سندھ ہائی کورٹ نے مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے حکم امتناع میں 12 ستمبر تک توسیع کردی
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اگست2025ء) سندھ ہائی کورٹ نے سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے صوبائی محتسب اعلی کے فیصلے کیخلاف درخواست پر مونس علوی کے وکیل کو جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے حکم امتناع میں 12 ستمبر تک توسیع کردی۔سندھ ہائیکورٹ میں سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے صوبائی محتسب اعلی کے فیصلے کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
مونس علوی اپنے وکیل بیرسٹر عابد زبیری کے ہمراہ پیش ہوئے۔ صوبائی محتسب اور فریقین خاتون نے تحریری جواب جمع کرادیا۔ نمائندہ صوبائی محتسب اعلی نے کہا کہ مونس علوی کی درخواست ناقابل سماعت ہے مسترد کی جائے۔ صوبائی محتسب کا دائر اختیار سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔(جاری ہے)
اس لیے دائر اختیار سے متعلق درخواست سندھ ہائیکورٹ سننے کا مجاز نہیں ہے۔
عدالت نے مونس علوی کے وکیل کو جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے حکم امتناع میں 12 ستمبر تک توسیع کردی۔ بیرسٹر عابد زبیری نے موقف دیا کہ مونس علوی نے صوبائی محتسب کے فیصلے کیخلاف گورنر سندھ کے پاس اپیل دائر کردی ہے۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ درخواستگزار کو حکم امتناع مل چکا ہے اب کیا چاہتے ہیں گورنر سندھ نے اپیل پر کیا فیصلہ کیا ہی خاتون کے وکیل نے موقف دیا کہ گورنر سندھ نے مونس علوی کی اپیل مسترد کردی ہے۔ بیرسٹر عابد زبیری نے کہا کہ گورنر سندھ نے مونس علوی کی اپیل مسترد نہیں کی پیر کو سماعت کے لیے مقرر کی ہے۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارلس دیئے کہ قانون کے مطابق درخواستگزار کو اپیل کا حق ہے۔ جب تک اپیل پر فیصلہ نہیں ہوجاتا ہم سندھ ہائیکورٹ سے کیس نمٹا دیتے ہیں۔ اپیل اسکا حق ہے جب تک اپیل پر فیصلہ نہیں ہوجاتا ہے،اسے عہدے سے کیسے ہٹایا جاسکتا ہی گورنر اپیل سن رہے ہیں تو وہیں کیس کی پیروی کی جائے اس طرح تو 6 مہینے سندھ ہائیکورٹ سنتا رہے گا۔ اتنی بڑی سزا ہے کیسے دے سکتے ہیں بیرسٹر عابد زبیری نے موقف دیا کہ اس کیس میں بہت سی چیزیں پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ آپ بہت سی چیزی پہلی بار دیکھ رہے ہوں گے،26 ویں ترمیم کے بعد تو اور بھی بہت سی چیزیں دیکھنی پڑرہی ہیں۔ صوبائی محتسب نے مونس علوی کو خاتون کوراساں کرنے کے جرم میں عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کے نے مونس علوی کو سندھ ہائیکورٹ گورنر سندھ
پڑھیں:
ہائی کورٹ کے ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات کا شکار
اسلام آباد: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے انہیں واپس کر دیا۔ذرائع کے مطابق رجسٹرار آفس نے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کون سا مفادِ عامہ کا سوال اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ایسے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں جن کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کا دائرہ کار استعمال کیا جا سکتا ہے؟اعتراض میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر آئینی درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کے ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس کے مطابق ذاتی رنجش کی بنیاد پر آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار آفس کے مطابق درخواستوں میں آئینی درخواست کے تمام اجزاء پورے نہیں کیے گئے اور نہ ہی نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت فراہم کی گئی۔درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائیکورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔مزید کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