے ممبران شامل ہیں۔
ان کے مطابق کارکردگی کے نام پر نکالے گئے وزرا سیاسی انتقام کا نشانہ بنے۔ تاہم پی ٹی آئی ذرائع نے واضح نہیں کیا کہ پشاور جلسے میں علی امین سے بد تمیزی میں ان کا کتنا کردار تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ علی امین نے سیاسی مخالف گروپ کو نشانہ بنایا۔
بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ نے گزشتہ رات کابینہ میں مزید تبدیلی کی، وزرا کے قلمدان بدلے اور باجوڑ سے منتخب رکن کو کابینہ میں شامل کیا۔
’کابینہ میں ردوبدل مشاورت سے کی گئی۔‘عمران خان سے ملاقات کے بعد علی امین گنڈاپور نے تفصیلی ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے علیمہ خان اور کابینہ میں تبدیلی پر بات کی۔
مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان سے متعلق عمران خان کو کیا بتایا؟ تفصیلات آگئیں
علی امین کا کہنا تھا کہ عمران خان نے انہیں مکمل اختیار دیا ہے اور کابینہ سے 2 وزرا کو فارغ کرنے سے پہلے ان کو آگاہ کیا گیا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان وزرا کو کیوں نکالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب مل کر ایک ٹیم کی طرح کام کرتے رہیں گے۔
’یہ ہومیوپیتھک کابینہ ہے‘سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت علی امین پی ٹی آئی میں مضبوط ترین رہنما ہیں اور بطور وزیراعلیٰ انہیں عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
صحافی عارف حیات کے مطابق خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی علی امین اور عاطف خان گروپ میں سخت مخالفت موجود ہے، اور صوبائی صدارت عاطف خان گروپ کے جنید اکبر کو دیے جانے کے بعد معاملات مزید گمبھیر ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق علی امین اپنے مخالفین کی آواز برداشت نہیں کرتے اور اسی وجہ سے کابینہ میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جو ان کے سامنے بات کر سکے۔ علی امین نے آہستہ آہستہ اپنی کابینہ کو ہومیوپیتھک کابینہ بنا دیا ہے، جس میں سارے فیصلے وہ خود کرتے ہیں اور سب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازع ختم؟ عمران خان علی امین گنڈاپور ملاقات کے بعد بیرسٹر سیف کا بڑا دعویٰ
عارف حیات نے کہا کہ علی امین نے پارٹی میں مخالفین پر سب سے پہلا وار مالاکنڈ سے منتخب رکن شکیل خان کو کابینہ سے نکال کر کیا تھا، جو عاطف خان گروپ سے تعلق رکھتے تھے اور وزیراعلیٰ کے سامنے کھل کر بولتے تھے۔ اب کابینہ میں کوئی ایسا نہیں رہا جو ان کی پالیسیوں پر اعتراض کرے۔ یہ مکمل ہومیوپیتھک کابینہ ہے۔
عمران خان اپنی بہن کی شکایات کرنے والے علی امین سے مطمئن ہیں؟پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان نے کابینہ میں تبدیلی کا اختیار علی امین کو دیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کریں اور کارکردگی بہتر بنائیں۔
ان کے مطابق علی امین کے خلاف بھی عمران خان کو جیل میں مکمل رپورٹ ملتی ہے اور علیمہ خان بھی علی امین کے سخت مخالف ہیں۔ علی امین کو کہا گیا ہے کہ وہ 2 مہینوں میں کارکردگی بہتر کریں اور پارٹی کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط بنائیں۔
مزید پڑھیں: ایشیا کپ میں انڈیا کیخلاف پاکستان کی پے در پے شکست پر علی امین گنڈاپور برس پڑے
صوبائی کابینہ میں حالیہ ردوبدل اور نکالے گئے وزرا کے حوالے سے مؤقف لینے کے لیے ترجمان صوبائی حکومت سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم کوئی جواب نہ مل سکا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گنڈاپور