یہ کیسے ممکن ہے کہ کمزوری کی طاقت ہو اور طاقت کی کمزوری نہ ہو۔ اس دنیا میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا دوسرا رُخ ، دوسرا پہلو اور دوسرا زوج نہ ہو۔کمزوری کی طاقت کا ذکر تو ہوگیا ہے لیکن طاقت کی کمزوری ابھی باقی ہے کہ ہر عروج کا زوال بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایک کھلاڑی یا ٹیم جب کوئی کپ ،کوئی فائنل جیت لیتا ہے تو پھر اس ایوارڈ یا کپ کا چھیننا بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔طاقت کی کمزوری کا یا نقصان کا ذکر تو سامنے ہے کہ اس زمانے کے گراں ڈیل قوی الجثہ اور طاقتور جانوروں کی اولادیں آج ہم چھپکلیوں، سنڈیوں کی صورت میں سانپوں، بچھووں اور چوہے، چھچوندروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے سامنے کے معاشرے میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں۔عام طور پر جب کوئی عام یا معمولی انسان یا اصطلاح میں کمی کمین اپنی محنت سے ترقی کرکے کوئی مقام حاصل کرتا ہے، تو پہلے سے موجود خاندانی معززین اکثر کہتے ہیں کہ چھوڑو وہ تو ذات کا نائی ہے۔لوہار کا بیٹا ہے، اس کے اجداد ہمارے کمی کمین تھے۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ان کمیوں میں،لنگڑے لولوں میں اور اندھے بہروں میں ایک’’رگ‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔
اور وہ رگ واقعی ہوتی ہے لیکن جسم میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتی ہے۔اپنی کمزوری اور کمتری کا احساس۔چنانچہ اکثر جسمانی یا خاندانی عیب دار لوگ کسی نہ کسی پہلو سے ممتاز ہوجاتے ہیں یا ان میں کوئی خاص خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔
کیونکہ نفسیاتی طور اسے عیب کا احساس ہوتا ہے اور اس عیب پر لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لیے اپنے اندر کوئی صلاحیت، کوئی خاص صفت یا ہنر پیدا کرلیتے ہیں، پڑھنے لکھنے اور سیکھنے میں لگ جاتے ہیں اور ایک دن ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیکھنے والوں کی نظرووں کو چکا چوند کر اپنے عیب سے ہٹا لیتے ہیں۔ ہخامشی کورش یا سائرس جس نے تاریخ میں پہلی بار ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی۔
دراصل ایک بہت ہی غریب کمی کمین ’’اشومن‘‘ کمبائس تھا یعنی گھوڑے پالنے والے غلام۔ اس کے ماموں اسستماگ نے جو میڈیا کا حکمران تھا، خواب دیکھا کہ اس سے اس کا بھانجا حکومت چھینے گا چنانچہ اس نے اپنی بہن ایک بہت ہی کمزور اور بے بضاعت اشومن سے بیاہی تھی۔سکندر کی ولدیت بھی مشکوک تھی، اس کی ماں اولمپیا کو اس کے باپ فلپ سے سخت نفرت تھی کیونکہ اس نے اسے زبردستی بیوی بنالیا تھاچنانچہ اسے حمل ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ یہ فلپ کا نہیں دیوتا زیوس کا بیٹا ہے جو مجھ سے خواب میں واصل ہوا تھا۔
کچھ لوگوں نے مان لیا لیکن خود سکندر کو اپنی ولدیت کے مشکوک ہونے کا احساس تھا۔ پروفیسر نولڈیکی نے انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں لکھا ہے کہ وہ ذہنی مریض بھی تھا اور خون بہاکر اسے تسکین ملتی تھی۔ مشہور جرنیل ہنی بال یک چشم تھا، تیمور لنگڑا تھا، بایزید ترک سلطان کانا تھا، چنگیز اتنا کمزور تھا کہ اس کی بیوی بورتہ کو دشمن اغوا کرکے لے گئے تھے اور بعد میں جب اس نے اسے حاصل کیا تو وہ ماں بننے والی تھی۔
جولیس سیزر احساس کمتری کا مریض اور مارک انتھونی ازحد بدصورت تھا۔فرعون اخناتوں ایک موذی مرض میں مبتلا تھا اور اس کا منہ گھوڑے جیسا ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ کا چہرہ چیچک زدہ اور وہ ایک آنکھ سے کانا بھی تھا، اور بھی ایسی بہت ساری مثالیں تاریخ میں سے پیش کی جاسکتی ہیں جب کسی کمزوری،معذوری یا کمتری کا شکار لوگ نامورر ہوئے اور بڑے بڑے خاندانی ہٹے کٹے اور با ووسائل لوگوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔
کیونکہ فارغ البال،مالا مال اور آل ان ون لوگوں کی اولادیں عیاشیوں، بدمعاشیوں طوائف بازی، بیٹربازی، مطلب یہ بازیوں کو’’کام‘‘ سمجھ کر کرتی ہیں۔اجداد کی کمائیاں اور جائیدادیں کھاجاتی ہیں۔ایسی مثالیں بے شمار موجود ہیں جن میں ایک میری چشم دید ہے۔
کسی پہاڑی علاقے سے ایک شخص مزدوری کے لیے میدانی علاقے میں اتر آیا تھا۔ وہ ایک بہت بڑی جائیداد کے مالک کا کسان بن گیا۔ اس جاگیردار کی زمینں کئی دیہات میں پھیلی ہوئی تھیں۔وہ کسان مکان نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرانے کھنڈر نما گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور محنت میں جت گیا۔
