لیاری میں پانی کا مسئلہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
لیاری میں پینے کے پانی کی تاریخ پر طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ لیاری میں قلت آب کا مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ رہا ہے۔اس ضمن میں اب تک اربوں روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں۔
2006کے وسط میں اس وقت کے ناظم شہر کراچی مصطفیٰ کمال نے انتیس کروڑ روپے کی لاگت سے 33 انچ قطر کی پائپ لائن غریب آباد سے لے کر لیاری تک بچھائی گئی تھی اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس لائن کو k-3 پروجیکٹ کا پانی سپلائی کیا جائے گااور لیاری میں فراہمی آب کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
ان دنوں لیاری ٹاؤن کے ناظم ملک محمد فیاض تھے جن کی کوششوں سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔2001میں لیاری ٹاؤن کے ناظم عبد الخالق جمعہ نے واٹر بورڈ اور شہری حکومت سے لیاری کے لیےK-3 سے دس ایم جی ڈی پانی کا حصہ منظور کروایا تھااور یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ لیاری کے لیے گھارو سے لیاری تک 32 انچ کی سی او ڈی فلٹر پلانٹ لائن بچھائی جائے گی۔
پہلے یہ لائن میراں ناکہ تک بچھانے کی تجویز تھی جس پر تقریباً پچیس کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا،اس لائن کی لمبائی نو کلو میٹر تھی۔پانی کی اس پائپ لائن کو گھارو کے بجائے عزیز آباد سے ملایا گیا اور اس کے قطر میں ایک انچ کے اضافے کے ساتھ مجوزہ منصوبے کی لاگت میں یک دم چار کروڑ روپے کا اضافہ بھی ہوا تھا، لیکن پیاسی لیاری کی پیاس نہ بجھ سکی۔
2006 میں اس وقت کے ناظم شہر مصطفیٰ کمال نے لیاری ٹاؤن کے دفتر میں اس وقت کے ٹاؤن ناظم ملک محمد فیاض سے اور لیاری کے دیگر بلدیاتی نمایندوں سے ملاقات کی۔اس موقعے پر ڈی سی او،ٹاؤن افسران، واٹر بورڈ کے ایم ڈی اور دیگر افسران کی موجودگی میں لیاری ٹاؤن کے لیے 80 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کے ترقیاتی پیکیج کے پہلے ترقیاتی پلان کے پہلے فیز کے تحت آیندہ تیس سال سے چالیس سال کے لیے لیاری کے مسائل حل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس امید اور خواہش کے ساتھ کہ ڈیڑھ سال بعد وہ (ناظم شہر کراچی مصطفیٰ کمال)لیاری میں آئیں گے تو لیاری میں مسائل نہیں ہونگے۔ اس دوران واٹر بورڈ کے افسران ناظم شہر کو غلط رپورٹ دیتے رہے کہ تمام ٹاؤنز کو ملنے والے پانی کے مقابلے میں لیاری کو سب سے زیادہ پانی دیا جارہا ہے اور واٹر بورڈ کے افسران کی جانب سے ناظم شہر سے یہ جھوٹ بھی بولا گیا تھا کہ لیاری کے عوام واٹر بورڈ کے عملے کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں.
لیکن لیاری آج تک اس پیکیج سے محروم ہے اور مسائل پہلے سے بھی گمبھیر ہیں، اس پیکیج کا حساب کتاب کون دے گا؟ان دنوں لیاری کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے 45 ایم جی ڈی پانی درکار تھا اور واٹر بورڈ لیاری کو 14 ایم جی ڈی پانی سپلائی کرنے کا دعویدار تھا،جب کہ لیاری بھر میں 10 ایم جی ڈی پانی ملتا تھا، جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔
اس سے قبل 1988 میں ہی پی پی کی حکومت نے لیاری کے بلدیاتی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کے لیے لیاری کو پیرس بنانے کے مد میں 80کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کے نام سے وفاقی حکومت کے تعاون سے گجو کینال سے لیاری تک 44 مربع انچ کی پائپ لائن بچھانے کے احکامات جاری کیے تھے،لیکن جب مذکورہ کام کھارا در کے علاقے تک پہنچا تو پی پی پی کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا اور یہ کہہ کر اس منصوبے کو روک دیا گیا تھا کہ لیاری اونچائی پر واقع ہے، اس لیے یہ پانی لیاری تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس طرح لیاری کے پیاسوں کی امیدوں پر ایک بار پھر پانی پھر گیا تھااور لیاری کے انسان زیر زمین بورنگ کے پانی سے گزارا کرنے لگے، یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔1977کے سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی کے بعدجنرل محمد ضیا الحق کی طویل حکمرانی کے دوران لیاری کی پوری آبادی مسلسل گیارہ سال تک پینے کے پانی کی بدترین بندش کا شکار رہی تھی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زمین کا پانی بھی خشک ہوگیا تھا۔لیاری کے رہائشی مضر صحت بورنگ کا پانی پی پی کر آنتوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہوئے لقمہ اجل بنے۔1992میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مظفر حسین شاہ نے صرف اور صرف لیاری کے لیے قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا تھا۔
مذکورہ منصوبہ تقریبا ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس ذخیرہ آب سے پریشر کے ذریعے پانی چھوڑنے سے ضلع جنوبی کے آخری سرے کے علاقوں تک پانی پہنچایا جاسکے گا۔ مذکورہ اسکیم 28 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کا حصہ کہلائی تھی،مگر لیاری کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کو دیگر علاقوں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا۔
بلدیہ جنوبی نے لیاری اور محمود آباد کے لیے تین۔تین کلفٹن اور سٹی ریلوے اسٹیشن کے علاقوں کے لیے ایک۔ایک ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کی سپلائی طے کی تھی۔ آج تک معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ باقی بیس ملین گیلن پانی کا کیا مصرف تھا؟اور لیاری کے پیاسوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی یہ خوشی محض چند گھنٹوں پر محیط ہوگی۔
ٹھیک دوسرے روز یعنی بارہ مارچ 1992کو ایک مرتبہ پھر لیاری کے لیے پانی کی بندش شروع ہوگئی۔یہ بندش کس کے اشارے پر کی گئی تھی اور کیوں!البتہ انتظامی حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن میں نقص پیدا ہوگیا ہے جس وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
یہ ایک ایسا نقص قرار پایا کہ آج تک دوبارہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے لیاری میں پانی سپلائی نہیں کیا جاسکا۔وقت گزرتا رہا۔ لیاری کے پیاسے پانی کی بوند بوند تلاش میں در بدر مارے پھرتے،ترستے،تڑپتے اور مضر صحت پانی پی پی کر مرتے رہے،لیکن حکمرانوں کو کوئی فرق نہ پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پھر برسر اقتدار آئیں تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کے لیے خطیر رقم مختص کی جو اس مرتبہ اٹھارہ کروڑ روپے سے بڑھ کر 39 کروڑ روپے ہوگئی تھی۔یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتے پہنچتے اس کی رقم 48 کروڑ روپے سے تجاوز کرگئی تھی۔
