Express News:
2025-11-23@05:46:33 GMT

طاقت کی کمزوری

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

یہ کیسے ممکن ہے کہ کمزوری کی طاقت ہو اور طاقت کی کمزوری نہ ہو۔ اس دنیا میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا دوسرا رُخ ، دوسرا پہلو اور دوسرا زوج نہ ہو۔کمزوری کی طاقت کا ذکر تو ہوگیا ہے لیکن طاقت کی کمزوری ابھی باقی ہے کہ ہر عروج کا زوال بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

ایک کھلاڑی یا ٹیم جب کوئی کپ ،کوئی فائنل جیت لیتا ہے تو پھر اس ایوارڈ یا کپ کا چھیننا بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔طاقت کی کمزوری کا یا نقصان کا ذکر تو سامنے ہے کہ اس زمانے کے گراں ڈیل قوی الجثہ اور طاقتور جانوروں کی اولادیں آج ہم چھپکلیوں، سنڈیوں کی صورت میں سانپوں، بچھووں اور چوہے، چھچوندروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

ہمارے سامنے کے معاشرے میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں۔عام طور پر جب کوئی عام یا معمولی انسان یا اصطلاح میں کمی کمین اپنی محنت سے ترقی کرکے کوئی مقام حاصل کرتا ہے، تو پہلے سے موجود خاندانی معززین اکثر کہتے ہیں کہ چھوڑو وہ تو ذات کا نائی ہے۔لوہار کا بیٹا ہے، اس کے اجداد ہمارے کمی کمین تھے۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ان کمیوں میں،لنگڑے لولوں میں اور اندھے بہروں میں ایک’’رگ‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔

اور وہ رگ واقعی ہوتی ہے لیکن جسم میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتی ہے۔اپنی کمزوری اور کمتری کا احساس۔چنانچہ اکثر جسمانی یا خاندانی عیب دار لوگ کسی نہ کسی پہلو سے ممتاز ہوجاتے ہیں یا ان میں کوئی خاص خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔

کیونکہ نفسیاتی طور اسے عیب کا احساس ہوتا ہے اور اس عیب پر لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لیے اپنے اندر کوئی صلاحیت، کوئی خاص صفت یا ہنر پیدا کرلیتے ہیں، پڑھنے لکھنے اور سیکھنے میں لگ جاتے ہیں اور ایک دن ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیکھنے والوں کی نظرووں کو چکا چوند کر اپنے عیب سے ہٹا لیتے ہیں۔ ہخامشی کورش یا سائرس جس نے تاریخ میں پہلی بار ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی۔ 

دراصل ایک بہت ہی غریب کمی کمین ’’اشومن‘‘ کمبائس تھا یعنی گھوڑے پالنے والے غلام۔ اس کے ماموں اسستماگ نے جو میڈیا کا حکمران تھا، خواب دیکھا کہ اس سے اس کا بھانجا حکومت چھینے گا چنانچہ اس نے اپنی بہن ایک بہت ہی کمزور اور بے بضاعت اشومن سے بیاہی تھی۔سکندر کی ولدیت بھی مشکوک تھی، اس کی ماں اولمپیا کو اس کے باپ فلپ سے سخت نفرت تھی کیونکہ اس نے اسے زبردستی بیوی بنالیا تھاچنانچہ اسے حمل ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ یہ فلپ کا نہیں دیوتا زیوس کا بیٹا ہے جو مجھ سے خواب میں واصل ہوا تھا۔

کچھ لوگوں نے مان لیا لیکن خود سکندر کو اپنی ولدیت کے مشکوک ہونے کا احساس تھا۔ پروفیسر نولڈیکی نے انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں لکھا ہے کہ وہ ذہنی مریض بھی تھا اور خون بہاکر اسے تسکین ملتی تھی۔ مشہور جرنیل ہنی بال یک چشم تھا، تیمور لنگڑا تھا، بایزید ترک سلطان کانا تھا، چنگیز اتنا کمزور تھا کہ اس کی بیوی بورتہ کو دشمن اغوا کرکے لے گئے تھے اور بعد میں جب اس نے اسے حاصل کیا تو وہ ماں بننے والی تھی۔

جولیس سیزر احساس کمتری کا مریض اور مارک انتھونی ازحد بدصورت تھا۔فرعون اخناتوں ایک موذی مرض میں مبتلا تھا اور اس کا منہ گھوڑے جیسا ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ کا چہرہ چیچک زدہ اور وہ ایک آنکھ سے کانا بھی تھا، اور بھی ایسی بہت ساری مثالیں تاریخ میں سے پیش کی جاسکتی ہیں جب کسی کمزوری،معذوری یا کمتری کا شکار لوگ نامورر ہوئے اور بڑے بڑے خاندانی ہٹے کٹے اور با ووسائل لوگوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔

کیونکہ فارغ البال،مالا مال اور آل ان ون لوگوں کی اولادیں عیاشیوں، بدمعاشیوں طوائف بازی، بیٹربازی، مطلب یہ بازیوں کو’’کام‘‘ سمجھ کر کرتی ہیں۔اجداد کی کمائیاں اور جائیدادیں کھاجاتی ہیں۔ایسی مثالیں بے شمار موجود ہیں جن میں ایک میری چشم دید ہے۔

کسی پہاڑی علاقے سے ایک شخص مزدوری کے لیے میدانی علاقے میں اتر آیا تھا۔ وہ ایک بہت بڑی جائیداد کے مالک کا کسان بن گیا۔ اس جاگیردار کی زمینں کئی دیہات میں پھیلی ہوئی تھیں۔وہ کسان مکان نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرانے کھنڈر نما گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور محنت میں جت گیا۔

بیوی بچے بھی دن رات محنت کرنے لگے تو کچھ عرصے بعد اس نے کچھ رقم خرچ کرکے ایک بیٹے کو عرب ملک بھیج دیا۔ بیٹے نے مزدوری سے ابتدا کی تھی لیکن تھوڑے عرصے میں اس نے خود بھی اپنا کاروبار ایک ہوٹل کی شکل میں شروع کیا اور دو اور بھائیوں کو بھی ایڈجسٹ کیا۔

یہاں باپ نے جاگیر دار سے ہی سے زمین لے کر اینٹوں کا بھٹہ قائم کیا۔ ’’بھٹہ ‘‘مزید بچے دینے لگا۔ بعد میں اس کے بچے بھی واپس آکر اس کام میں لگ گئے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے چالیس بھٹے ہوگئے اور بھٹوں کے بعد کوئلے کی تجارت بھی شروع ہوگئی، یہاں تک کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں بھی ہوگئیں۔آخری نتیجہ یہ کہ جاگیردار کی زمین وہی خریدتے چلے گئے اور جاگیردارکے بیٹے محدود ہوتے ہوتے صرف اپنے گاؤں کی تھوڑی سی زمین کے مالک رہ گئے۔حرف آخر یہ کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت کی کمزوری

پڑھیں:

ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

بیٹیاں ہمارے گھروں کی رونق ہیں، ان کے ناز اٹھائے جاتے ہیں، ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر ’جائز’ خواہش پوری کی جاتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنی بیٹیاں ایسی ہیں جن کے کانوں میں کبھی نہ کبھی بچپن میں یہ آواز پڑی ہوگی، چاہے وہ کسی رشتہ دار کی ہو، چاہے ماں یا باپ کی، کہ دیکھو! اس کے اتنے ناز نہ اٹھاؤ، بعد میں پریشانی ہوگی۔ اس کو کچھ کام کاج تو سکھا دو، اگلے گھر کیا کرے گی، پھوہڑ کو کون رکھے گا؟ اسے سمجھاؤ کہ اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرے، ذرا سہج کر رہے۔ اگلے گھر کوئی یہ نخرے برداشت نہیں کرے گا۔

بیٹی کی پیدائش پر کوئی آنٹی یا انکل منہ لٹکا کر کہہ دیتے ہیں’۔۔۔ دیکھو، بیٹی تو رحمت ہے، بیٹیوں سے تو ڈر نہیں لگتا، بس ان کی قسمت سے ڈر لگتا ہے‘۔

کیوں ڈر لگتا ہے؟ کیا بیٹی کی قسمت پیدائشی طور پر بیٹے کے مقابلے میں کمزور ہے؟

نہیں! ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس کی قسمت وہ خود نہیں لکھتی، اُس کے گھر والے، اس کا معاشرہ لکھتا ہے جو اُسے اپنی قسمت خود لکھنے کی کوئی آزادی نہیں دیتا۔

یہ بھی پڑھیں:ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان

ملتان کی رہائشی ثانیہ زہرہ کے ماں باپ نے بھی یقیناً اپنی بیٹی کو محبت سے پالا ہوگا۔ پھر کم عمری میں شادی کردی کہ اچھا رشتہ مل گیا۔ اور جب وہ لڑ جھگڑ کر واپس آئی ہوگی تو شاید یہ بھی سمجھایا ہوگا کہ سمجھوتا ہی سب سے بہتر حل ہے۔

بیٹیاں تو سسرال میں ہی سجتی ہیں۔

وقت بدل جائے گا، بچے بڑے ہوں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ہم بھی یہی سنتے ہیں نہ کہ اپنا گھر بچانا عورت کا فرض ہے۔

اور پھر ایک دن وہ 22 سالہ حاملہ لڑکی 2 بچے روتے چھوڑ گئی۔ اگلے گھر سے بہت جلدی اگلے جہان بھیج دی گئی۔