بیوی بچے بھی دن رات محنت کرنے لگے تو کچھ عرصے بعد اس نے کچھ رقم خرچ کرکے ایک بیٹے کو عرب ملک بھیج دیا۔ بیٹے نے مزدوری سے ابتدا کی تھی لیکن تھوڑے عرصے میں اس نے خود بھی اپنا کاروبار ایک ہوٹل کی شکل میں شروع کیا اور دو اور بھائیوں کو بھی ایڈجسٹ کیا۔
یہاں باپ نے جاگیر دار سے ہی سے زمین لے کر اینٹوں کا بھٹہ قائم کیا۔ ’’بھٹہ ‘‘مزید بچے دینے لگا۔ بعد میں اس کے بچے بھی واپس آکر اس کام میں لگ گئے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے چالیس بھٹے ہوگئے اور بھٹوں کے بعد کوئلے کی تجارت بھی شروع ہوگئی، یہاں تک کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں بھی ہوگئیں۔آخری نتیجہ یہ کہ جاگیردار کی زمین وہی خریدتے چلے گئے اور جاگیردارکے بیٹے محدود ہوتے ہوتے صرف اپنے گاؤں کی تھوڑی سی زمین کے مالک رہ گئے۔حرف آخر یہ کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طاقت کی کمزوری
پڑھیں:
اترپردیش فتح پور مقبرے میں توڑ پھوڑ کے معاملے میں اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی
فتح پور میں 11 اگست کو اسوقت پُرتشدد تصادم ہوا جب مختلف ہندوتوا تنظیموں کے ہجوم نے آبو نگر میں ایک صدیوں پرانے مقبرے پر دھاوا بول دیا، اس پر بھگوا جھنڈے لہرائے، اندر ہندو رسومات ادا کیں اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں قبروں میں توڑ پھوڑ کی۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش میں فتح پور کے آبو نگر علاقے میں ایک مقبرے کی توڑ پھوڑ کے معاملے میں پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ اس جگہ کے اردگرد ایک کلومیٹر کے دائرے کو بیریکیڈز لگا کر گھیر دیا گیا ہے تاکہ ممکنہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکا جا سکے۔ منگل کو پولیس نے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور امن و امان کو بگاڑنے کے الزام میں 150 سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، جن میں سے 10 نامزد ہیں۔ ایف آئی آر میں جن 10 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان میں دھرمیندر سنگھ (بجرنگ دل)، ابھیشیک شکلا (بی جے پی)، اجئے سنگھ (ضلع پنچایت ممبر)، دیوناتھ دھاکڑ (بی جے پی)، ونئے تیواری (سٹی کونسلر)، پشپراج پٹیل، ریتک پال (بی جے پی)، پرسون تیواری (بی جے پی)، آشیش تیواری اور پپو چوہان (بی جے پی) شامل ہیں۔ اس دوران مقامی لوگوں کو باہر کے لوگوں سے بات کرنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سادہ کپڑوں میں پولیس مقبرے کے اطراف کے علاقوں میں گھوم رہی ہے، مقامی لوگوں سے بات کر رہی ہے اور سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
واضح ہو کہ فتح پور میں 11 اگست کو اس وقت پُرتشدد تصادم ہوا جب مختلف ہندوتوا تنظیموں کے ہجوم نے آبو نگر میں ایک صدیوں پرانے مقبرے پر دھاوا بول دیا، اس پر بھگوا جھنڈے لہرائے، اندر ہندو رسومات ادا کیں اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں قبروں میں توڑ پھوڑ کی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ پتھراؤ اور جھڑپیں ہوئیں، جس سے سیاسی غم و غصہ پیدا ہوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی اترپردیش میں امن و امان کے بارے میں سوال اٹھے۔ پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور پولیس نے کانگریس کے سٹی صدر عارف عرف گڈا اور ان کے کئی حامیوں کو توڑ پھوڑ کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے پر احتجاج کرنے پر گرفتار کر لیا ہے۔ اس دوران پارٹی کے ضلع صدر مہیش دویدی کو اس وقت نظر بند کر دیا گیا جب دو سابق ایم ایل اے پر مشتمل پارٹی کے ایک وفد نے جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
دویدی نے پولیس کی کارروائی کو "آمرانہ" قرار دیا اور انتظامیہ پر توڑ پھوڑ کے دوران "خاموش تماشائی" بنے رہنے کا الزام لگایا۔ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ نریش اتم پٹیل نے کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں اس معاملے کی آزاد ایجنسی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دریں اثنا مقبرے کی توڑ پھوڑ کو لے کر منگل کو اترپردیش اسمبلی میں ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی ایک "منصوبہ بند" کوشش ہے۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نے دعویٰ کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ایک ہفتہ قبل مقبرے پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا کہ ہجوم ڈھیلے سیکورٹی کی وجہ سے اندر داخل ہوا۔ پرساد پانڈے نے کہا کہ یہ ریاست بھر میں ایک رجحان بن گیا ہے کہ ایک پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے مدرسوں اور مقبروں کو گرایا جائے۔