Express News:
2025-10-05@07:39:01 GMT

طاقت کی کمزوری

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

یہ کیسے ممکن ہے کہ کمزوری کی طاقت ہو اور طاقت کی کمزوری نہ ہو۔ اس دنیا میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا دوسرا رُخ ، دوسرا پہلو اور دوسرا زوج نہ ہو۔کمزوری کی طاقت کا ذکر تو ہوگیا ہے لیکن طاقت کی کمزوری ابھی باقی ہے کہ ہر عروج کا زوال بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

ایک کھلاڑی یا ٹیم جب کوئی کپ ،کوئی فائنل جیت لیتا ہے تو پھر اس ایوارڈ یا کپ کا چھیننا بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔طاقت کی کمزوری کا یا نقصان کا ذکر تو سامنے ہے کہ اس زمانے کے گراں ڈیل قوی الجثہ اور طاقتور جانوروں کی اولادیں آج ہم چھپکلیوں، سنڈیوں کی صورت میں سانپوں، بچھووں اور چوہے، چھچوندروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

ہمارے سامنے کے معاشرے میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں۔عام طور پر جب کوئی عام یا معمولی انسان یا اصطلاح میں کمی کمین اپنی محنت سے ترقی کرکے کوئی مقام حاصل کرتا ہے، تو پہلے سے موجود خاندانی معززین اکثر کہتے ہیں کہ چھوڑو وہ تو ذات کا نائی ہے۔لوہار کا بیٹا ہے، اس کے اجداد ہمارے کمی کمین تھے۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ان کمیوں میں،لنگڑے لولوں میں اور اندھے بہروں میں ایک’’رگ‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔

اور وہ رگ واقعی ہوتی ہے لیکن جسم میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتی ہے۔اپنی کمزوری اور کمتری کا احساس۔چنانچہ اکثر جسمانی یا خاندانی عیب دار لوگ کسی نہ کسی پہلو سے ممتاز ہوجاتے ہیں یا ان میں کوئی خاص خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔

کیونکہ نفسیاتی طور اسے عیب کا احساس ہوتا ہے اور اس عیب پر لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لیے اپنے اندر کوئی صلاحیت، کوئی خاص صفت یا ہنر پیدا کرلیتے ہیں، پڑھنے لکھنے اور سیکھنے میں لگ جاتے ہیں اور ایک دن ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیکھنے والوں کی نظرووں کو چکا چوند کر اپنے عیب سے ہٹا لیتے ہیں۔ ہخامشی کورش یا سائرس جس نے تاریخ میں پہلی بار ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ 

دراصل ایک بہت ہی غریب کمی کمین ’’اشومن‘‘ کمبائس تھا یعنی گھوڑے پالنے والے غلام۔ اس کے ماموں اسستماگ نے جو میڈیا کا حکمران تھا، خواب دیکھا کہ اس سے اس کا بھانجا حکومت چھینے گا چنانچہ اس نے اپنی بہن ایک بہت ہی کمزور اور بے بضاعت اشومن سے بیاہی تھی۔سکندر کی ولدیت بھی مشکوک تھی، اس کی ماں اولمپیا کو اس کے باپ فلپ سے سخت نفرت تھی کیونکہ اس نے اسے زبردستی بیوی بنالیا تھاچنانچہ اسے حمل ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ یہ فلپ کا نہیں دیوتا زیوس کا بیٹا ہے جو مجھ سے خواب میں واصل ہوا تھا۔

کچھ لوگوں نے مان لیا لیکن خود سکندر کو اپنی ولدیت کے مشکوک ہونے کا احساس تھا۔ پروفیسر نولڈیکی نے انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں لکھا ہے کہ وہ ذہنی مریض بھی تھا اور خون بہاکر اسے تسکین ملتی تھی۔ مشہور جرنیل ہنی بال یک چشم تھا، تیمور لنگڑا تھا، بایزید ترک سلطان کانا تھا، چنگیز اتنا کمزور تھا کہ اس کی بیوی بورتہ کو دشمن اغوا کرکے لے گئے تھے اور بعد میں جب اس نے اسے حاصل کیا تو وہ ماں بننے والی تھی۔

جولیس سیزر احساس کمتری کا مریض اور مارک انتھونی ازحد بدصورت تھا۔فرعون اخناتوں ایک موذی مرض میں مبتلا تھا اور اس کا منہ گھوڑے جیسا ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ کا چہرہ چیچک زدہ اور وہ ایک آنکھ سے کانا بھی تھا، اور بھی ایسی بہت ساری مثالیں تاریخ میں سے پیش کی جاسکتی ہیں جب کسی کمزوری،معذوری یا کمتری کا شکار لوگ نامورر ہوئے اور بڑے بڑے خاندانی ہٹے کٹے اور با ووسائل لوگوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔

کیونکہ فارغ البال،مالا مال اور آل ان ون لوگوں کی اولادیں عیاشیوں، بدمعاشیوں طوائف بازی، بیٹربازی، مطلب یہ بازیوں کو’’کام‘‘ سمجھ کر کرتی ہیں۔اجداد کی کمائیاں اور جائیدادیں کھاجاتی ہیں۔ایسی مثالیں بے شمار موجود ہیں جن میں ایک میری چشم دید ہے۔

کسی پہاڑی علاقے سے ایک شخص مزدوری کے لیے میدانی علاقے میں اتر آیا تھا۔ وہ ایک بہت بڑی جائیداد کے مالک کا کسان بن گیا۔ اس جاگیردار کی زمینں کئی دیہات میں پھیلی ہوئی تھیں۔وہ کسان مکان نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرانے کھنڈر نما گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور محنت میں جت گیا۔

بیوی بچے بھی دن رات محنت کرنے لگے تو کچھ عرصے بعد اس نے کچھ رقم خرچ کرکے ایک بیٹے کو عرب ملک بھیج دیا۔ بیٹے نے مزدوری سے ابتدا کی تھی لیکن تھوڑے عرصے میں اس نے خود بھی اپنا کاروبار ایک ہوٹل کی شکل میں شروع کیا اور دو اور بھائیوں کو بھی ایڈجسٹ کیا۔

یہاں باپ نے جاگیر دار سے ہی سے زمین لے کر اینٹوں کا بھٹہ قائم کیا۔ ’’بھٹہ ‘‘مزید بچے دینے لگا۔ بعد میں اس کے بچے بھی واپس آکر اس کام میں لگ گئے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے چالیس بھٹے ہوگئے اور بھٹوں کے بعد کوئلے کی تجارت بھی شروع ہوگئی، یہاں تک کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں بھی ہوگئیں۔آخری نتیجہ یہ کہ جاگیردار کی زمین وہی خریدتے چلے گئے اور جاگیردارکے بیٹے محدود ہوتے ہوتے صرف اپنے گاؤں کی تھوڑی سی زمین کے مالک رہ گئے۔حرف آخر یہ کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت کی کمزوری

پڑھیں:

اگر مجھے یا خاندان کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی، ایمل ولی خان

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کی اور ان کے خاندان کی سیکیورٹی واپس لے لی ہے، اگر انہیں یا ان کے خاندان کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔

The federal government/ Interior Ministry has taken back all the security personnel allotted to me and my father and family.
Two things
1. If anything happens to me or my family the responsibility will be yours
2. I’ll keep on speaking for the public and am ready for anything…

— Aimal Wali Khan (@AimalWali) October 4, 2025

اپنے بیان میں ایمل ولی کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے اور جو بھی ان کے راستے میں آئے گا، اس کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ نجی سکیورٹی کے ساتھ زیادہ محفوظ انداز میں سفر کریں گے۔

And now the provincial government has also decided to retract all security personnel at our disposal. I again quote “What a joke”.

— Aimal Wali Khan (@AimalWali) October 4, 2025

ایمل ولی نے ایک اور ٹوئٹ میں انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت نے بھی ان کے تمام سیکیورٹی اہلکار واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ ناقابلِ فہم اور ایک مذاق کے مترادف ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ایمل ولی خان خیبرپختونخوا حکومت سیکیورٹی عوامی نیشنل پارٹی وفاقی حکومت

متعلقہ مضامین

  • شارٹ کٹ کوئی نہیں!
  • اگر مجھے یا خاندان کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی، ایمل ولی خان
  • بھارت نے اگر کوئی ایڈونچرکیا تو اس کا ہولناک جواب دیا جائے گا: آئی ایس پی آر
  • ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!
  • سونے کی قیمت میں آج کوئی تبدیلی آئی یا نہیں؟
  • ٹیسلا ٹرک کی خامی نے نوجوان لڑکی کی جان لے لی، کمپنی کیخلاف مقدمہ درج
  • ملک میں واٹس ایپ سست چلنے کی وجہ جانتے ہیں؟
  • اسرائیل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا نہ کرنے جا رہے ہیں‘ قائم مقام صدر مملکت
  • روسی صدر نے فوجی میدان میں مقابلے کا چیلنج دیدیا
  • طاقت کا مرکز عوام نہیں جرنیل ہیں