حال ہی میں سیشن کورٹ نے گھریلو تشدد کے نتیجے میں قتل ہونے والی ثانیہ زہرہ کے کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا۔اُس کا شوہر سزائے موت کا حق دار ٹھہرا، اور دیور اور ساس عمر قید کی سزا پا چکے ہیں۔ ان سب نے قتل عمد کو خودکشی کا رنگ دیا تھا۔ 40 سے زیادہ گواہوں کی گواہیاں، فرانزک شواہد، حکومتی کوششیں، سول سوسائٹی ، سوشل میڈیا ایکٹوزم اور سب سے بڑھ کر اُس کے والد کی لمبی جدوجہد نے یہ ممکن بنایا۔

سوشل میڈیا پر لوگ اسے صرف ایک باپ کی جیت نہیں بلکہ گھریلو تشدد کا شکار بہت سی عورتوں کے لیے  اُمید کی کرن بتا رہے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب کوئی لڑکی پنکھے سے لٹکی ہوئی نہیں ملے گی؟

یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

کیا اب کوئی باپ صرف ’ذمہ داری اتارنے‘ کے لیے 15 سولہ سالہ بیٹی کا نکاح نہیں کرے گا؟

کیا اب کوئی لڑکی یہ سوچ کر ظلم برداشت نہیں کرے گی کہ ’سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، بسنے کے لیے تکلیف اٹھانی ہی پڑتی ہے‘۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کے پردے رکھنے کو انسانی جان اور ذہنی صحت سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ ہمیں بطور انسان دوسرے کی اور اپنی حدود کا تعین کرنا نہیں سکھایا جاتا۔

کچھ کے سسرال میں اچانک سلنڈر پھٹ جاتا ہے۔ کوئی ڈپریشن سے مر جاتی ہے۔ کچھ کو نفسیاتی عارضہ لاحق ہو جاتے ہیں۔ کچھ صرف بظاہر زندہ رہتی ہیں۔

عورت کو برابری کے حقوق دینے کا مطلب صرف سرکاری ملازمت میں کوٹہ، معاشی مدد یا تشدد اور ہراسمنٹ کے خلاف قوانین بنانا نہیں۔ وہ برابر کی شہری تب بنے گی جب اُس کے گھر والے، رشتہ دار اور سماج اُس کے تئیں اپنا رویہ بدلے گا۔ اُسے برابری تب ملے گی جب ہم اپنی بیٹی سے یہ کہیں گے کہ ’تم اگلے گھر کی امانت نہیں، بلکہ تمہاری زندگی تمہاری امانت ہے۔ تم اپنی زندگی کی آپ مالک ہو۔ تم باشعور ہو، مضبوط ہو، تمہاری اپنی رائے ہے، تمہاری مرضی ہے، تمہارا فیصلہ ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرو اور ان کا بوجھ بھی خود اٹھانا سیکھو۔اگر کوئی رشتہ تکلیف دے تو پورے اعتماد اور گریس کے ساتھ اس رشتے کو ختم کرنا سیکھو‘۔

یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی گھریلو تشدد سے ، کبھی حادثے کے نام پر، کبھی ’خودکشی نوٹ‘ لکھ کر۔ اس لیے کہ جو وہ چاہتی ہیں وہ بول نہیں سکتیں، یا بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ثانیہ زہرہ کو مرنے کے بعد انصاف مل گیا،

مگر کئی گھروں میں پھنسی زندہ ثانیہ کو انصاف کیسے ملے گا؟ ۔۔۔ اب وقت ہے کہ ہم بیٹیوں کے لیے الفاظ بدلیں، نظریہ بدلیں، تربیت بدلیں۔ بیٹی کی پرورش اگلے گھر کے لیے نہیں، بلکہ ایک خود مختار، باوقار اور محفوظ زندگی کے لیے کرنی شروع کریں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

ثانیہ زہرہ خود کشی سماجی انصاف گھریلو تشدد

متعلقہ مضامین

  • بھارتی دفاعی کمزوری بے نقاب ایئر شو میں ناکامی
  • وینزویلا میں انصاراللہ جیسی مسلح قوت کے ابھرنے کا امکان
  • کوئی کہہ دے کہ میں نے کسی کی سفارش کی ہے تو استعفیٰ دے دوں گی ، مریم نواز
  • عاصم افتخاراحمد کا جنرل اسمبلی مباحثے میں عالمی ادارے میں طاقت کےعدم توازن پرگہری تشویش کااظہار
  • ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال
  • کیا ایم کیو ایم مشرف دور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے؟
  • در مدح ’’نا‘‘
  • مستقبل؟
  • طاقت کے زورپر اقتدار حاصل کرنے والوں کی پالیسی سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، ڈاکٹر اسامہ رضی
  • شیخ حسینہ اور طاقت کا اژدھا