لیاری میں پانی کا مسئلہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
لیاری میں پینے کے پانی کی تاریخ پر طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ لیاری میں قلت آب کا مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ رہا ہے۔اس ضمن میں اب تک اربوں روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں۔
2006کے وسط میں اس وقت کے ناظم شہر کراچی مصطفیٰ کمال نے انتیس کروڑ روپے کی لاگت سے 33 انچ قطر کی پائپ لائن غریب آباد سے لے کر لیاری تک بچھائی گئی تھی اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس لائن کو k-3 پروجیکٹ کا پانی سپلائی کیا جائے گااور لیاری میں فراہمی آب کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
ان دنوں لیاری ٹاؤن کے ناظم ملک محمد فیاض تھے جن کی کوششوں سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔2001میں لیاری ٹاؤن کے ناظم عبد الخالق جمعہ نے واٹر بورڈ اور شہری حکومت سے لیاری کے لیےK-3 سے دس ایم جی ڈی پانی کا حصہ منظور کروایا تھااور یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ لیاری کے لیے گھارو سے لیاری تک 32 انچ کی سی او ڈی فلٹر پلانٹ لائن بچھائی جائے گی۔
پہلے یہ لائن میراں ناکہ تک بچھانے کی تجویز تھی جس پر تقریباً پچیس کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا،اس لائن کی لمبائی نو کلو میٹر تھی۔پانی کی اس پائپ لائن کو گھارو کے بجائے عزیز آباد سے ملایا گیا اور اس کے قطر میں ایک انچ کے اضافے کے ساتھ مجوزہ منصوبے کی لاگت میں یک دم چار کروڑ روپے کا اضافہ بھی ہوا تھا، لیکن پیاسی لیاری کی پیاس نہ بجھ سکی۔
2006 میں اس وقت کے ناظم شہر مصطفیٰ کمال نے لیاری ٹاؤن کے دفتر میں اس وقت کے ٹاؤن ناظم ملک محمد فیاض سے اور لیاری کے دیگر بلدیاتی نمایندوں سے ملاقات کی۔اس موقعے پر ڈی سی او،ٹاؤن افسران، واٹر بورڈ کے ایم ڈی اور دیگر افسران کی موجودگی میں لیاری ٹاؤن کے لیے 80 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کے ترقیاتی پیکیج کے پہلے ترقیاتی پلان کے پہلے فیز کے تحت آیندہ تیس سال سے چالیس سال کے لیے لیاری کے مسائل حل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس امید اور خواہش کے ساتھ کہ ڈیڑھ سال بعد وہ (ناظم شہر کراچی مصطفیٰ کمال)لیاری میں آئیں گے تو لیاری میں مسائل نہیں ہونگے۔ اس دوران واٹر بورڈ کے افسران ناظم شہر کو غلط رپورٹ دیتے رہے کہ تمام ٹاؤنز کو ملنے والے پانی کے مقابلے میں لیاری کو سب سے زیادہ پانی دیا جارہا ہے اور واٹر بورڈ کے افسران کی جانب سے ناظم شہر سے یہ جھوٹ بھی بولا گیا تھا کہ لیاری کے عوام واٹر بورڈ کے عملے کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں.
لیکن لیاری آج تک اس پیکیج سے محروم ہے اور مسائل پہلے سے بھی گمبھیر ہیں، اس پیکیج کا حساب کتاب کون دے گا؟ان دنوں لیاری کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے 45 ایم جی ڈی پانی درکار تھا اور واٹر بورڈ لیاری کو 14 ایم جی ڈی پانی سپلائی کرنے کا دعویدار تھا،جب کہ لیاری بھر میں 10 ایم جی ڈی پانی ملتا تھا، جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔
اس سے قبل 1988 میں ہی پی پی کی حکومت نے لیاری کے بلدیاتی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کے لیے لیاری کو پیرس بنانے کے مد میں 80کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کے نام سے وفاقی حکومت کے تعاون سے گجو کینال سے لیاری تک 44 مربع انچ کی پائپ لائن بچھانے کے احکامات جاری کیے تھے،لیکن جب مذکورہ کام کھارا در کے علاقے تک پہنچا تو پی پی پی کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا اور یہ کہہ کر اس منصوبے کو روک دیا گیا تھا کہ لیاری اونچائی پر واقع ہے، اس لیے یہ پانی لیاری تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس طرح لیاری کے پیاسوں کی امیدوں پر ایک بار پھر پانی پھر گیا تھااور لیاری کے انسان زیر زمین بورنگ کے پانی سے گزارا کرنے لگے، یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔1977کے سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی کے بعدجنرل محمد ضیا الحق کی طویل حکمرانی کے دوران لیاری کی پوری آبادی مسلسل گیارہ سال تک پینے کے پانی کی بدترین بندش کا شکار رہی تھی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زمین کا پانی بھی خشک ہوگیا تھا۔لیاری کے رہائشی مضر صحت بورنگ کا پانی پی پی کر آنتوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہوئے لقمہ اجل بنے۔1992میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مظفر حسین شاہ نے صرف اور صرف لیاری کے لیے قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا تھا۔
مذکورہ منصوبہ تقریبا ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس ذخیرہ آب سے پریشر کے ذریعے پانی چھوڑنے سے ضلع جنوبی کے آخری سرے کے علاقوں تک پانی پہنچایا جاسکے گا۔ مذکورہ اسکیم 28 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کا حصہ کہلائی تھی،مگر لیاری کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کو دیگر علاقوں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا۔
بلدیہ جنوبی نے لیاری اور محمود آباد کے لیے تین۔تین کلفٹن اور سٹی ریلوے اسٹیشن کے علاقوں کے لیے ایک۔ایک ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کی سپلائی طے کی تھی۔ آج تک معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ باقی بیس ملین گیلن پانی کا کیا مصرف تھا؟اور لیاری کے پیاسوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی یہ خوشی محض چند گھنٹوں پر محیط ہوگی۔
ٹھیک دوسرے روز یعنی بارہ مارچ 1992کو ایک مرتبہ پھر لیاری کے لیے پانی کی بندش شروع ہوگئی۔یہ بندش کس کے اشارے پر کی گئی تھی اور کیوں!البتہ انتظامی حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن میں نقص پیدا ہوگیا ہے جس وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
یہ ایک ایسا نقص قرار پایا کہ آج تک دوبارہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے لیاری میں پانی سپلائی نہیں کیا جاسکا۔وقت گزرتا رہا۔ لیاری کے پیاسے پانی کی بوند بوند تلاش میں در بدر مارے پھرتے،ترستے،تڑپتے اور مضر صحت پانی پی پی کر مرتے رہے،لیکن حکمرانوں کو کوئی فرق نہ پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پھر برسر اقتدار آئیں تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کے لیے خطیر رقم مختص کی جو اس مرتبہ اٹھارہ کروڑ روپے سے بڑھ کر 39 کروڑ روپے ہوگئی تھی۔یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتے پہنچتے اس کی رقم 48 کروڑ روپے سے تجاوز کرگئی تھی۔
اس کام کے ٹینڈر کے حوالے سے بدعنوانی کے قصے بھی زبان زد عام ہوئے تھے۔معاملات تحقیقات،معطلی گرفتاری، مقدمات اور عدالت تک جا پہنچے تھے اور نتائج باعزت رہائی پر ختم ہوئے تھے۔ چھبیس جون 1994 کو سی او ڈی فلٹر پلانٹ گھارو سے لیاری کو اسی لاکھ گیلن یومیہ اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے بچھائی جانیوالی چوبیس انچ قطر کی لائن کی تنصیب کے کام کا افتتاح اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیئر مین نواب میر نادر علی مگسی نے کیا تھا،جب کہ بحیثیت وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بدھ تین جولائی 1996 کو لی مارکیٹ پمپنگ اسٹیشن لیاری سے دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کا افتتاح کیا تھا۔
سترہ کلو میٹر کے فاصلے سے لیاری تک بچھائی گئی اس لائن سے لیاری بھر میں چوبیس گھنٹے پینے کا پانی وافر مقدار میں سپلائی کیا جارہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر بے نظیر حکومت کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس طرح حسب روایت ایک مرتبہ پھر لیاری میں قلت آب کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تھا۔
