ایک چائے والے سے وزیراعظم تک کا سفر یقیناً ایک ناقابل یقین سفر ہے۔ عام طور پر ایسی خواہشات پر مشتمل سفر خواب میں ہی کیا جاتا ہے۔ خوابوں کی دنیا بھی عجیب دنیا ہوتی ہے، کبھی آغاز ڈراؤنا تو انتہا خوبصورت اور کبھی آغاز رومانوی تو انتہا عبرتناک۔
اسی میں مودی کا مستقبل چھپا اور عیاں دونوں ہیں بس دیکھنے والے کی نظر ہونی چاہیے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ایسے عہدوں تک پہنچنے کے لیے اپنوں کے کندھوں اور گردن پر پیر رکھنے پڑتے ہیں اور اس میں اگر گردن ڈھلک بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ یہ تو گردن ڈھلک جانے والے کا قصور گردانا جائے گا کہ اس نے پہلے سے کسی اور کی گردن پر پیر کیوں نہ رکھ دیے۔
دوسری جانب گردن پر پیر رکھنے والا تو مبارکباد وصول کرنے میں مصروف ہوتا ہے اور اس کے پاس ایسی معمولی باتوں کے لیے وقت کہاں ہوتا ہے۔ ویسے تو یہ بات تمام عہدوں پر یکساں طور پر پوری ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک سفر سے مودی چائے والے سے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مودی کو پہلی دفعہ اپنے اقتدار کے سفر میں ایک بہت ہی مشکل صورتحال اور ایک حقیقی چیلنج سے واسطہ پڑا مگر اس کی بدقسمتی کہ اس طرح کی صورتحال سے نبٹنے کی نہ اس میں اہلیت ہے اور نہ ہی اس کی ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی تربیت کی گئی ہے۔
اس وقت تمام محاذوں پر ہندوستان کو نہیں بلکہ مودی کو شکست فاش ہورہی ہے اور وہ اپنی قوم کو یہ باور کروا رہا ہے کہ یہ اس کی شکست نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی شکست ہے جب کہ حقیقت اس سے بالکل الٹ ہے۔ مغرب سے معاشقہ مودی کا ختم ہوا۔ ٹرمپ سے اپنے تعلقات کا مودی نے بالکل غلط اندازہ لگایا تھا اور صدر ٹرمپ کے رویے نے تو اس کو بالکل ہی حواس باختہ کردیا ہے۔
اس وقت تمام بھارتی ذرایع ابلاغ نے تو صدر ٹرمپ کو نشانے پر رکھ لیا اور اب سب نشانے ایک کرکے ہندوستان پر آکر گررہے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان نے اپنا رخ چین کی طرف کیا ،مگر ہندوستان کا ماضی دیکھتے ہوئے اس کو چین کی جانب سے حسب منشا جواب نہیں ملا۔ ویسے بھی ہندوستان کا ماضی مکاری اور دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ہندوستان بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی عملی تصویر ہے۔ اب ان حالات میں ہندوستان کے پاس کیا متبادل راستے ہیں؟
ہم نے تو اپنے پچھلے کالم میں ہندوستان کو آسان اور سہل راستہ تجویز کیا تھا کہ وہ پاکستان سے اچھے تعلقات استوار کرلے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ مودی کی پوری سیاست کی عمارت مسلمان اور پاکستان دشمنی پر تعمیر ہوئی ہے۔ اب اس کے لیے اس وقت اس سے پیچھے ہٹنے میں اسے اپنی سیاسی موت نظر آرہی ہے۔
اس لیے اس نے بجائے سیاسی موت مرنے کے پوری ریاست کو اپنے سیاسی عزائم کی بھینٹ چڑھانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہندوستان پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ ہندوستانی فوج مستقل اس بیانیے پر قائم ہے کہ آپریشن سندور ابھی چل رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک ہندوستانی فوج اس سندور کو پوری طرح مٹا کر سفید ساڑھی نہیں پہن لیتی اسے چین نہیں آئے گا۔
دونوں طرف سے تیاریاں ہیں اور دونوں اپنے اپنے وسائل اس تیاریوں میں جھونک رہے ہیں جو کہ دراصل دونوں ممالک کے غریب عوام پر خرچ ہونے چاہیے اور اس جنگی جنون کی تمام تر ذمے داری ہندوستان کی غیر ذمے دارانہ قیادت پر ہے۔
ہمارا کچھ صحافیوں کے وی لاگ سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ تو اپنی زبان سے طبل جنگ بجا رہے تھے بلکہ اس سے بھی آگے جارہے تھے کیونکہ ان کو لگ رہا ہے کہ ان کی بند دکانیں جنگ کے بعد ہی کھل سکے گی۔ ان کی دکانوں پر مستقل قفل لگا رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سب اپنے جامے سے باہر ہوکر خود کو بادشاہ گر سمجھنے لگے تھے اور ان سب کا سدباب ضروری ہوگیا تھا۔
