رواں ہفتے قیام پاکستان کے 78 سال مکمل ہوئے۔ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ اس موقع پر یہ سوال اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تنقید نما یہ سوال اتنا بے جا بھی نہیں تاہم اس سوال کے پیچھے بیشتر اوقات ہم ایسے لوگوں کا تساہل اور تن آسانی بھی چھپی ہوتی ہے جو شکوہ ظلمت شب کو ہی اپنا کمال جانتے ہیں تاہم بقول فراز حقیقت کچھ یوں ہے:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بہت زیادہ نہ سہی لیکن وطن عزیز میں چند نام ور لوگ ضرور ایسے ہیں جنھوں نے بامقصد زندگی گزاری اور اس ملک کے لیے اپنی اپنی حیثیت میں جو بن پڑا، کیا۔ یوم آزادی سے تین دن قبل ایک کتاب موصول ہوئی ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ جسے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب معروف صحافی اور انسانی حقوق کے پرچارک حسین نقی کی سوانح حیات ہے۔
صحافت اور انسانی حقوق کے لیے بڑے بڑے کارسازوں کے سامنے ایک عمر اصولوں پر قائم رہنے پر مطمئن حسین نقی کی سوانح کا ٹائٹل خودنمائی سے مبرا ہے حالانکہ عموماً سوانح حیات لکھنے والے ٹائٹل سے لے کر آخری سطر تک مصر رہتے ہیں کہ انھی سے تو چراغوں میں روشنی تھی۔
حسین نقی کی سوانح پڑھنا شروع کی تو ان کی سادہ بیانی، واقعات اور مختلف کرداروں کے پس منظر، تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کی وضاحتوں کے سبب ماضی کے بہت سے سیاسی وسماجی معاملات کی گرہیں کھلتی گئیں۔ مدت بعد اس قدر شاندار کہانی پڑھنے کا موقع ملا۔
حسین نقی جہاں دیدہ صحافی ہیں جو 1938 کو متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں مختلف ادوار دیکھے، اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے لیے مسلسل جدوجہد کا راستہ نہ چھوڑا۔
بائیں بازو سے اپنے تعلق اور اصولوں کے ساتھ صحافت میں بہادری سے اپنا وقت گزارا۔ پاکستان میں پہلے پنجابی روزنامے ’’سجن‘‘ کا اجرا حسین نقی کا منفرد کارنامہ تھا۔ ان کی سوانح ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ ان کی اپنی کہانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 70 سالہ سیاسی، سماجی اور صحافتی کہانی بھی ہے۔
کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے… میرے ننھیال والے لکھنؤ کے محلے وزیر گنج کے تھے۔ میرے خاندان کا بڑا حصہ کیونکہ آج بھی لکھنؤ میں رہتا ہے اس لیے میرا آنا جانا بھی رہا۔ ماضی قریب تک دلی، لکھنؤ، لاہور اور دیگر علاقوں میں خاندانوں کا ملاپ، رشتہ داری کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی بلکہ اکثر خاندانوں میں یہ چلن عام تھا۔ اگر آپ کی اس چلن پر نظر ہوگی تو 1947 سے قبل کے سیاسی وسماجی منظرنامے کا تجزیہ کرتے ہوئیآپ غچہ نہیں کھائیں گے۔
مجھے آج یہ لگتا ہے کہ آزادی کی جو لڑائی بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہوئی اس میں سبھی لیڈرشپ اشرافیہ ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وقت اولین اہمیت طبقاتی سوال کو نہیں بلکہ آزادی کے سوال کو حاصل تھی۔ ہماری لیڈرشپ سو سال آگے دیکھ کر فیصلے نہ کر سکی لیکن ہندوستان کی حکمران قیادت نے زرعی اصلاحات، تعلیم اور ترقی پر بہت توجہ دی…
ضیاء الحق دور میں اپنی گرفتاری کا واقعہ یوں لکھتے ہیں:… اس دوران دو تین بار انٹیلی جنس کے لوگ پوچھ گچھ کے لیے آئے، اندازہ ہو گیا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ یہ دسمبر 1978 کا کوئی دن تھا جب کچھ لوگ میرے دفتر آئے اور کہا کہ ہم آپ کو لے جانے آئے ہیں۔ آپ سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔
انھوں نے مجھے پولیس وین میں بٹھایا اور لاہور کے شاہی قلعہ لے آئے، جہاں بدنام زمانہ عقوبت خانہ تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں نے کوٹ اور سردی بچانے کا لباس پہنا تھا۔ جس سیل میں رکھا گیا تھا وہاں ایک سائیڈ پر بڑی سی کنالی رفع حاجت کے لیے پڑی تھی جو بہت مشکل مرحلہ تھا۔
میں رات بوٹ اتارے بغیر ویسے ہی لیٹ گیا۔ یخ بستہ ٹھنڈی ہوا کا بسیرا تھا… رات تفتیش کے لیے ایک ڈی ایس پی آگئے۔ ان سے ایسے ہی حالات میں ایک بار پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ بولے نقی صاحب آپ کو ہر ایک سے اختلاف ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔
ہم نے کراچی میں سیاست کی تھی، اسٹوڈنٹس جماعت چلائی تھی مگر ہم نے یہ ہمیشہ خیال رکھا کہ اس میں سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، میمن وغیرہ بھی شامل ہوں۔ اس میں فرقہ پرستی کا عنصر نہ ہو اور غیرمسلم بھی ایسی تنظیموں کو اپنا سمجھیں اور طبقاتی تقسیم کا بھی دھیان رکھیں۔
تب جا کے ہم کراچی کی نمایندگی کر سکتے ہیں اور کراچی کے مسئلوں کا حل نکال سکتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں حیدرآباد اپنے قیام کے دوران جب مہاجر پختون اتحاد بنایا گیا تو مجھے بطور سیاسی ورکر لسانی منافرت کے خطرے کی بو آنے لگی۔ بعد ازاں 80 کی دہائی کے کراچی میں تو چل سو چل۔
10 اپریل 1986 میں وزیراعظم بننے سے قبل ہم صحافیوں نے بے نظیر سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے شہید بابا سے اختلاف بارے پوچھا۔ میں نے جواب دیا کہ گزر جانے والوں سے اختلاف نہیں کیا جاتا۔ ایک بار انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ میں اور بابا میں کیا فرق ہے ؟ تو میں نے کہا کہ آپ کے بابا سنتے زیادہ تھے جب کہ آپ بولتی بہت ہیں۔ آپ سنیں زیادہ اور پارٹی کو کھڑا کریں۔
جب سے میں لاہور مستقل شفٹ ہوا، میرا یہ پکا خیال تھا کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک روزنامہ نکلنا چاہیے۔ زبان کے بارے میں مجھ میں حساسیت لکھنو سے ہی پیدا ہو گئی تھی جب 50 کی دہائی میں یک دم اردو میڈیم بند کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یا ہندی میڈیم رکھو یا انگلش میڈیم۔
پنجابی کے پہلے روزنامہ ’’سجن‘‘ کا پہلا شمارہ تین فروری 1989 کو نکلا۔ سجن میں سب رضاکار ہی تھے۔ کچھ لوگ وہیں سو جاتے، ہم نے سوچا 100 دن کا تجربہ کیا جائے کہ اخبار نکل سکتا ہے یا نہیں؟ یہ اخبار ہم نے 18 ماہ چلایا، 10/12 ہزار بھی چھاپا تو بکا۔ اگر ہمارے اشتہارات بند نہ ہوتے تو ہم اس کی سرکولیشن 30 ہزار تک لے جا سکتے تھے۔
میں نے بطور ترقی پسند اپنی جدوجہد کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا۔ طلبہ سیاست کا کام انقلاب لانا تو نہیں تھا مگر ہم نے طلبہ سیاست کی۔ اسی طرح میں نے صحافت شروع کی۔ اب جنرلزم بہت مختلف ہو چکی ہے تاہم ہم نے جہاں جہاں کام کیا، صحافت کی ٹریڈ یونین بھی قائم کی اور جس قدر گنجائش بن سکتی تھی، صحافیوں کے مفاد کو مدنظر رکھا۔ نوکریاں بھی کیں، پنجاب ٹائمز، پنجاب پنچ، ویو پوائنٹ ، سجن بھی کیا۔
اس کے علاوہ ایک درجن دوسرے اخباری اداروں کے لیے لکھتا اور مشورے بھی دیتا رہا۔ کتاب کا آخری باب ختم کرتے ہوئے ہم اسی سوچ میں رہے کہ جو بھی خلوص دل کے ساتھ، اپنے نظریے، جمہوری پاسداری اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے، انھوں نے یقینا اس ملک کے لیے بہت کچھ کر دیا، چاہے وہ اس کا کریڈٹ لینے سے طبعاً گریز کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے اختلاف کی سوانح انھوں نے کے لیے ا
پڑھیں:
گونگے کہیںکے ۔۔۔
آواز
ایم سرورصدیقی
کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے۔ ایک وقت تھا جب اس ملک میں ڈرائنگ روم کی سیاست کا دور دورہ تھا۔ اس ماحول میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عام آدمی کو سیاست سے روشناس کروایا ۔عوام کو اپنے حقوق کااحساس ہوا ۔ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کیلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے ۔زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں ،جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے ۔لیکن عوام کی طاقت،سیاست کے بدلتے تیور اور جمہوریت کے استحکام نے ان لوگوں کو مضطرب کرکے رکھ دیاہے کیونکہ وہ اندر کے خوف سے بے چین ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔ دوسروںکیلئے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے۔ درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہیں۔تاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں۔
غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ،دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی ،عوام کو شعور دینے والے تمام رہنمائوں کی جدوجہد کیلئے لوگوںکی استقامت اور جرأت کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ اس سے شعور و آگہی کے کئی سورج طلوع ہوں گے۔ عام آدمی جب یہ محسوس کرتاہے کہ استحصالی نظام کو بچانے کیلئے زرداری،فضل الرحمن،نوازشریف جیسے سیاستدان اندر سے ایک ہیں ،یہ سب مفادات کے لئے متحدہیں ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ قومی و مذہبی رہنما جن کے ایک دن کے اخراجات لاکھوں میں ہیں ،وہ بھی سالانہ چند ہزار ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے پارلیمنٹ ان دو نمبر لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اول درجے کے جھوٹے اور ٹیکس چورہیں ۔حکمران تو محض اپنے اقتدارکو جمہوریت سمجھ کر تنقید کرنے والوںکوقابل ِ تعزیر سمجھنے لگتے ہیں۔عوام کی اکثریت کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے ۔آئین کی پہلی100شقوںپر عمل ہو جائے تو پاکستان کے غریبوںکی حالت اور حالات بدل جائیں گے۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی معزز رکن پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس میں غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن اور لوڈشیڈنگ پر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔۔۔کسی وزیر نے یہ بھی بتانا گوارانہیں کیا حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے کیا کررہی ہیں؟مہنگائی اور جرائم کی روک تھام کیلئے کیا ترجیحات ہیں؟ حالانکہ یہ سب عوام کے نمائندے ہیں ۔الیکشن کے دوران ہر قیمت پر جیتنے کی خواہش میں مرنے مارنے پر تل جانے والے جب جیت جاتے ہیں تو ان میں سے نوے فی صد نے کبھی پارلیمنٹ میں زبان سے کبھی ایک لفظ ادانہیں کیا ۔۔ کیا یہ گونگے ہیں؟ اب تلک یہ ہوتا آیاہے جب بھی کوئی سیاستدان اقتدار میں آتاہے، اس کے ارد گرد خوشامدی،درباری اور مفاد پرست قسم کے لوگ گھیرا ڈال لیتے ہیں جو درست بات بھی حکمر ان تک نہیں پہنچنے دیتے ۔تکبر، رعونت،خوشامد اور خودپرستی کی وجہ سے وہ عوام سے دور جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ،لیکن انہیں اس کا مطلق احساس نہیں ۔اب نوازشریف کہاں ہیں اور ان کا بیانیہ کدھر گیا ۔کوئی نہیں جانتا؟ اس قوم کو ہر نئے حکمران سے بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں اور وہ انہیں کے نعرے مارنے میں مگن ہو جاتی ہے۔
میاںنوازشریف اور ان سے پہلے پرویزمشرف وہ پی آئی اے، اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے بیچ کرحالات درست کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی دال نہیں گلی ۔اب تبدیلی سرکار نے بھی کئی قومی اداروںکی نجکاری کا عندیہ دیاہے ۔کاش کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارا نہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے ۔لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔حکمرانوںکی نااہلی سے ملکی ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہاہے ورنہ جس ترقی کا دعویٰ زور و شور سے کیا جارہا تھا اسے آئی ایم ایف بہاکر لے گیا ہے ۔باقی رہی سہی کسر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور پاکستانی روپے کی بے توقیری نے پوری کردی ہے، حالانکہ پاکستان میں ترقی کا فائدہ ہمیشہ صرف ٹھیکیداروں اور کاروباری خاندانوںکا فائدہ ہی ہوتاہے اور عام آدمی کی حصہ میں وہی محرومیاں ہیں جس کا شکار وہ پہلے سے ہیں۔ عوام نے کبھی منتخب نمائندوں، پارلیمنٹ اور وزیر ِ خرانہ سے پوچھنے کی جرأت نہیں کی کہ جناب غیرملکی قرضے کیوں لئے جارہے ہیں ؟ ماضی میں لیے جانے والے قرضوں کا تصرف کیا رہا؟ کون سا نیا قومی منصوبہ شروع کیا گیا؟ کیا حکمران قوم کو بتانا پسندکریں گے کہ قومی اثاثے اونے پونے بیچنے میں کیا منطق ہے؟ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل اورایم سی بی فروخت کرنے سے قوم کو کیا فائدہ ہوا،کتنا منافع ملا؟ہمارے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور اشرافیہ نے ملک لوٹ کر جو رقم باہر جمع کرواروکھی ہے ،وہ کب واپس آئے گی اس کا مطلب ہے یہ لوگ پاکستان میں کاروبار کرنا بھی پسندنہیں کرتے ۔کمال ہے پھر بھی میڈ ان پاکستان کہلاتے ہیں۔ ان کے اپنے ادارے ترقی کرکے ایک سے دو ۔دو سے درجن بن گئے ہیں ،لیکن قومی ادارے بیچنے کیلئے ان کے ملازمین کو گولیاں مار کر رنگین کیا جا رہاہے جو حکمران چند ادارے چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ملک کیا چلائیں گے؟ کاش کوئی حکمرانوںکو سمجھائے کہ گھر کے برتن فروخت کرکے کبھی گزارانہیں ہوتا۔ معاملات میں خودکفیل ہوناپڑتاہے۔ محض خالی باتیں اور کھوکھلے دعوے کرنا الگ بات ہے لیکن ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکمرانوںکی نااہلی سے ترقی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ ترقی کی اصل حقیقت کیا ہے؟کیا عوام نہیں جانتے ؟ جاننے والے کڑھتے رہتے ہیں ۔
چند سال پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حکومت نے نجی پاور کمپنیوںکو ایک ہفتہ کے دوران غیرقانونی طورپر480ارب اداکئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنیوںنے خود15فیصد کم وصولی کا مطالبہ کیا سیکریٹری پانی و بجلی کو اضافی ادائیگی واپس لینے اورنجی پاور کمپنیوںکی پیداواری صلاحیت کا ازسرنو آڈٹ کروانے کا حکم بھی دیا کیا منطقی انجام کیا ہوا ؟ کوئی نہیں جانتا ایک اور خوفناک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ کچھ نجی پاور کمپنیوںکو فوٹو سٹیٹ کاپی پر ادائیگی کردی گئی ۔مال ِ مفت دل ِ بے رحم کی شاید اس سے بہترمثال مل ہی نہیں سکتی۔ پاکستان کے ساتھ حکمرانوںکا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔یہ ساری باتیں ارکانِ پارلیمنٹ کے نوٹس میں ہیں جو ذاتی معاملات پر طوفان اٹھا لیتے ہیں ۔بات بات پر ان کااستحقاق مجروح ہوتا ہے ۔قومی مفادات پر آواز بلند نہ کرنے کا مطلب ہے ،ارکانِ اسمبلی واقعی گونگے ہیں۔ گونگے کہیں کے۔ ایک نگران وزیر ِ اعظم نے سوات میں اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر فاتحہ پڑھی جو قوم کو 6کروڑ میں پڑی ، کسی ادارہ یا کسی شخصیت نے مجال ہے موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیش رو کی روش پرچلناہی اپنا مطمح نظر بنالیا ہے۔ ن لیگ کے دور میں شوگرملزمالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی، اس کے باوجود چینی مہنگی ہوگئی ۔موجودہ عمران خان کی حکومت نے بھی اربوںکی سبسڈی دی ،مرے پر 100درے کے مصداق چینی مزید مہنگی ہوگئی ۔وزیر ِ اعظم نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور مزے کی بات یہ ہوئی ہو کہ چینی مزید مہنگی ہوگئی اب تو بوگوںنے کہناشروع کردیاہے عمران خان جس کا نوٹس لیں وہ چیزمہنگی ہوجاتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، ادویات،بجلی،گیس اور اشیائے خورونوش کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔یہ مافیاز بے نقاب بھی ہوگئے لیکن انہوںنے عوام کو اور حکومت کو رگڑا بھی لگایا اور ان کا بگڑا بھی کچھ نہیں ۔عوام کے ووٹوںسے منتخب ہونے والے گم صم بنے ہوئے ہیں ۔کوئی عوام کے حقوق کے لئے آوازنہیں اٹھاتا ۔جناب عوام کے ٹیکسز پر عیاشی کرنے والے کیا کررہے ہیں اور عوام کے ساتھ یہ کیا کیا جارہاہے گونگے کہیں کے۔ ہمیں یقین ہے جتنے بھی عام انتخابات ہوجائیں ان کے نتیجہ میں بھی کچھ تبدیل نہیں ہوگا ۔غریبوںکا یہی حال رہے گا اور ارکان ِ اسمبلی بھی ان جیسے ہی آئیں گے یعنی ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم جیساہوگا ۔مطلب حال و مستقبل میں بھی ماضی جیسے گونگے ہی منتخب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