Express News:
2025-11-23@05:40:38 GMT

مجھ سے جو ہو سکا

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

رواں ہفتے قیام پاکستان کے 78 سال مکمل ہوئے۔ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ اس موقع پر یہ سوال اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تنقید نما یہ سوال اتنا بے جا بھی نہیں تاہم اس سوال کے پیچھے بیشتر اوقات ہم ایسے لوگوں کا تساہل اور تن آسانی بھی چھپی ہوتی ہے جو شکوہ ظلمت شب کو ہی اپنا کمال جانتے ہیں تاہم بقول فراز حقیقت کچھ یوں ہے:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

بہت زیادہ نہ سہی لیکن وطن عزیز میں چند نام ور لوگ ضرور ایسے ہیں جنھوں نے بامقصد زندگی گزاری اور اس ملک کے لیے اپنی اپنی حیثیت میں جو بن پڑا، کیا۔ یوم آزادی سے تین دن قبل ایک کتاب موصول ہوئی ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ جسے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب معروف صحافی اور انسانی حقوق کے پرچارک حسین نقی کی سوانح حیات ہے۔

صحافت اور انسانی حقوق کے لیے بڑے بڑے کارسازوں کے سامنے ایک عمر اصولوں پر قائم رہنے پر مطمئن حسین نقی کی سوانح کا ٹائٹل خودنمائی سے مبرا ہے حالانکہ عموماً سوانح حیات لکھنے والے ٹائٹل سے لے کر آخری سطر تک مصر رہتے ہیں کہ انھی سے تو چراغوں میں روشنی تھی۔

حسین نقی کی سوانح پڑھنا شروع کی تو ان کی سادہ بیانی، واقعات اور مختلف کرداروں کے پس منظر، تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کی وضاحتوں کے سبب ماضی کے بہت سے سیاسی وسماجی معاملات کی گرہیں کھلتی گئیں۔ مدت بعد اس قدر شاندار کہانی پڑھنے کا موقع ملا۔

حسین نقی جہاں دیدہ صحافی ہیں جو 1938 کو متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں مختلف ادوار دیکھے، اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے لیے مسلسل جدوجہد کا راستہ نہ چھوڑا۔

بائیں بازو سے اپنے تعلق اور اصولوں کے ساتھ صحافت میں بہادری سے اپنا وقت گزارا۔ پاکستان میں پہلے پنجابی روزنامے ’’سجن‘‘ کا اجرا حسین نقی کا منفرد کارنامہ تھا۔ ان کی سوانح ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ ان کی اپنی کہانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 70 سالہ سیاسی، سماجی اور صحافتی کہانی بھی ہے۔

کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے… میرے ننھیال والے لکھنؤ کے محلے وزیر گنج کے تھے۔ میرے خاندان کا بڑا حصہ کیونکہ آج بھی لکھنؤ میں رہتا ہے اس لیے میرا آنا جانا بھی رہا۔ ماضی قریب تک دلی، لکھنؤ، لاہور اور دیگر علاقوں میں خاندانوں کا ملاپ، رشتہ داری کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی بلکہ اکثر خاندانوں میں یہ چلن عام تھا۔ اگر آپ کی اس چلن پر نظر ہوگی تو 1947 سے قبل کے سیاسی وسماجی منظرنامے کا تجزیہ کرتے ہوئیآپ غچہ نہیں کھائیں گے۔

مجھے آج یہ لگتا ہے کہ آزادی کی جو لڑائی بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہوئی اس میں سبھی لیڈرشپ اشرافیہ ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وقت اولین اہمیت طبقاتی سوال کو نہیں بلکہ آزادی کے سوال کو حاصل تھی۔ ہماری لیڈرشپ سو سال آگے دیکھ کر فیصلے نہ کر سکی لیکن ہندوستان کی حکمران قیادت نے زرعی اصلاحات، تعلیم اور ترقی پر بہت توجہ دی…

ضیاء الحق دور میں اپنی گرفتاری کا واقعہ یوں لکھتے ہیں:… اس دوران دو تین بار انٹیلی جنس کے لوگ پوچھ گچھ کے لیے آئے، اندازہ ہو گیا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ یہ دسمبر 1978 کا کوئی دن تھا جب کچھ لوگ میرے دفتر آئے اور کہا کہ ہم آپ کو لے جانے آئے ہیں۔ آپ سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔

انھوں نے مجھے پولیس وین میں بٹھایا اور لاہور کے شاہی قلعہ لے آئے، جہاں بدنام زمانہ عقوبت خانہ تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں نے کوٹ اور سردی بچانے کا لباس پہنا تھا۔ جس سیل میں رکھا گیا تھا وہاں ایک سائیڈ پر بڑی سی کنالی رفع حاجت کے لیے پڑی تھی جو بہت مشکل مرحلہ تھا۔

میں رات بوٹ اتارے بغیر ویسے ہی لیٹ گیا۔ یخ بستہ ٹھنڈی ہوا کا بسیرا تھا… رات تفتیش کے لیے ایک ڈی ایس پی آگئے۔ ان سے ایسے ہی حالات میں ایک بار پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ بولے نقی صاحب آپ کو ہر ایک سے اختلاف ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔

ہم نے کراچی میں سیاست کی تھی، اسٹوڈنٹس جماعت چلائی تھی مگر ہم نے یہ ہمیشہ خیال رکھا کہ اس میں سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، میمن وغیرہ بھی شامل ہوں۔ اس میں فرقہ پرستی کا عنصر نہ ہو اور غیرمسلم بھی ایسی تنظیموں کو اپنا سمجھیں اور طبقاتی تقسیم کا بھی دھیان رکھیں۔

تب جا کے ہم کراچی کی نمایندگی کر سکتے ہیں اور کراچی کے مسئلوں کا حل نکال سکتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں حیدرآباد اپنے قیام کے دوران جب مہاجر پختون اتحاد بنایا گیا تو مجھے بطور سیاسی ورکر لسانی منافرت کے خطرے کی بو آنے لگی۔ بعد ازاں 80 کی دہائی کے کراچی میں تو چل سو چل۔

10 اپریل 1986 میں وزیراعظم بننے سے قبل ہم صحافیوں نے بے نظیر سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے شہید بابا سے اختلاف بارے پوچھا۔ میں نے جواب دیا کہ گزر جانے والوں سے اختلاف نہیں کیا جاتا۔ ایک بار انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ میں اور بابا میں کیا فرق ہے ؟ تو میں نے کہا کہ آپ کے بابا سنتے زیادہ تھے جب کہ آپ بولتی بہت ہیں۔ آپ سنیں زیادہ اور پارٹی کو کھڑا کریں۔

جب سے میں لاہور مستقل شفٹ ہوا، میرا یہ پکا خیال تھا کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک روزنامہ نکلنا چاہیے۔ زبان کے بارے میں مجھ میں حساسیت لکھنو سے ہی پیدا ہو گئی تھی جب 50 کی دہائی میں یک دم اردو میڈیم بند کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یا ہندی میڈیم رکھو یا انگلش میڈیم۔

پنجابی کے پہلے روزنامہ ’’سجن‘‘ کا پہلا شمارہ تین فروری 1989 کو نکلا۔ سجن میں سب رضاکار ہی تھے۔ کچھ لوگ وہیں سو جاتے، ہم نے سوچا 100 دن کا تجربہ کیا جائے کہ اخبار نکل سکتا ہے یا نہیں؟ یہ اخبار ہم نے 18 ماہ چلایا، 10/12 ہزار بھی چھاپا تو بکا۔ اگر ہمارے اشتہارات بند نہ ہوتے تو ہم اس کی سرکولیشن 30 ہزار تک لے جا سکتے تھے۔

میں نے بطور ترقی پسند اپنی جدوجہد کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا۔ طلبہ سیاست کا کام انقلاب لانا تو نہیں تھا مگر ہم نے طلبہ سیاست کی۔ اسی طرح میں نے صحافت شروع کی۔ اب جنرلزم بہت مختلف ہو چکی ہے تاہم ہم نے جہاں جہاں کام کیا، صحافت کی ٹریڈ یونین بھی قائم کی اور جس قدر گنجائش بن سکتی تھی، صحافیوں کے مفاد کو مدنظر رکھا۔ نوکریاں بھی کیں، پنجاب ٹائمز، پنجاب پنچ، ویو پوائنٹ ، سجن بھی کیا۔