اب ہم دوبارہ اپنے موضوع پر آتے ہیں، اگر ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ اس حالیہ آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان نے اپنے سارے ہتھیار استعمال کر لیے ہیں تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ جس کے سنگین نتائج وہ بھگتے گا۔ پاکستان کے اسلحے کے ذخائر میں ابھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جس کا ہندوستان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اگر ہندوستان نے جنگ شروع کی تو یہ جنگ ہندوستان کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوگی کہ جس کی جانب ہم پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں کہ اگر ہندوستان نے کوئی حماقت کی تو ہم اپنی زندگی میں ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہوتے دیکھیں گے۔ بس اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔
ایسا نہیں ہے کہ دنیا کو اس کی آگہی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی دنیا یہ چاہتی ہے کہ یہ جنگ ہو اور یوں اسلحے کا کاروبار چلے۔ وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ اگر یہ آگ لگی تو اس کی حدت اور سنگینی بہت سے ممالک محسوس کریں گے اور پوری دنیا کا نظام الٹ پلٹ ہوجائے گا اور یوں پوری دنیا اس آگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔
پہلے دنیا کا خیال تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطی میں ہوگی مگر عرب جس طرح سے سرنگوں ہوچکے ہیں اس کے بعد اب یہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے دنیا کی قیادت سے خود کو بالکل علیحدہ کر لیا ہے اور اب وہ دنیا کی امامت چھوڑ کر مقتدی بن چکے ہیں۔
ان کی کمزور پالیسی دیکھتے ہوئے اسرائیل سے جو کروانا تھا وہ کروا لیا ،اب ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان، ترکی اور ایران کو تختہ مشق بنایا جاسکے۔ اب ان حالات میں برصغیر ہی وہ خطہ بچتا ہے کہ جہاں سے مغرب اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے لیکن مغرب کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنے زوال کی عمارت تعمیر کررہا ہے۔
اس کالم کے توسط سے میں ہندوستان کے دانشوروں اور علمی طبقے سے مخاطب ہونا چاہوں گا کہ وہ مودی کے عزائم کو سمجھیں جو انتہائی خودغرضانہ اور حریصانہ ہیں اور تمام ہندوستانیوں کے لیے اگر موت نہیں تو تکلیف کا سامان ضرور لیے ہوئے ہیں۔ آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟ میں اس کالم سے کوئی سنسنی نہیں پھیلانا چاہتا کیونکہ دیگر لوگ یہ کام کررہے ہیں۔
میں بس قوم سے دو باتیں کرنا چاہتا ہوں اور اختتام۔ پہلی بات یہ کہ ہماری بہادر افواج اس کے لیے پوری تیار ہے اور وہ روزوشب دشمن کے عزائم کو نیست و نابود کرنے کے لیے تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ دشمن نے ہماری بہادر افواج کی تیاریوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے ہمارے اپنے لوگوں کو ورغلا کر اندرونی محاذ بھی کھول رکھے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ ملک کے حالات بہت خوشگوار اور پسندیدہ نہیں ہیں لیکن یہ وقت اپنے اختلافات کو سامنے لانے کا نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سارے اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمن کے لیے بنیان مرصوص بن جائے اور ہمیشہ کے لیے اس کا منہ توڑ دیں تاکہ دوبارہ وہ اس پاک سرزمین پر اپنی گندی اور میلی نظر نہ ڈال سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں ہندوستان نہیں ہے ہے کہ ا ہے اور
پڑھیں:
شام میں مارچ میں قتل عام ’ممکنہ جنگی جرائم،‘ اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) شامی ساحلی علاقوں میں 1,400 ہلاکتیں ممکنہ جنگی جرائم، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے شام کے لیے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال مارچ میں شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران عبوری حکومت کے اہلکاروں اور سابق حکمرانوں کے وفادار جنگجوؤں، دونوں ہی کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق اس پرتشدد لہر میں زیادہ تر علوی برادری کو نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 1,400 افراد، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، ہلاک ہوئے۔ اس تشدد کے بعد بھی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔
یہ واقعات گزشتہ سال صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شام میں پیش آنے والا سب سے خونریز سانحہ تھے۔ اس کے بعد عبوری حکومت نے حقائق کے تعین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر