Express News:
2025-10-05@07:39:07 GMT

مجھ سے جو ہو سکا

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

رواں ہفتے قیام پاکستان کے 78 سال مکمل ہوئے۔ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ اس موقع پر یہ سوال اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تنقید نما یہ سوال اتنا بے جا بھی نہیں تاہم اس سوال کے پیچھے بیشتر اوقات ہم ایسے لوگوں کا تساہل اور تن آسانی بھی چھپی ہوتی ہے جو شکوہ ظلمت شب کو ہی اپنا کمال جانتے ہیں تاہم بقول فراز حقیقت کچھ یوں ہے:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

بہت زیادہ نہ سہی لیکن وطن عزیز میں چند نام ور لوگ ضرور ایسے ہیں جنھوں نے بامقصد زندگی گزاری اور اس ملک کے لیے اپنی اپنی حیثیت میں جو بن پڑا، کیا۔ یوم آزادی سے تین دن قبل ایک کتاب موصول ہوئی ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ جسے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب معروف صحافی اور انسانی حقوق کے پرچارک حسین نقی کی سوانح حیات ہے۔

صحافت اور انسانی حقوق کے لیے بڑے بڑے کارسازوں کے سامنے ایک عمر اصولوں پر قائم رہنے پر مطمئن حسین نقی کی سوانح کا ٹائٹل خودنمائی سے مبرا ہے حالانکہ عموماً سوانح حیات لکھنے والے ٹائٹل سے لے کر آخری سطر تک مصر رہتے ہیں کہ انھی سے تو چراغوں میں روشنی تھی۔

حسین نقی کی سوانح پڑھنا شروع کی تو ان کی سادہ بیانی، واقعات اور مختلف کرداروں کے پس منظر، تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کی وضاحتوں کے سبب ماضی کے بہت سے سیاسی وسماجی معاملات کی گرہیں کھلتی گئیں۔ مدت بعد اس قدر شاندار کہانی پڑھنے کا موقع ملا۔

حسین نقی جہاں دیدہ صحافی ہیں جو 1938 کو متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں مختلف ادوار دیکھے، اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے لیے مسلسل جدوجہد کا راستہ نہ چھوڑا۔

بائیں بازو سے اپنے تعلق اور اصولوں کے ساتھ صحافت میں بہادری سے اپنا وقت گزارا۔ پاکستان میں پہلے پنجابی روزنامے ’’سجن‘‘ کا اجرا حسین نقی کا منفرد کارنامہ تھا۔ ان کی سوانح ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ ان کی اپنی کہانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 70 سالہ سیاسی، سماجی اور صحافتی کہانی بھی ہے۔

کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے… میرے ننھیال والے لکھنؤ کے محلے وزیر گنج کے تھے۔ میرے خاندان کا بڑا حصہ کیونکہ آج بھی لکھنؤ میں رہتا ہے اس لیے میرا آنا جانا بھی رہا۔ ماضی قریب تک دلی، لکھنؤ، لاہور اور دیگر علاقوں میں خاندانوں کا ملاپ، رشتہ داری کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی بلکہ اکثر خاندانوں میں یہ چلن عام تھا۔ اگر آپ کی اس چلن پر نظر ہوگی تو 1947 سے قبل کے سیاسی وسماجی منظرنامے کا تجزیہ کرتے ہوئیآپ غچہ نہیں کھائیں گے۔

مجھے آج یہ لگتا ہے کہ آزادی کی جو لڑائی بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہوئی اس میں سبھی لیڈرشپ اشرافیہ ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وقت اولین اہمیت طبقاتی سوال کو نہیں بلکہ آزادی کے سوال کو حاصل تھی۔ ہماری لیڈرشپ سو سال آگے دیکھ کر فیصلے نہ کر سکی لیکن ہندوستان کی حکمران قیادت نے زرعی اصلاحات، تعلیم اور ترقی پر بہت توجہ دی…

ضیاء الحق دور میں اپنی گرفتاری کا واقعہ یوں لکھتے ہیں:… اس دوران دو تین بار انٹیلی جنس کے لوگ پوچھ گچھ کے لیے آئے، اندازہ ہو گیا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ یہ دسمبر 1978 کا کوئی دن تھا جب کچھ لوگ میرے دفتر آئے اور کہا کہ ہم آپ کو لے جانے آئے ہیں۔ آپ سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔

انھوں نے مجھے پولیس وین میں بٹھایا اور لاہور کے شاہی قلعہ لے آئے، جہاں بدنام زمانہ عقوبت خانہ تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں نے کوٹ اور سردی بچانے کا لباس پہنا تھا۔ جس سیل میں رکھا گیا تھا وہاں ایک سائیڈ پر بڑی سی کنالی رفع حاجت کے لیے پڑی تھی جو بہت مشکل مرحلہ تھا۔

میں رات بوٹ اتارے بغیر ویسے ہی لیٹ گیا۔ یخ بستہ ٹھنڈی ہوا کا بسیرا تھا… رات تفتیش کے لیے ایک ڈی ایس پی آگئے۔ ان سے ایسے ہی حالات میں ایک بار پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ بولے نقی صاحب آپ کو ہر ایک سے اختلاف ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔

ہم نے کراچی میں سیاست کی تھی، اسٹوڈنٹس جماعت چلائی تھی مگر ہم نے یہ ہمیشہ خیال رکھا کہ اس میں سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، میمن وغیرہ بھی شامل ہوں۔ اس میں فرقہ پرستی کا عنصر نہ ہو اور غیرمسلم بھی ایسی تنظیموں کو اپنا سمجھیں اور طبقاتی تقسیم کا بھی دھیان رکھیں۔

تب جا کے ہم کراچی کی نمایندگی کر سکتے ہیں اور کراچی کے مسئلوں کا حل نکال سکتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں حیدرآباد اپنے قیام کے دوران جب مہاجر پختون اتحاد بنایا گیا تو مجھے بطور سیاسی ورکر لسانی منافرت کے خطرے کی بو آنے لگی۔ بعد ازاں 80 کی دہائی کے کراچی میں تو چل سو چل۔

10 اپریل 1986 میں وزیراعظم بننے سے قبل ہم صحافیوں نے بے نظیر سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے شہید بابا سے اختلاف بارے پوچھا۔ میں نے جواب دیا کہ گزر جانے والوں سے اختلاف نہیں کیا جاتا۔ ایک بار انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ میں اور بابا میں کیا فرق ہے ؟ تو میں نے کہا کہ آپ کے بابا سنتے زیادہ تھے جب کہ آپ بولتی بہت ہیں۔ آپ سنیں زیادہ اور پارٹی کو کھڑا کریں۔

جب سے میں لاہور مستقل شفٹ ہوا، میرا یہ پکا خیال تھا کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک روزنامہ نکلنا چاہیے۔ زبان کے بارے میں مجھ میں حساسیت لکھنو سے ہی پیدا ہو گئی تھی جب 50 کی دہائی میں یک دم اردو میڈیم بند کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یا ہندی میڈیم رکھو یا انگلش میڈیم۔

پنجابی کے پہلے روزنامہ ’’سجن‘‘ کا پہلا شمارہ تین فروری 1989 کو نکلا۔ سجن میں سب رضاکار ہی تھے۔ کچھ لوگ وہیں سو جاتے، ہم نے سوچا 100 دن کا تجربہ کیا جائے کہ اخبار نکل سکتا ہے یا نہیں؟ یہ اخبار ہم نے 18 ماہ چلایا، 10/12 ہزار بھی چھاپا تو بکا۔ اگر ہمارے اشتہارات بند نہ ہوتے تو ہم اس کی سرکولیشن 30 ہزار تک لے جا سکتے تھے۔

میں نے بطور ترقی پسند اپنی جدوجہد کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا۔ طلبہ سیاست کا کام انقلاب لانا تو نہیں تھا مگر ہم نے طلبہ سیاست کی۔ اسی طرح میں نے صحافت شروع کی۔ اب جنرلزم بہت مختلف ہو چکی ہے تاہم ہم نے جہاں جہاں کام کیا، صحافت کی ٹریڈ یونین بھی قائم کی اور جس قدر گنجائش بن سکتی تھی، صحافیوں کے مفاد کو مدنظر رکھا۔ نوکریاں بھی کیں، پنجاب ٹائمز، پنجاب پنچ، ویو پوائنٹ ، سجن بھی کیا۔

اس کے علاوہ ایک درجن دوسرے اخباری اداروں کے لیے لکھتا اور مشورے بھی دیتا رہا۔ کتاب کا آخری باب ختم کرتے ہوئے ہم اسی سوچ میں رہے کہ جو بھی خلوص دل کے ساتھ، اپنے نظریے، جمہوری پاسداری اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے، انھوں نے یقینا اس ملک کے لیے بہت کچھ کر دیا، چاہے وہ اس کا کریڈٹ لینے سے طبعاً گریز کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے اختلاف کی سوانح انھوں نے کے لیے ا

پڑھیں:

نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین

نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین WhatsAppFacebookTwitter 0 3 October, 2025 سب نیوز

تحریر :ظہیر حیدر جعفری

دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی یا زوال کی اصل بنیاد تعلیم ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم علم کو اپنی ترجیح بنا لے تو وہ ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھتی ہے، لیکن اگر کوئی قوم تعلیم کو پسِ پشت ڈال دے تو دولت، زمینیں اور طاقت سب کچھ ہونے کے باوجود وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ جو قومیں تعلیمی میدان میں آگے ہیں وہی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ یورپ، امریکہ اور خاص طور پر آج کا چین اس کی روشن مثال ہیں۔

اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی تعلیم کی اہمیت کو سب سے نمایاں کر دیا تھا۔ قرآنِ مجید کا پہلا حکم ہی “اقرأ” یعنی “پڑھ” ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر پر سب سے پہلی وحی تعلیم کے بارے میں نازل فرمائی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی علم اور تعلیم پر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ ﷺ نے تعلیم کو ہمیشہ اولین حیثیت دی۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر قیدیوں کو یہ شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ اس عمل نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان کبھی تعلیم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” اس ارشاد میں بھی اس بات کو واضح کر دیا گیا کہ تعلیم صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ گویا تعلیم اسلام کے نزدیک کسی کے لیے اختیاری چیز نہیں بلکہ ایک لازمی فریضہ ہے

نبی کریم ﷺ کا ایک اور مشہور فرمان ہے: “علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔” اس فرمان نے تعلیم کی اہمیت کو نہایت دلکش انداز میں واضح کیا ہے۔ چین اُس وقت عرب دنیا سے بہت دور تھا۔ سفر کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، نہ ریل تھی اور نہ ہوائی جہاز۔ سفر کرنا مشقت بھرا اور مہینوں کا کام ہوتا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مثال دے کر بتایا کہ اگر علم حاصل کرنے کے لیے اتنی بڑی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ قربانی چھوٹی ہے، کیونکہ علم کی قدر و قیمت سب سے بڑھ کر ہے۔

بعض محدثین نے اس حدیث کو سند کے لحاظ سے کمزور کہا ہے، لیکن اس کے پیغام میں کوئی کمزوری نہیں۔ اس میں ایک سبق ہے کہ علم کے حصول کے لیے مشکلات برداشت کرنا لازمی ہے۔ اگر دور دراز کے علاقوں تک جانا پڑے، اجنبی زبان سیکھنی پڑے یا محنت و قربانی دینا پڑے، تب بھی علم کا سفر جاری رہنا چاہیے۔

اس زمانے میں چین ایک ایسی تہذیب تھی جو ہنر، صنعت اور دستکاری میں دنیا بھر میں مشہور تھی۔ کاغذ سازی، چھاپہ خانے، طب اور فلکیات جیسے علوم میں چینی لوگ نمایاں تھے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے “چین” کا نام لے کر گویا یہ اشارہ دیا کہ مسلمان علم کے لیے دنیا کے کونے کونے تک جائیں۔

یہ حقیقت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ جو قوم علم کے راستے کو اپناتی ہے، وہ آگے بڑھتی ہے۔ اور جو قوم علم سے منہ موڑ لیتی ہے، وہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ چین نے اس فرمان کی روح کو اپنایا اور آج علم کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر، مذاکراتی عمل کامیاب، پیچیدہ معاملات کمیٹیوں کے سپرد کرنے پر اتفاق ہم بیت المقدس کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے، ترک صدر کا فتح بیت المقدس کے دن پر پیغام اسرائیل نے صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی روک لیا، 500 کارکنان گرفتار آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی، سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے: اعظم تارڑ پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ 81 ہزار سے زائد افراد کی تفصیلات جمع کر لی گئیں سعودیہ سے معاہدہ آنا فانا نہیں ہوا، یہ ایک نیٹو طرز کا اتحاد بن جائیگا: وزیر خارجہ کوئٹہ؛ ایف سی ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملے میں ملوث 2دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی
  • بچے اکیلے نہیں جاتے
  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • یہ بربریت آخرکب تک؟
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن