یومِ آزادی محض جشن اور پرچم کشائی کا دن نہیں بلکہ یہ اس مقصد کی یاد دہانی ہے جس کے لیے قربانیاں دی گئیں۔ برصغیر میں آزادی کی تحریکوں کا بنیادی مقصد غلامی سے نجات اور عوام کی فلاح پر مبنی نظام کا قیام تھا۔معرکہ جدوجہد و خوشحالی کا مطلب صرف کسی ایک جنگ یا تحریک سے نہیں، بلکہ ہر اس جدوجہد سے ہے جو انصاف، مساوات اور عوامی حقوق کے لیے کی جائے۔
برصغیر میں آج بھی غربت، ناانصافی، مذہبی منافرت اور طبقاتی تقسیم جیسے مسائل موجود ہیں، اگر معرکہ حق اور معرکہ جدوجہد و خوشحالی کو معاشرتی انصاف، تعلیم کی فراہمی اورکرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کے طور پر زندہ رکھا جائے تو یہ ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔
آزادی کا اصل فائدہ تب ہے جب ہر فرد کو معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقعے ملیں۔ آزادی کی نعمت سے عوام اس وقت ہی مستفید ہو سکتے ہیں جب انھیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں اور انھیں یہ احساس ہو کہ کوئی ان کے حقوق غصب نہیں کرے گا اور کسی بھی مشکل کے وقت ریاست کا نظام اسے تحفظ فراہم کرے گا۔
جب عوام کے اندر یہ احساس جنم لے کہ ان کا ریاستی نظام دوہرے قوانین کا حامل ہے اور غریب لوگ انصاف اور اپنے حقوق کے لیے در در کی خاک چھانتے رہیں تو یہ احساس عدم تحفظ پیدا کرتا ہے۔ یوم آزادی اور معرکہ حق عوام کو یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ ترقی صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔
برصغیر کے ممالک اگر ماضی کے تنازعات سے اوپر اٹھ کر معیشت، تجارت اور سائنس میں تعاون کریں تو خطہ معاشی طاقت بن سکتا ہے،اگر یہ دن محض رسمی تقریبات میں گزر جائے اور ملکی ترقی کی جدوجہد کو وقتی نعرہ سمجھا جائے تو ترقی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ فرقہ واریت، بدعنوانی اور کمزور ادارے اس سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
یومِ آزادی ، معرکہ حق اور معرکہ جدوجہد و خوشحالی برصغیر کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تصورات کو عملی اقدامات میں بدلیں۔ ماضی کی قربانیوں کو صرف یاد نہ کیا جائے بلکہ ان سے سبق لے کر مستقبل کو بہتر بنایا جائے۔ جب آزادی کے دن ہم عہد کریں کہ انصاف، تعلیم اور معاشی خود مختاری کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں گے، تب ہی یہ دونوں نظریات حقیقی ترقی میں ڈھل سکتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ہر دور میں ایک معرکہ حق اور معرکہ جدوجہد و خوشحالی جاری رہا ہے۔ کبھی یہ جنگ آزادی کی صورت میں تھی، کبھی آمریت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی شکل میں اور آج یہ معرکہ غربت کے خلاف لڑا جا رہا ہے۔
غربت محض خالی جیب کا نام نہیں، یہ عزت نفس کے چھن جانے، بنیادی حقوق سے محرومی اور ناانصافی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ پاکستان میں کروڑوں افراد اس خاموش جنگ کے محاذ پر کھڑے ہیں اور یہ معرکہ کسی بندوق یا توپ سے نہیں بلکہ انصاف، تعلیم، روزگار اور مساوات سے جیتا جا سکتا ہے۔
معرکہ جدوجہد کی اصل روح یہ ہے کہ ظلم اور ناحق کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا جائے۔ غربت دراصل ایک ایسا سماجی ظلم ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ ایک غریب بچہ اکثر تعلیم سے محروم رہتا ہے، بیمار پڑنے پر علاج نہیں کروا پاتا اور جوان ہو کر بھی وہی مزدوری کرتا ہے جو اسے بمشکل دو وقت کا کھانا دے سکے۔
یہ صورتحال کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ کمزور معیشت، غیر منصفانہ پالیسیوں اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ غربت کے خلاف جدوجہد ایک اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے، جو معرکہ جدوجہد کا حصہ ہے۔
غربت کے خلاف سب سے موثر ہتھیار تعلیم ہے۔ تعلیم نہ صرف فرد کو ہنر اور شعور دیتی ہے بلکہ اسے اپنی حالت بدلنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں بنیادی تعلیم کو ہر بچے تک پہنچانا اس معرکہ جدوجہد کی پہلی صف ہے۔ جب ایک بچہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا ہنر مند بنے گا تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بدلے گا بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کو بھی غربت کی زنجیروں سے آزاد کرے گا۔
معرکہ جدوجہد و خوشحالی صرف شعور دینے سے نہیں جیتا جا سکتا، اس کے لیے عملی میدان میں روزگارکے مواقعے پیدا کرنا ضروری ہے۔ چھوٹے اور درمیانے کاروبار زرعی اصلاحات اور ہنرمندوں کی تربیت ایسے اقدامات ہیں جو معیشت میں نئی جان ڈال سکتے ہیں۔