اس کام کے ٹینڈر کے حوالے سے بدعنوانی کے قصے بھی زبان زد عام ہوئے تھے۔معاملات تحقیقات،معطلی گرفتاری، مقدمات اور عدالت تک جا پہنچے تھے اور نتائج باعزت رہائی پر ختم ہوئے تھے۔ چھبیس جون 1994 کو سی او ڈی فلٹر پلانٹ گھارو سے لیاری کو اسی لاکھ گیلن یومیہ اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے بچھائی جانیوالی چوبیس انچ قطر کی لائن کی تنصیب کے کام کا افتتاح اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیئر مین نواب میر نادر علی مگسی نے کیا تھا،جب کہ بحیثیت وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بدھ تین جولائی 1996 کو لی مارکیٹ پمپنگ اسٹیشن لیاری سے دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کا افتتاح کیا تھا۔
سترہ کلو میٹر کے فاصلے سے لیاری تک بچھائی گئی اس لائن سے لیاری بھر میں چوبیس گھنٹے پینے کا پانی وافر مقدار میں سپلائی کیا جارہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر بے نظیر حکومت کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس طرح حسب روایت ایک مرتبہ پھر لیاری میں قلت آب کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تھا۔
اس وقت سے لے کر آج تک پانی کی اس لائن سے دیگر علاقوں کو سیکڑوں ناجائز کنکشن دیے جا چکے ہیں۔ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ہر دور میں لیاری میں پینے کے پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی رہی ہے۔آج بھی لیاری کی اکثریتی رہائشی آبادی کو پیاسا رکھ کر کاروباری مراکز، اونچی اونچی عمارتوں اور من پسند علاقوں کو پینے کے پانی سے سیراب کیا جارہا ہے۔
الغرض یہ کہ لیاری کے چاروں اطراف میں سرخ لکیر کھینچ لی گئی ہے جہاں کی غریب آبادی کو طاقتور مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیاری مفاد پرستوں کے لیے سونے کا چڑیا ہے جس کے بل بوتے پر ان کے محلوں کے چراغ روشن ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایم جی ڈی پانی لیاری ٹاؤن کے ایک مرتبہ پھر میں اس وقت کے پمپنگ اسٹیشن لیاری کے لیے پینے کے پانی کروڑ روپے کی روپے کی لاگت واٹر بورڈ کے کیا گیا تھا گیا تھا کہ اور لیاری میں لیاری لیاری میں سے لیاری لیاری کو کہ لیاری لیاری کی لیاری تک تھا کہ ا گئی تھی تھا اور اس لائن کیا تھا پانی کا کا پانی پانی کی کے ناظم
پڑھیں:
سپر ٹیکس کیس؛ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تھنک ٹینکس نہیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سپر ٹیکس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تھنک ٹینکس نہیں ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم وقفے کے بعد دلائل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس کی شق 99 ڈی میں ترمیم پر باقی ہائی کورٹس سے فیصلہ ہوچکا ہے؟
مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ترمیم خارج کر دی ہے جبکہ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں، آج کی تاریخ میں بینکوں پر سپر ٹیکس 10 فیصد ملا کر 53 فیصد بن جاتا ہے، فی الحال بینکوں پر ٹیکس لگا ہے اور ترمیم میں تمام سیکٹرز کا نام ہے۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ اچھے ہوں، برے ہوں یا چور ہوں لیکن معیشت کا پہیہ ان سے ہی چل رہا ہے، اس صورتحال کے بعد لوگ افریقا کے مختلف ممالک میں اپنی فیکٹریاں شفٹ کر گئے ہیں۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تھنک ٹینکس نہیں ہیں۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ عدالتیں ٹیکس پیئر کو ریلیف نہیں دیں گی تو وہ ہاتھ ملائیں گے تو وہ نقصان کس کا ہوگا، ہائی کورٹس سے ہماری اپیلیں ڈرافٹ میں مسئلہ ہونے کی وجہ سے منظور ہوئیں۔
سپر ٹیکس کیسز کی سماعت کے دوران پارلیمنٹ اور آئین کی اہمیت کا ذکر ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پارلیمنٹ سے ہی بنتا ہے۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سے زیادہ آئین کی پاور ہے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کی پاور ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 4 سی میں اضافی ٹیکس کے حوالے سے واضح نہیں لکھا، اگر اضافی ٹیکس بارے لکھا ہوتا تو آپ کو مسئلہ نہ ہوتا۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ جی یہ الفاظ لکھے ہوتے تو معاملہ واضح ہوتا، میں نے اپنے دور میں سپر ٹیکس نہیں لگنے دیا۔