اس وقت سے لے کر آج تک پانی کی اس لائن سے دیگر علاقوں کو سیکڑوں ناجائز کنکشن دیے جا چکے ہیں۔ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ہر دور میں لیاری میں پینے کے پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی رہی ہے۔آج بھی لیاری کی اکثریتی رہائشی آبادی کو پیاسا رکھ کر کاروباری مراکز، اونچی اونچی عمارتوں اور من پسند علاقوں کو پینے کے پانی سے سیراب کیا جارہا ہے۔
الغرض یہ کہ لیاری کے چاروں اطراف میں سرخ لکیر کھینچ لی گئی ہے جہاں کی غریب آبادی کو طاقتور مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیاری مفاد پرستوں کے لیے سونے کا چڑیا ہے جس کے بل بوتے پر ان کے محلوں کے چراغ روشن ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایم جی ڈی پانی لیاری ٹاؤن کے ایک مرتبہ پھر میں اس وقت کے پمپنگ اسٹیشن لیاری کے لیے پینے کے پانی کروڑ روپے کی روپے کی لاگت واٹر بورڈ کے کیا گیا تھا گیا تھا کہ اور لیاری میں لیاری لیاری میں سے لیاری لیاری کو کہ لیاری لیاری کی لیاری تک تھا کہ ا گئی تھی تھا اور اس لائن کیا تھا پانی کا کا پانی پانی کی کے ناظم
پڑھیں:
بھارت کی آبی جارحیت اور مذموم ہتھکنڈے
بھارت نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کو پاکستان کے ساتھ آبی معاہدے پر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے، بھارت نے کبھی اس عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق بھارت حسب عادت بغیر اطلاع کے دریائے ستلج اور جہلم میں مزید پانی چھوڑ رہا ہے، جس سے شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
بھارت نے اپنے جارحانہ رویے اور آبی وسائل پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے خطے میں نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ عالمی آبی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا، پانی کے انتظام میں ایک تاریخی دستاویز ہے، لیکن بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے آبی حقوق کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور باہمی تعاون کا ایک سنگ بنیاد ہے، جس کا مقصد خطے میں امن و امان کو برقرار رکھنا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی اور مذموم حکمت عملی کے ذریعے اسے ہمیشہ کمزور کیا ہے۔
بھارت کا بین الاقوامی ثالثی عدالت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی قانونی حیثیت سے انکار کرنا پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ عدالت سندھ طاس معاہدے کے تحت طے پانے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سفارتی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے مقاصد کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے، چاہے اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’آبی جارحیت‘ ہے جو بھارت کے بانی نظریات اور فلسفے کی بھی توہین ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے جو طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جس کا تعارف کبھی گاندھی کے عدم تشدد اور نہرو کے سیکولر ازم سے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج، اسی بھارت نے وہ روپ دھار لیا ہے، جس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ اب وہ ملک جو کبھی نوآبادیاتی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، خود ایک نئے سامراج کا پرچارک بن چکا ہے۔ نئی دہلی نے اب وہی کردار اپنا لیا ہے جو کسی زمانے میں وائسرائے ہند کا تھا یعنی ازخود فیصلہ کرنا، نقشہ کھینچنا اور اپنی سوچ کی مخالفت یا مزاحمت کرنے والوں کو طاقت سے خاموش کر دینا۔چھ مئی کو بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ وہی معاہدہ جو 1960سے اب تک تین جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مثال تھی کہ دشمن ممالک بھی تعاون کر سکتے ہیں، لیکن اب یہ بھی بھارت کی جارحیت کی نذر ہو چکا ہے۔
دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں استعمال نہیں ہوتی بلکہ پانی روکنے کی صورت زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ یہ وہی ملک ہے جس نے کبھی تقسیم کو المیہ کہا تھا مگر اب اسی تقسیم کو ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اِس پوری صورتحال کا افسوس ناک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھارتی جارحیت پر خاموش ہے۔ اقوام متحدہ، جو ہر عالمی تنازعے میں قراردادیں منظور کرتی ہے، یہاں بے بس دکھائی دیتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگوشیوں سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔ مغرب، جس نے امن، انصاف اور قانون کی دہائی دی تھی، آج بھارت کی منڈیوں اور ٹیکنالوجی کی چمک دمک کی وجہ سے اندھا ہو چکا ہے۔ دریائے ستلج اور جہلم میں بھارت کی جانب سے بغیر اطلاع پانی چھوڑنے کی حالیہ اطلاعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک جارحانہ قدم ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ سیلاب کی شدت میں اضافے سے زرعی زمینوں کو نقصان پہنچے گا، رہائشی علاقوں میں تباہی کا خدشہ ہوگا اور لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔
بھارت کی یہ غیر ذمے دارانہ حرکت خطے میں ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے اثرات طویل مدت تک محسوس کیے جائیں گے۔پاکستانی حکام اور عوام کو اس صورتحال سے مکمل آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ خود کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھ سکیں۔ پانی کے بہاؤ پر مستقل نگرانی، سیلاب سے بچاؤ کے مؤثر اقدامات اور عوامی شعور کو بڑھانا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ان غیر قانونی حرکات پر سخت ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائے اور خطے میں امن قائم رہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سفارتی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرے اور بین الاقوامی فورمز پر بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف اپنے موقف کو واضح کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی مقدار اور بہاؤ کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی غیر معمولی واقعے کو بروقت قابو میں لایا جا سکے۔
پانی کا مسئلہ اب صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان کی کامیابی کا انحصار نہ صرف اس کی سفارتی محنت پر ہے بلکہ اس کی قومی یکجہتی، عوامی شعور اور حکومتی اقدامات پر بھی ہے۔ یہ مسئلہ ایک سنجیدہ قومی مسئلہ ہے جس کا حل صرف بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور باہمی تعاون سے ممکن ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضہ خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ بھارت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کا عادی ہے، لیکن پاکستان کو اپنی قومی سلامتی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط اور متحد ہونا ہوگا۔ پانی کی بقا اور تحفظ کے لیے قومی سطح پر پالیسی سازی، قانونی چارہ جوئی، اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کی مذموم کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔یہ جدوجہد صرف پانی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے قومی وقار، خودمختاری اور خطے میں امن کے قیام کے لیے ہے۔
بھارت کی آبی جارحیت ایک ایسی جنگ ہے جو نہ صرف پانی کی تقسیم پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ خطے کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو ہر ممکنہ طریقے سے عالمی سطح پر اجاگر کرے اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کرے تاکہ خطے میں امن و امان قائم رہ سکے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پانی کی قلت اور آبی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عالمی سطح پر بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ بھارت کا پاکستان کے دریاؤں میں غیر قانونی پانی چھوڑنا اور پانی کی آمد و رفت کو متاثر کرنا اس عالمی بحران کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور باہمی اعتماد کی بحالی ضروری ہے، تاکہ پانی کے وسائل کو پرامن طریقے سے تقسیم کیا جا سکے اور دونوں ممالک کے عوام کو اس کا حق مل سکے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے آبی حقوق کا دفاع کرے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی اس جارحیت کو بے نقاب کر کے اسے قانونی و سفارتی محاذ پر بھی شکست دے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے اور بھارت کی اس آبی جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا موقف واضح کرے۔بھارت کی جانب سے آبی وسائل پر قبضہ اور معاہدوں کی خلاف ورزی خطے کی دیرپا ترقی اور امن کے لیے خطرہ ہے، اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اس کا بروقت حل نہ نکالا تو آنے والے وقت میں اس کے نقصان دہ اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو متاثر کریں گے۔ اس لیے تمام متعلقہ فریقین کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور مل کر پانی کے وسائل کے مؤثر انتظام کے لیے اقدامات کریں۔
پاکستان کی حکومت، سول سوسائٹی، اور عوام کو چاہیے کہ وہ پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے مشترکہ محنت کریں اور بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط اور متحد آواز بلند کریں تاکہ یہ خطہ پانی کے حوالے سے خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن سکے۔یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت اور اس کے مذموم ہتھکنڈے نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور بھارت کو اس کی کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ خطے میں امن قائم رہے اور پاکستان پانی کے حقیقی حق سے محروم نہ ہو۔