جب ہر گھر میں کم از کم ایک شخص مستحکم آمدنی کمانے لگے تو غربت کا دائرہ سکڑنے لگتا ہے۔ غربت کے خلاف جنگ میں نصف آبادی کو گھر بٹھا دینا خود کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ خواتین کی تعلیم، ہنر مندی اور محفوظ ماحول میں کام کرنے کے مواقعے پیدا کرنا معرکہ جدوجہد و خوشحالی کا لازمی حصہ ہے، جب خواتین مالی طور پر بااختیار ہوتی ہیں تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کو بہتر زندگی دیتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی غربت سے بچاتی ہیں۔
انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم غربت اس وقت بڑھتی ہے جب وسائل چند ہاتھوں میں محدود ہو جائیں اور انصاف کا نظام کمزور ہو۔ ٹیکس کے منصفانہ قوانین، ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت اقدامات اور بدعنوانی کے خاتمے سے وہ وسائل حاصل کیے جا سکتے ہیں جو سماجی بہبود، صحت اور تعلیم پر خرچ ہوں۔ معرکہ جدوجہد و خوشحالی میں سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ ایک عام شہری کو اس کے حق کا حصہ ملے۔
غربت کے شکار افراد کو فوری سہارا دینا بھی اس جدوجہد کا حصہ ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام جیسے اقدامات، اگر شفافیت اور درست ہدف کے ساتھ چلائے جائیں، تو یہ معرکہ حق کی فرنٹ لائن پر موجود ان خاندانوں کو سہارا دیتے ہیں جن کی زندگی کا ہر دن ایک امتحان ہوتا ہے۔
عوامی بیداری اور اجتماعی جدوجہد معرکہ حق صرف حکومت یا چند اداروں کا کام نہیں، یہ ایک اجتماعی ذمے داری ہے۔ شہری تنظیمیں، میڈیا، تعلیمی ادارے اور عام لوگ سب کو مل کر غربت کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ ہر فرد اپنی سطح پر کسی بچے کی تعلیم،کسی ضرورت مند کی مدد یا کسی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر کے اس محاذ کا سپاہی بن سکتا ہے۔
سب سے بڑا معرکہ جدوجہد و خوشحالی پاکستان میں غربت کا خاتمہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بن سکتا ہے، اگر ہم اسے محض اقتصادی مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ ایک اخلاقی جنگ تصور کریں۔ یہ وہ معرکہ جدوجہد و خوشحالی ہے جس میں جیت کا مطلب ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے، ہر گھر میں روٹی پکے، ہر شہری کو انصاف ملے اور کوئی بھی محض غربت کی وجہ سے اپنی عزت اور حق سے محروم نہ رہے۔یہ جنگ لمبی ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر ہم نے اتحاد، انصاف اور محنت کے ساتھ یہ معرکہ لڑا تو غربت کا سایہ ہمیشہ کے لیے مٹ سکتا ہے اور پاکستان ترقی، خوشحالی اور برابری کی مثال بن سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معرکہ جدوجہد و خوشحالی غربت کے خلاف بن سکتا ہے اور معرکہ نہیں بلکہ یہ احساس یہ معرکہ ہیں بلکہ سکتے ہیں معرکہ حق بلکہ ا کے لیے
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں احتجاج کرنیوالے مقبوضہ کشمیرکی 3 نسلوں کی جدوجہد پر غورکریں: خواجہ آصف
ویب ڈیسک :وزیر دفاع خواجہ آصف نے آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج پر بیان جاری کردیا۔
سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر جاری بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ آزاد کشمیر میں احتجاج کرنے والے مقبوضہ کشمیرکی 3 نسلوں کی جدوجہد پر غورکریں، جو آپ کو میسر ہے اس کا عشر عشیر کا بھی وہ تصور نہیں کرسکتے، اس جدوجہد میں ایک نسل جیلوں میں جوانی سے بڑھاپے میں پہنچ گئی۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ وہ کشمیر کی آزادی کی تاریخ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں، پھانسی چڑھ گئے، سینے پر گولیاں کھائیں اور پاکستان سے محبت کی ہر روز قیمت ادا کرتے ہیں۔
پنجاب پولیس کے دو افسروں کے تبادلے
آزاد کشمیر میں جو اسوقت حضرات احتجاج کر رہے ھیں۔ اسکے فائدہ یانقصان ،درست یا غلط
کی بحث میں جاۓ بغیر صرف ان احتجاجی حضرات سے درخواست ھے کہمقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی تین نسلوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی داستان پہ غور کریں۔ جو آپکو میسر ھے اسکا عشر عشیر کا بھی وہ تصور نہیں کر سکتے۔…
ان کاکہنا تھاکہ کشمیرکی جنگوں میں شہید فوجیوں میں پنجابی، پختون، بلوچ اور سندھی سمیت سب شامل ہیں، پاکستان نے اپنا وجود کشمیر کی آزادی کے لیے داؤ پر لگایاہےاور لگائیں گے۔
ویمن گرین شرٹس آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ ٹرافی گھر لانے کیلئے پہلا قدم کل بڑھائیں گی
خواجہ آصف نے کہا کہ اکتوبر 1947 میں سرحد پار کرتے وقت ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہوئے تھے۔