Express News:
2025-08-16@22:27:22 GMT

مڈل کلاس سیاست

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

احتسابی عمل کمزور پڑ جاتا ہے جب ہم سسٹم کو اپنی روش پر چلنے نہیں دیتے۔ سسٹم کو آہنی ہاتھوں سے جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کسی ریاست کا احتسابی عمل کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ ریاست کو کمزور بنا دیتا ہے۔ایسا کہنا بھی درست نہیں کہ آمریت کا ہر دور ملک کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ۔

تاریخ کمال اتا ترک جیسے آمروں کی بھی گواہ ہے۔اسٹالن کی مثال بھی اس مخصوص پس منظر میں لی جا سکتی ہے،مگر ایسے آمر ہمیں تاریخ میں صرف دو چار ہی مثال کے طور پر ملیں گے۔زیادہ تر آمر درباریوں کے خوشامدیوں کے گھیرے میں رہے، انھوں نے ایک مخصوص’’ شرفاء‘‘ کا طبقہ بنایا اور رخصت ہوئے۔پھر ’’شرفاء‘‘ نے ہر جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں اور اپنی جگہ پر اپنے پسندیدہ شخص کو بٹھایا تاکہ ان کے مفادات کو تحفظ ملے۔

ہندوستان کے عام مسلمان، مسلم جاگیرداروں، نوابزادوں اور سرداروں کے زیر اثر رہے۔وہ کاروبار نہیں کرتے تھے نہ ہی کاشتکاری کرتے تھے ، ان کی جاگیریں تھیں۔ وہ انگریزوں کے نوازے ہوئے تھے، ان کے وفادار تھے، ان کے ہی خطابات ان نوابزادوں کو دیے ہوئے تھے ـ۔ سر، خان بہادر، رائے بہادر اور لارڈ وغیرہ۔جب کہ رہتے ہندوستان اور ہندوستانی کلچر میں تھے لیکن ذہنیت غلامانہ، مکارانہ اور غیرملکیوں جیسی تھی۔

ان کی اکثریت چھوٹے بڑے شہروں میں بستی تھی۔ا نگریز کے زمانے میں ہندوستان کے باشندوں میں مڈل کلاس مضبوط ہوئی، برلا ،ٹا ٹا جیسے صنعتکار خاندان وجود میں آئے۔تعلیم کا رجحان بڑھا۔ یوں انگریز کے ماتحت مقامی سرکاری ملازمین کا طبقہ بھی پروان چڑھنے لگا۔

متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ صرف مسلمان سرداروں، جاگیرداروں ، نوابوں اور انگریز سے سر، خان بہادر اور رائے بہادر جیسے ٹائٹل حاصل کرنیوالوں کی نمایندہ جماعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک جس پارٹی نے بنایا جو خود شدیدبحران کا شکار ہو گئی پھر کچھ ہی عرصے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔یہ خلا پہلے سول بیوروکریسی نے پر کیا، پھر ملٹری بیوروکریسی نے اس پر قبضہ جمایا ۔انگریزوں کی بنائی ہوئی اشرافیہ جو مسلم لیگ میں تھی وہ آمریتوں کا حصہ بن گئی۔

اگر ہم تاریخ کی باریکیوں کو نہیں سمجھیں گے، تو ہمیشہ دھوکے میں رہیں گے۔اس طرح یہ خوبصورت ملک جو خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے وہ بد عنوانیوں کا شکار رہے گا۔یہ ملک جو تقریباً ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا تھا، ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے تو کیوں نہ ہم اپنی تاریخ کے اوراق پلٹائیں،؎ وہاں جھانکیں۔

ہماری ارتقاء کے لیے اس ملک میں برلا، ٹا ٹا جیسے کاروباری خاندانوں نے جنم نہیں لیا جو ہماری ضرورت تھے۔ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں بائیس خاندانوں کا صنعت اور سرمایہ کاری پر راج تھا جوکہ ایک بحث طلب بات تو ضرور ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی نے اس ملک میں ایسی مڈل کلاس کو ابھرنے نہیں دیا۔