اس کے علاوہ ایک درجن دوسرے اخباری اداروں کے لیے لکھتا اور مشورے بھی دیتا رہا۔ کتاب کا آخری باب ختم کرتے ہوئے ہم اسی سوچ میں رہے کہ جو بھی خلوص دل کے ساتھ، اپنے نظریے، جمہوری پاسداری اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے، انھوں نے یقینا اس ملک کے لیے بہت کچھ کر دیا، چاہے وہ اس کا کریڈٹ لینے سے طبعاً گریز کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے اختلاف کی سوانح انھوں نے کے لیے ا

پڑھیں:

غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟

اسلام ٹائمز: اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی

غزه امن معاہدے پر خوب خوب دکانیں چمکائی گئیں، سارا مغربی میڈیا اور اس کے اتباع میں ہمارے بھی کچھ نادان دوست اور فریب خوردہ تجزیہ نگار اس دھارے میں بہہ نکلے اور ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے، ہر کوئی اپنے سر خود ہی سہرا سجانے لگا۔ ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ اب غزہ میں امن و چین کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اب سارے اسلامی ممالک غزہ کی تعمیر نو کے لئے جوش و خروش سے آگے بڑھیں گے اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے درماندہ لوگوں کے زخموں کا کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی زعم میں ان آوازوں کو بھی خاموش کرنے کے لئے سخت اقدامات شروع کر دیئے گئے جو غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں اٹھ رہی تھیں، کہا گیا کہ غزہ کے لوگ جشن منا رہے ہیں اور یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل نے نہ تو اس معاہدے پر دستخط کئے اور نہ ہی اس کی پابندی کی۔ معاہدے کے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب غزہ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں سے محفوظ رہا ہو۔ مگر مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں یا تو خاموش کر دی گئیں یا کمزور کر دی گئیں۔ اس منصوبے کے پیچھے بہت سے دیگر اہداف کے علاوہ ایک ہدف مغربی ممالک میں اٹھنے والی وہاں کی عوام کی وہ تحریکیں تھیں جن میں رفتہ رفتہ احتجاجی جلسوں جلوسوں سے بڑھ کر شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی، جو مغربی نظام اور حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بنتی جا رہی تھی۔

اس ہی لئے ایک طرف اپنی عوام کو رام کرنے کے لئے ایک فریبی معاہدے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف اسلامی ممالک کو اپنے عوام کی آواز دبانے کے لئے جواز فراہم کرنا تھا اور اس سازش میں استعمار کامیاب رہا۔ اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔

ہمارا وطن عزیز اگرچہ اس وقت خود اندرونی اور بیرونی دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، ہم شمال مغربی سرحد پر جنگ کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اور مشرقی سرحد پر بھی کشیدہ صورتحال ہے۔ بھارت اور افغانستان کا ہمارے خلاف گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کو ایک کال پر بند کرانے کا دعوی کرنے والے اب کیوں مزے سے تماشا دیکھ رہے ہیں؟ کوئی بھولا بادشاہ ہی ہوگا جو یہ بات نہ جانتا ہو کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں اور اسرائیل کس کے سہارے ساری کاروائیاں انجام دیتا ہے، ایسے میں صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان سے ہونے والی کاروائیوں کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔

پاکستان نے گزشتہ مہینوں میں خطے میں جو اپنی دھاک بٹھائی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارا کھیل اس دھاک کو ختم کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہو۔ کیونکہ بالآخر اسرائیل نے جو اپنے اہداف ساری دنیا کے سامنے رکھے ہیں ان میں پاکستان کی ایٹمی قوت کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کی کاروائیاں اور سرحدوں پر چھیڑ خانی نہ تو مقامی مسئلہ ہے اور نہ ہی علاقائی بلکہ اس کے تانے بانے گلوبل گیم سے ملتے ہیں، جس کی ابتدا فلسطین سے کی گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ارباب اختیار کا طائر تخیل کہاں تک پرواز کرتا ہے، ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ ایڈہاک ہیں یعنی عبوری بنیاد پر ہی چل ہے۔ آج کا دن گزارو کل کی کل دیکھی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟
  • دہشت گردی اور افغانستان
  • وفاق ، آئین اور وحدتیں
  • آپ کی ترجیحات…
  • پاکستان، چین اور امریکا ایک مثلث
  • غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟
  • جمہوریت: سَراب
  • مستقبل؟
  • روس،یوکرین جنگ: یورپ کس حد تک جائے گا؟
  • کنجی