احتسابی عمل کمزور پڑ جاتا ہے جب ہم سسٹم کو اپنی روش پر چلنے نہیں دیتے۔ سسٹم کو آہنی ہاتھوں سے جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کسی ریاست کا احتسابی عمل کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ ریاست کو کمزور بنا دیتا ہے۔ایسا کہنا بھی درست نہیں کہ آمریت کا ہر دور ملک کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ۔
تاریخ کمال اتا ترک جیسے آمروں کی بھی گواہ ہے۔اسٹالن کی مثال بھی اس مخصوص پس منظر میں لی جا سکتی ہے،مگر ایسے آمر ہمیں تاریخ میں صرف دو چار ہی مثال کے طور پر ملیں گے۔زیادہ تر آمر درباریوں کے خوشامدیوں کے گھیرے میں رہے، انھوں نے ایک مخصوص’’ شرفاء‘‘ کا طبقہ بنایا اور رخصت ہوئے۔پھر ’’شرفاء‘‘ نے ہر جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں اور اپنی جگہ پر اپنے پسندیدہ شخص کو بٹھایا تاکہ ان کے مفادات کو تحفظ ملے۔
ہندوستان کے عام مسلمان، مسلم جاگیرداروں، نوابزادوں اور سرداروں کے زیر اثر رہے۔وہ کاروبار نہیں کرتے تھے نہ ہی کاشتکاری کرتے تھے ، ان کی جاگیریں تھیں۔ وہ انگریزوں کے نوازے ہوئے تھے، ان کے وفادار تھے، ان کے ہی خطابات ان نوابزادوں کو دیے ہوئے تھے ـ۔ سر، خان بہادر، رائے بہادر اور لارڈ وغیرہ۔جب کہ رہتے ہندوستان اور ہندوستانی کلچر میں تھے لیکن ذہنیت غلامانہ، مکارانہ اور غیرملکیوں جیسی تھی۔
ان کی اکثریت چھوٹے بڑے شہروں میں بستی تھی۔ا نگریز کے زمانے میں ہندوستان کے باشندوں میں مڈل کلاس مضبوط ہوئی، برلا ،ٹا ٹا جیسے صنعتکار خاندان وجود میں آئے۔تعلیم کا رجحان بڑھا۔ یوں انگریز کے ماتحت مقامی سرکاری ملازمین کا طبقہ بھی پروان چڑھنے لگا۔
متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ صرف مسلمان سرداروں، جاگیرداروں ، نوابوں اور انگریز سے سر، خان بہادر اور رائے بہادر جیسے ٹائٹل حاصل کرنیوالوں کی نمایندہ جماعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک جس پارٹی نے بنایا جو خود شدیدبحران کا شکار ہو گئی پھر کچھ ہی عرصے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔یہ خلا پہلے سول بیوروکریسی نے پر کیا، پھر ملٹری بیوروکریسی نے اس پر قبضہ جمایا ۔انگریزوں کی بنائی ہوئی اشرافیہ جو مسلم لیگ میں تھی وہ آمریتوں کا حصہ بن گئی۔
اگر ہم تاریخ کی باریکیوں کو نہیں سمجھیں گے، تو ہمیشہ دھوکے میں رہیں گے۔اس طرح یہ خوبصورت ملک جو خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے وہ بد عنوانیوں کا شکار رہے گا۔یہ ملک جو تقریباً ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا تھا، ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے تو کیوں نہ ہم اپنی تاریخ کے اوراق پلٹائیں،؎ وہاں جھانکیں۔
ہماری ارتقاء کے لیے اس ملک میں برلا، ٹا ٹا جیسے کاروباری خاندانوں نے جنم نہیں لیا جو ہماری ضرورت تھے۔ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں بائیس خاندانوں کا صنعت اور سرمایہ کاری پر راج تھا جوکہ ایک بحث طلب بات تو ضرور ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی نے اس ملک میں ایسی مڈل کلاس کو ابھرنے نہیں دیا۔
جواہر لعل نہرو نے روز اول سے معیشت کو ریاست کے تابع رکھا۔نوے کی دہائی میں ہندوستان کے و زیرِ خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ جوکہ ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح چکوال کے کسی سرکاری اسکول سے فارغ التحصیل تھے، انھوں نے نہرو کی معاشی پالیسی کو خیرباد کہا اور مارکیٹ کے اصولوں پر معاشی پالیسی کو ترتیب دیا۔
ہندوستان کی مجموعی پیداوارکی شرح ان تیس سالوں میں سات سے آٹھ فیصد تک بڑھی،غربت میں کمی ہوئی۔غربت ہندوستان میں اب بھی ہے مگر تیس کروڑ کی آبادی پر پھیلے ہندوستان کی مڈل کلاس اس کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔یہی مڈل کلاس ہے جس کی وجہ سے سے ہندوستان آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔
ہندوستان کے اقتدار میں ایسی اشرافیہ کا مجمع نہیں ہے جیسا کہ یہاں پاکستان میں ہے اور جو تسلسل ہے انگریزوں کے تحائف کا سردار، وڈیروں اور سرداروں کی صورت میں! بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی پست ہے۔سندھ میں خیرپور ضلعے میں پیش آیا واقعہ جس میں ایک غریب بچی فاطمہ پھرڑو، ایک پیر کے ہاتھوں ماری گئی اور ان پیروں کے زیر ِ تسلط پولیس نے اس کے کیس کو خراب کیا۔
بلوچستان میں حالیہ پیش آیا شیتل بانو کا دل دہلا دینے والا واقعہ۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار بد ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ حقوقِ نسواں کی پامال کیے جاتے ہیں۔
تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ بوجھ سندھ پر تھا ، پنجاب پر نہیں۔ پاکستان کے انھیں دو صوبوں سے زیادہ ہجرت کی گئی تھی۔ پنجاب سے ایک بڑی ہندو اور سکھ مڈل کلاس نے ہجرت کی۔مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب سے لوگ یہاں آئے وہ بھی مڈل کلاس تھی ۔مگر جو ہندو لوگ سندھ سے گئے، وہ شہروں میں بسنے والے تھے، مڈل کلاس لوگ تھے ، ایک خلاء پیدا ہوا۔سندھ کے اقتدار پر قبضہ جمایا وڈیروں اور جاگیرداروں نے۔اس طرح پنجاب میں مڈل کلاس پروان چڑھی لیکن سندھ میں، سندھیوں سے مڈل کلا س نہ ابھر سکی سوائے نوکری پیشہ افسر شاہی، ڈاکٹر، وکیل اساتذہ یا پھر انجینیئر حضرات۔
ہمارے شہروں میں جو لوگ ہجرت کر کے آئے وہ اردو بولنے والے مڈل کلاس لوگ تھے جن کو ابتدائی دنوں میں اقتدار میں شراکت دی گئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آتی گئی۔جنرل ایوب خان نے جب فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑا تو یہ اردو بولنے والے ڈٹ کر فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے رہے۔
سندھ میں ہندو سندھی جن کی اکثریت کراچی میں تھی ان کے جانے کے بعد مڈل کلاس انتہائی محدود رہ گئی اور باقی سب کسان تھے جو وڈیروں کے زیر تسلط تھے۔
جنرل ایوب کے دور تک یہ وڈیرے ، افسر شاہی کے تابع تھے۔ان کو بھرپور طاقت جنرل مشرف کے زمانے میں ملی جب ناظم سسٹم لایا گیا۔افسر شاہی کو ناظم کے تابع کردیاگیا، بلکہ ایم پی اے یا ایم این اے یا پھر وفاقی اور صوبائی وزراء عہدے ناظموں کے سامنے چھوٹے پڑ گئے۔ان بیس سالوں میں سندھ کا وڈیرہ بڑا خوشحال ہوا،مضبوط ہوا۔ سندھ بدحالی کا شکار ہوا کیونکہ وڈیرہ اپنی نفسیات میں ترقی کا دشمن ہے۔
پنجاب ترقی میں سندھ سے کہیں آگے ہے۔ پچھلے بیس برس میں سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت ان پر بھی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔سندھ میں حالات یا پھر ترقی انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔ کراچی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یتیموں کا شہر ہے۔دوکروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والا شہراور کوئی ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں۔
ایک غریب آدمی بائیک کی سواری کرتا ہے اور ہر روز تین یا چار جان لیوا حادثات کا شکار ہو تا ہے۔دیہی سندھ اور کراچی کی مجموعی سوچ کو الگ رکھنے کے لیے سب سے پہلا کام جنرل ضیا ء الحق نے کیا اور ہماری مڈل کلاس شہری سوچ بھی اس کا حصہ بن گئی۔اپنے دور حکومت میں انھوں نے تمام اداروں کو تباہ کیا جس کی وجہ سے آج تمام اردو مڈل کلاس بے روزگاری کا شکار ہے۔
ان کے پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔کراچی میں اب اولڈ ایج ہوم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ بچے باہر کمانے چلے جاتے ہیں اور ماں باپ یہاں گھروں میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور جو نوجوان ملک میں ہیں وہ انتہائی کم تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔
یہی نوجوان مختلف فوڈ چین کی بائیک چلاتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے۔بہت تیزی سے لوگ کراچی آ رہے ہیں۔افغانستان سے آنے والے لاکھوں لوگ غیرقانونی طور پر کراچی میں آباد ہیں، بنگلہ دیش اور برما سے لوگ یہاں آتے ہیں، یہاں آبادی کا حجم دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اسی لیے اس شہر کی ڈیمو گرافی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔پہلی تبدیلی 1947 سے لے کر 1970 کی دہائیوں میں آئی جب ہندو لوگ اس شہر سے چلے گئے ، تو ہندوستان کے متحدہ صوبہ جات اور حیدر آباددکن وغیرہ سے آئے لوگوں کی اکثریت تھی اور وہ بھی اب نہیں رہی۔ کراچی سے پارسی کمیونٹی بھی غائب ہوچکی ہے۔
مڈل کلاس سیاست کو وڈیرہ شاہی سیاست نے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ان پچاس برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت ، سندھ کے دیہی علاقوں میں صنعتوں کو قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔تعلیمی شعبے اور تعلیمی ادارے زوال پذیر ہیں۔
وکلاء نے سندھ میں اپنی تحریک کے ذریعے یہ خال پُر کرنے کی کوشش کی کیونکہ عوام کا ان پر بھروسہ تھا۔عوام اپنے گھروں سے نکلے اور وکلاء کا ساتھ دیا۔پھر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر سندھ کو دوبارہ سے جنرل ضیاء جیسی ہی کسی پالیسی کا شکار بنایا جا رہا ہے کہ سندھ کی آواز ایک نہ ہو سکے۔
اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے کیونکہ ان کی کارکردگی اس دفعہ اچھی نہیں رہی ہے اور اس ناکامی کو کم کرنے کے لیے سندھی مہاجر تضاد پیدا کرکے دوبارہ ا قتدار پر قبضہ جمایا جائے۔ اس خطے میں چین اور ہندوستان جیسی معاشی مضبوطی اور گروتھ ، پاکستان اپنی معیشت میں نہیں لا سکا، اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں پر مڈل کلاس کی اقتدار میں شراکت صفر ہے۔ایوانوں میں وڈیروں ، جاگیرداروں اور سرداروںکا غلبہ ہے۔
یہ ایک جدا بحث ہو گی کہ مڈل کلاس کس طرح سے سیاست میں آگے آئے۔ہم نے اس بات کا مشاہدہ بھی کیا کہ کراچی کی مڈل کلاس سیاست اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہی۔پھر ایسا بھی ہوا کہ ان کے لیڈران ، ہندوستان کے آگے جھکے۔
بلوچستان کی مڈل کلاس سیاست بھی اسی روش پر آگے بڑھی ہے۔سندھ کی مڈل کلاس سیاست ، سندھی قوم پرستوں تک اور پختونوں کی مڈل کلاس سیاست ، پختون قوم پرستوں تک ۔ تمام مڈل کلاس سیاست قومی سطح پر کسی ایک پیج پر نہیں۔ان کا بیانیہ صوبے کی تاریخ اور صوبائی تاریخ سے جڑا ہوا ہے جس کو یہاں پسند نہیں کیا جاتا۔
اب سوال یہ کہ کس طرح اس مڈل کلاس کو واپس لا کر پاکستان سے وفادار بنایا جا سکے اور ساتھ ہی اس فرسودہ اشرافیہ سے نجات حاصل کی جائے۔کسی درمیانے راستے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ ایک معاشی طاقت بن کر ابھرے۔دنیا ایک بڑی تبدیلی سے گذر رہی ہے اور ہمارے شرفاء اس ملک کی معیشت پر بوجھ ہیں۔شرفاء کا طبقہ نہ صرف مفت خوری کا عادی ہے بلکہ میرٹ کا قاتل بھی بھی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہندوستان کے کا شکار ہو سے زیادہ نے والے ہے اور
پڑھیں:
صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251002-03-7
اے ابن آدم یہ لوٹ مار کا حکومتی نظام پورے ملک میں بڑی شان وشوکت سے چل رہا ہے، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس لوٹ مار پر فخر کرتا ہے مرکز سے لے کر چاروں صوبوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہمارے حکمران تو سیلاب کو بھی اپنے لیے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے یہ وہ لوگ ہیں جو صرف سیلاب زدہ علاقے کے دورہ بھی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کرتے ہیں، حکومت برطانیہ کا 30 لاکھ پائونڈ امداد کا اعلان حکومت نے عالمی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کردی ہے۔ سنگاپور امداد کے لیے 50 ہزار ڈالر دے گا۔ کاش ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تو ہمیں دوسرے ممالک سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں اپنے عروج پر ہیں، غیر ضروری اخراجات بھی اربوں میں ہیں، کون سی ایسی مراعات ہے جو حکمران طبقہ وصول نہیں کرتا، غریب عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے والے حکمران اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے ٹیکس لگاتے رہتے ہیں اگر صرف بجلی کے بل کے ٹیکس دیکھ لیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ کراچی میں کمرشل بلوں میں ایک ہزار کا بھتا لگا ہوا ہوتا ہے اس کے علاوہ کے ایم سی کے 150 روپے الگ آتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کا کہ اُس نے بجلی کے بلوں میں موجود کے ایم سی چارجز پر عدالت میں مقدمہ کردیا ہے۔ میری جماعت اسلامی سے اپیل ہے کہ کراچی میں جو بجلی کے کمرشل بل موصول ہوتے ہیں ان میں موجود 1000 جو فکس چارجز کے نام سے یہ مافیا وصول کررہی ہے اس پر بھی مقدمہ کیا جائے، کرپشن کے خلاف آواز حق صرف جماعت اسلامی ہی بلند کرتی ہے۔ کراچی کے تاجروں نے کے ایم سی ٹیکس اور اس میں مزید اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اب کراچی کے عوام ماہانہ 285 کروڑ روپے میونسپل ٹیکس ادا کریں گے۔ لیکن کراچی کی عوام اور تاجروں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جارہے۔
پریس کانفرنس میں تاجروں نے برسات کے موقع پر مرتضیٰ وہاب اور وزیراعلیٰ سندھ کے رویے کو انتہائی ظالمانہ اور سنگدلانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بارش کی پیشگی اطلاعات کے باوجود میئر کراچی نے عوام اور تاجروں کو بارش سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ تاجروں نے کہا کہ کیماڑی سے سہراب گوٹھ تک گلشن اقبال سے سعدی ٹائون اور لانڈھی تک مارکیٹوں اور آبادیوں میں 5 سے 10 فٹ تک پانی داخل ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں اور عوام کا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا جس سے ان کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ابن آدم کہتا ہے یہ نقصان کیا بلدیہ ادا کرے گی۔ قارئین اس حوالے سے بڑی اہم خبر میری نظر سے گزری، یہ خبر کراچی کی نہیں ہے مگر ایک بڑا سچ ضرور ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔ عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کررہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے۔
عدالت عالیہ نے 4 اور عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔ جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتادیں جو وہ کام کررہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ ابن آدم سچ بولنے پر جسٹس محسن کیانی صاحب کو سلام پیش کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت بھی حکومت کی زبان بولتی ہے۔ حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اداروں میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہی، ہر ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتی ہے، ٹھیکے من پسند لوگوں کو ملتے ہیں جس کام کے پیسے ٹھیکے دار کو دیے جاتے ہیں وہ سب حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کاغذات میں کام کردیا جاتا ہے اور مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے، برسوں سے لوٹ مار کا یہ نظام سرکاری اداروں میں پھل پھول رہا ہے، افسران اور ٹھیکے دار راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں، پھر من پسند افسران اپنے سیاسی آقائوں کو ان کا حصہ باعزت طریقے سے دے کر آتے ہیں تا کہ ان کی کرسی مضبوط تر ہوجائے۔
ایک بہت بڑی ناانصافی محکمہ تعلیم میں ہورہی ہے وہ استاد جو آئی بی اے کے امتحان میں اور قابلیت کی بنیاد پر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے ان کی کوئی پنشن نہیں، تنخواہ ایک کلرک کے برابر جبکہ نااہل پرانے استاد جو آج 19 اور 20 گریڈ تک پہنچ گئے ان کو آج بھی لکھنے اور بولنے کی تمیز نہیں ہے۔ ایک نسل برباد کرکے رکھ دی ان کی تنخواہیں لاکھوں میں پنشن نہایت پرکشش جب چاہتے ہیں چھٹی کرلیتے ہیں سارا دن سیاسی گفتگو اور چائے پی کر گھر چلے جاتے ہیں جبکہ وہ استاد جو آئی بی اے سے امتحان پاس کرکے خالص میرٹ پر بھرتی ہوئے ہیں نہ تو وہ چھٹی کرسکتے ہیں۔ نہ ان کی گھر کے قریب پوسٹنگ وغیرہ ہوسکتی ہے، ان استادوں میں خواتین استاد بھی شامل ہیں جو دور دراز کا سفر طے کرکے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے آتی ہیں، آدھی سے زیادہ تنخواہ تو ان کی کرایہ میں لگ جاتی ہے۔ ابن آدم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان سب کی تنخواہوں میں 100 فی صد فوری اضافے کا اعلان کریں ساتھ ان کو پنشن کی سہولت بھی دی جائے، ایک مسئلہ اور نظر سے گزرہ ہے کہ جب نئے استادوں کے پرانے واجبات مطلب تنخواہ کا Arrear جب اے جی سندھ جاتا ہے تو محکمہ تعلیم والے اس پر ان سے اپنا کمیشن طلب کرتے ہیں، نام استعمال کرتے ہیں، اے جی سندھ کے دفتر کا، ہوسکتا ہے مل کر دونوں طرف کمیشن کھایا جاتا ہو کیونکہ بغیر رشوت کے تو کوئی ممکن ہی نہیں ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ میں حکومت کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا سسٹم چل رہا ہے اس کی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے فارم 47 کے ذریعے ان لوگوں کو مسلط کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی اور سندھ کی تباہی کی سب سے زیادہ ذمے دار ہیں اور یہ دونوں آج بھی وفاق کا حصہ ہیں۔ 20 سال گزر گئے K4 منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ تین حکومتیں گزر گئیں گرین لائن پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ریڈ لائن منصوبہ اہل کراچی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ 15 سال سے پی ایف سی ایوارڈ نہیں جاری کیا گیا۔ سندھ حکومت 15 سال میں کراچی کے 3360 ارب روپے کھا چکی ہے جس میں وفاق کا حصہ بھی شامل ہے۔ سندھ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھتی صرف مال بنانے کے لیے اہل کراچی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور 40 وڈیروں کا دوسرا نام ہے۔ مرتضیٰ وہاب اہل کراچی کے ترجمان بننے کے بجائے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