جواہر لعل نہرو نے روز اول سے معیشت کو ریاست کے تابع رکھا۔نوے کی دہائی میں ہندوستان کے و زیرِ خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ جوکہ ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح چکوال کے کسی سرکاری اسکول سے فارغ التحصیل تھے، انھوں نے نہرو کی معاشی پالیسی کو خیرباد کہا اور مارکیٹ کے اصولوں پر معاشی پالیسی کو ترتیب دیا۔

ہندوستان کی مجموعی پیداوارکی شرح ان تیس سالوں میں سات سے آٹھ فیصد تک بڑھی،غربت میں کمی ہوئی۔غربت ہندوستان میں اب بھی ہے مگر تیس کروڑ کی آبادی پر پھیلے ہندوستان کی مڈل کلاس اس کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔یہی مڈل کلاس ہے جس کی وجہ سے سے ہندوستان آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔

ہندوستان کے اقتدار میں ایسی اشرافیہ کا مجمع نہیں ہے جیسا کہ یہاں پاکستان میں ہے اور جو تسلسل ہے انگریزوں کے تحائف کا سردار، وڈیروں اور سرداروں کی صورت میں! بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی پست ہے۔سندھ میں خیرپور ضلعے میں پیش آیا واقعہ جس میں ایک غریب بچی فاطمہ پھرڑو، ایک پیر کے ہاتھوں ماری گئی اور ان پیروں کے زیر ِ تسلط پولیس نے اس کے کیس کو خراب کیا۔

بلوچستان میں حالیہ پیش آیا شیتل بانو کا دل دہلا دینے والا واقعہ۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار بد ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ حقوقِ نسواں کی پامال کیے جاتے ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ بوجھ سندھ پر تھا ، پنجاب پر نہیں۔ پاکستان کے انھیں دو صوبوں سے زیادہ ہجرت کی گئی تھی۔ پنجاب سے ایک بڑی ہندو اور سکھ مڈل کلاس نے ہجرت کی۔مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب سے لوگ یہاں آئے وہ بھی مڈل کلاس تھی ۔مگر جو ہندو لوگ سندھ سے گئے، وہ شہروں میں بسنے والے تھے، مڈل کلاس لوگ تھے ، ایک خلاء پیدا ہوا۔سندھ کے اقتدار پر قبضہ جمایا وڈیروں اور جاگیرداروں نے۔اس طرح پنجاب میں مڈل کلاس پروان چڑھی لیکن سندھ میں، سندھیوں سے مڈل کلا س نہ ابھر سکی سوائے نوکری پیشہ افسر شاہی، ڈاکٹر، وکیل اساتذہ یا پھر انجینیئر حضرات۔

ہمارے شہروں میں جو لوگ ہجرت کر کے آئے وہ اردو بولنے والے مڈل کلاس لوگ تھے جن کو ابتدائی دنوں میں اقتدار میں شراکت دی گئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آتی گئی۔جنرل ایوب خان نے جب فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑا تو یہ اردو بولنے والے ڈٹ کر فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے رہے۔

سندھ میں ہندو سندھی جن کی اکثریت کراچی میں تھی ان کے جانے کے بعد مڈل کلاس انتہائی محدود رہ گئی اور باقی سب کسان تھے جو وڈیروں کے زیر تسلط تھے۔

جنرل ایوب کے دور تک یہ وڈیرے ، افسر شاہی کے تابع تھے۔ان کو بھرپور طاقت جنرل مشرف کے زمانے میں ملی جب ناظم سسٹم لایا گیا۔افسر شاہی کو ناظم کے تابع کردیاگیا، بلکہ ایم پی اے یا ایم این اے یا پھر وفاقی اور صوبائی وزراء عہدے ناظموں کے سامنے چھوٹے پڑ گئے۔ان بیس سالوں میں سندھ کا وڈیرہ بڑا خوشحال ہوا،مضبوط ہوا۔ سندھ بدحالی کا شکار ہوا کیونکہ وڈیرہ اپنی نفسیات میں ترقی کا دشمن ہے۔

پنجاب ترقی میں سندھ سے کہیں آگے ہے۔ پچھلے بیس برس میں سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت ان پر بھی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔سندھ میں حالات یا پھر ترقی انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔ کراچی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یتیموں کا شہر ہے۔دوکروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والا شہراور کوئی ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں۔

ایک غریب آدمی بائیک کی سواری کرتا ہے اور ہر روز تین یا چار جان لیوا حادثات کا شکار ہو تا ہے۔دیہی سندھ اور کراچی کی مجموعی سوچ کو الگ رکھنے کے لیے سب سے پہلا کام جنرل ضیا ء الحق نے کیا اور ہماری مڈل کلاس شہری سوچ بھی اس کا حصہ بن گئی۔اپنے دور حکومت میں انھوں نے تمام اداروں کو تباہ کیا جس کی وجہ سے آج تمام اردو مڈل کلاس بے روزگاری کا شکار ہے۔

ان کے پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔کراچی میں اب اولڈ ایج ہوم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ بچے باہر کمانے چلے جاتے ہیں اور ماں باپ یہاں گھروں میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور جو نوجوان ملک میں ہیں وہ انتہائی کم تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔

یہی نوجوان مختلف فوڈ چین کی بائیک چلاتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے۔بہت تیزی سے لوگ کراچی آ رہے ہیں۔افغانستان سے آنے والے لاکھوں لوگ غیرقانونی طور پر کراچی میں آباد ہیں، بنگلہ دیش اور برما سے لوگ یہاں آتے ہیں، یہاں آبادی کا حجم دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

اسی لیے اس شہر کی ڈیمو گرافی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔پہلی تبدیلی 1947 سے لے کر 1970 کی دہائیوں میں آئی جب ہندو لوگ اس شہر سے چلے گئے ، تو ہندوستان کے متحدہ صوبہ جات اور حیدر آباددکن وغیرہ سے آئے لوگوں کی اکثریت تھی اور وہ بھی اب نہیں رہی۔ کراچی سے پارسی کمیونٹی بھی غائب ہوچکی ہے۔

مڈل کلاس سیاست کو وڈیرہ شاہی سیاست نے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ان پچاس برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت ، سندھ کے دیہی علاقوں میں صنعتوں کو قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔تعلیمی شعبے اور تعلیمی ادارے زوال پذیر ہیں۔

وکلاء نے سندھ میں اپنی تحریک کے ذریعے یہ خال پُر کرنے کی کوشش کی کیونکہ عوام کا ان پر بھروسہ تھا۔عوام اپنے گھروں سے نکلے اور وکلاء کا ساتھ دیا۔پھر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر سندھ کو دوبارہ سے جنرل ضیاء جیسی ہی کسی پالیسی کا شکار بنایا جا رہا ہے کہ سندھ کی آواز ایک نہ ہو سکے۔

اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے کیونکہ ان کی کارکردگی اس دفعہ اچھی نہیں رہی ہے اور اس ناکامی کو کم کرنے کے لیے سندھی مہاجر تضاد پیدا کرکے دوبارہ ا قتدار پر قبضہ جمایا جائے۔ اس خطے میں چین اور ہندوستان جیسی معاشی مضبوطی اور گروتھ ، پاکستان اپنی معیشت میں نہیں لا سکا، اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں پر مڈل کلاس کی اقتدار میں شراکت صفر ہے۔ایوانوں میں وڈیروں ، جاگیرداروں اور سرداروںکا غلبہ ہے۔

 یہ ایک جدا بحث ہو گی کہ مڈل کلاس کس طرح سے سیاست میں آگے آئے۔ہم نے اس بات کا مشاہدہ بھی کیا کہ کراچی کی مڈل کلاس سیاست اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہی۔پھر ایسا بھی ہوا کہ ان کے لیڈران ، ہندوستان کے آگے جھکے۔

بلوچستان کی مڈل کلاس سیاست بھی اسی روش پر آگے بڑھی ہے۔سندھ کی مڈل کلاس سیاست ، سندھی قوم پرستوں تک اور پختونوں کی مڈل کلاس سیاست ، پختون قوم پرستوں تک ۔ تمام مڈل کلاس سیاست قومی سطح پر کسی ایک پیج پر نہیں۔ان کا بیانیہ صوبے کی تاریخ اور صوبائی تاریخ سے جڑا ہوا ہے جس کو یہاں پسند نہیں کیا جاتا۔

اب سوال یہ کہ کس طرح اس مڈل کلاس کو واپس لا کر پاکستان سے وفادار بنایا جا سکے اور ساتھ ہی اس فرسودہ اشرافیہ سے نجات حاصل کی جائے۔کسی درمیانے راستے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ ایک معاشی طاقت بن کر ابھرے۔دنیا ایک بڑی تبدیلی سے گذر رہی ہے اور ہمارے شرفاء اس ملک کی معیشت پر بوجھ ہیں۔شرفاء کا طبقہ نہ صرف مفت خوری کا عادی ہے بلکہ میرٹ کا قاتل بھی بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان کے کا شکار ہو سے زیادہ نے والے ہے اور

پڑھیں:

غیرمناسب سیاست کا سب سے بڑا نقصان قوم کو ہوا، نائب وزیراعظم

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 اگست2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ غیر مناسب سیاست کا سب سے بڑا نقصان قوم کو پہنچا، سیاسی تبدیلی کے ساتھ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ لیک سٹی گولف کلب میں بزنس کمیونٹی کی جانب سے یومِ پاکستان، معرکۂ حق اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار و وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو ملنے والے اعزازات کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

اسحاق ڈار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب میں شرکت پرخوشی ہوئی، بزنس کمیونٹی کو دل کی گہرائیوں سے صدر، وزیراعظم، نوازشریف کی طرف سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ 1992 میں لاہورچیمبرکا صدر رہ چکا ہوں، بزنس کمیونٹی کےمسائل کوسمجھتا ہوں، میں نے بڑی کوشش کی چارٹر آف اکانومی ہوجائے، پاکستان کواللہ تعالیٰ نے بےشماروسائل سے نوازا ہے، کچھ لوگوں نے اپنی نااہلی کیوجہ سے معیشت کو ڈی ریل کیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں معاشی حالات بہتر ہورہے تھے، ہم دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بننے جارہے تھے، 2017میں ڈرامہ رچایا گیا اورمعیشت کونقصان پہنچایا گیا، جوکچھ ان چارسالوں میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم نے معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کوئی دم درود نہیں، کام کیا، نوازشریف حکومت میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا تھا، پی ٹی آئی حکومت میں طالبان کوبسایا گیا، جیسے پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا اب بھی کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی کا جنگی جنون
  • خلاف میرٹ بھرتیوں سے متعلق سندھ پبلک سروس کمیشن کی وضاحت
  • ٹریفک حادثات کی سیاست
  • یہ وقت سیاست کا نہیں، وفاق اور صوبائی حکومت کو مل کر کام کرنا ہے: فیصل کریم کنڈی
  • غیرمناسب سیاست کا سب سے بڑا نقصان قوم کو ہوا، نائب وزیراعظم
  • سندھ طاس معاہدے سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کی کڑی تنقید
  • غیر مناسب سیاست کا سب سے بڑا نقصان قوم کو ہوا، اسحاق ڈار
  • کم عمر لڑکوں کے ساتھ متنازع ویڈیوز؛ فضا علی نے شو میں وینا ملک کی کلاس لے لی
  • سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد دینے والے شہر قائد پر پیسہ نہیں لگایا جاتا، خالد مقبول