مہذب اقوام اپنے اہم ایام کو بڑے وقار اور بردباری سے مناتی ہیں۔ پوری عیسائی دنیا 25 دسمبرکو حضرت عیسیٰؑ کا یوم ولادت مناتی ہے۔ تقریباً دو ماہ سے وہ لوگ اس جشن کو منانے کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ بے تحاشا پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن اس خاص دن پر عبادت کے بعد ایک دوسرے کو تحفے دیتے، دعوتیں کرتے ہیں اور یہ ساری خوشیاں خوش اسلوبی سے مناتے ہیں، یہی حال دوسری اقوام کا بھی ہے۔
ہمارے بھی کچھ دن ہمارے لیے بہت اہم ہیں عید، بقر عید ہماری عبادات اور اظہار تشکر کے دن ہیں اور ہم ان عبادات میں مصروف رہتے ہیں،مگر ادھر چند سالوں سے ہمارے یہاں ’’تہوار‘‘ اور ’’منانے‘‘ کے تصورات بدل گئے ہیں اور ان میں ایسی صورت پیدا ہو گئی ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔
کچھ ایام ایسے بھی ہیں جن کی مذہبی اہمیت نہیں، مگر وہ قومی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں نیا سال، یوم آزادی وغیرہ وہ ایام ہیں جن کی مذہبی اہمیت ہو یا نہ ہو قومی اہمیت ہو گئی۔ مثلاً سال نو کی ہمارے دین میں کوئی اہمیت نہیں مگر انگریزی دور حکومت میں سال نو منایا جاتا تھا ہم نے اسے اختیار کر لیا۔
14 اگست 1947 کو اسلامی مملکت پاکستان وجود میں آئی اور ہم اس پر نازاں ہیں، اس لیے شان و شوکت سے مناتے ہیں اور منانا بھی چاہیے، مگر ان تہواروں یا اہم ایام کو جس طرح منانے کا طریقہ ہم نے اختیارکیا ہے جو مہذب اقوام کا رویہ نہیں کہلایا جاتا۔ نئے سال کی حد تک تو اتنا ضرور ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کو نئے سال کی مبارک باد کے کارڈ ارسال کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں، دوستوں کو کھلاتے اور خود کھاتے ہیں۔
عید پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں، کھاتے پیتے اورکھلاتے پلاتے ہیں۔ یہی صورتحال بقر عید پر بھی ہوتی ہے، خدا کے حضور قربانی پیش کرکے ہم اپنے دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں اور ناداروں کو اپنی قربانی کے گوشت میں شریک طعام کرتے ہیں، مگر یہ بھی محض شکم پوری کا موقعہ نہیں اظہار تشکر کے لیے۔
عید سے پہلے رمضان موجود ہے۔ ہم اپنے تہواروں کی اہمیت و افادیت کو بھول بیٹھے ہیں اور اس دن کو اپنی ’’مرضی‘‘ کے مطابق گزارنے پر اکتفا کرتے ہیں۔نیا سال ہو، شب برات ہو یا یوم آزادی کا موقعہ ہم ان تاریخوں کی ابتدا کا اعلان ہیبت ناک پٹاخوں اور فضول فائرنگ سے کرتے ہیں۔
آتش بازی تو چلیے اظہار مسرت کا اعلان رہی ہے مگر پٹاخے جو بم کی طرح پھٹتے اور ناگوار شور و غوغا پیدا کرتے ہیں جس سے بچے اور عورتیں خوف زدہ اور لرزاں و ترساں ہو جاتے ہیں اور بیمار بے حال ہو جاتے ہیں۔ آپ کو خوشی منانے کا حق ہے مگر آپ کوئی ایسا فعل نہیں کرسکتے جو دوسرے کے لیے ناگواری، کوفت، پریشانی اور وحشت کا باعث ہو۔
اس کے علاوہ اب ایک چیز اور رائج ہوگئی ہے، وہ ہے فائرنگ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ فائرنگ لائسنس یافتہ اسلحے سے ہوتی ہے یا غیر قانونی اسلحے سے، مگر اس طرح ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ۔یہ بات نہیں کہ سرکار دولت مدار کے علم میں یہ نامعقول اور غیر قانونی رویہ نہ ہو کیوں کہ ہر سال ایسے مواقعے پر ایک بیان جاری ہوتا ہے کہ ’’ فائرنگ‘‘ کا مظاہرہ کرنا ممنوع اور دفعہ 144 وغیرہ کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کارروائی تو کیا خاک کی جاتی ہے البتہ تین، چار، پانچ اموات ہر ایسی فائرنگ کے موقعے پر ہوتی ہیں اور چونکہ قاتل نامعلوم ہوتا ہے اور اس لیے لاشیں دفن کر دی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ اس موقع کی خوشیاں بھی دفن ہو جاتی ہیں۔
یہ نہیں کہ اس وحشت ناک فائرنگ کی آوازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں تک نہ پہنچتی ہوں۔ ان اداروں نے یہ رویہ بنا لیا ہے کہ حادثات سے پہلے انھیں غیر قانونی ہونے کا اعلان کر دیا جائے اور بس فرض ادا ہوگیا۔
ہماری بے حس صوبائی اور مرکزی حکومتیں ان غیر قانونی سرگرمیوں کی ذمے دار ہیں۔ اس سال جشن آزادی پر ہم نے فائرنگ کر کے تین افراد کی جان لے لی۔ فائر کس کا تھا اورکیسے لگا معلوم نہیں، 114 افراد زخمی ہوئے۔ان تین افراد کی موت کا ہرجانہ حکومت پر عائد ہوتا ہے اور وہ اسے ادا کرے، اس طرح 114 افراد کو طبی خدمات کی فراہمی کے تمام اخراجات حکومت وقت کے ذمے ہیں۔
اموات کا ہرجانہ اور زخمیوں کا علاج معالجہ حکومت کی ذمے داری ہے، جو اسے ادا کرنا ہوگی۔ کیوں کہ حکومت کو اس قسم کی فائرنگ رکوانے سے دلچسپی نہیں ہے مگر قانوناً ان اموات کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ ورثا کو ہرجانہ ادا کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہیں ہیں اور ہوتی ہے
پڑھیں:
عظمیٰ بخاری کا شرمیلا فاروقی کے بیان پر ان کو مناظرے کا چیلنج
---فائل فوٹوزوزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کی جانب سے وزیرِاعلیٰ پنجاب کو چیلنج کرنے پر اِنہیں مناظرے کا چیلنج دے دیا۔
عظمیٰ بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں 17 سال سے حکومت ہے، آپ 17 سال میں 17 عوامی فلاح کے منصوبے نہیں گنوا سکتے، مریم نواز کی پنجاب میں حکومت کو ابھی 2 سال بھی مکمل نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتنے کم عرصے میں مریم نواز نے 90 منصوبے شروع کیے جن میں 50 مکمل ہوچکے ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے شرمیلا فاروقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے ساتھ مناظرے کے لیے بالکل تیار ہوں آجائیں، آجائیں پرفارمنس کا مقابلہ کرتے ہیں، یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ سندھ میں ایسی ترقی ہو رہی جو نظر نہیں آرہی، آجائیں وہ قوم کو دکھائیں۔ اگر 17 سال کی حکومت والوں کو پنجاب سے موازنے کا شوق ہے تو شوق سے مناظرہ کر لیں۔
اِن کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگ خود لاہور کی سڑکوں اور صفائی کی تعریفیں کرتے ہیں، جس کی آپ کو پریشانی ہوتی۔
مریم نواز نے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے لوگوں کی عزت نفس کی بات کی، اس پر کبھی معافی نہیں مانگوں گی
عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ بی آئی ایس پی کو آپ کیوں زبردستی پنجاب کے سیلاب متاثرین پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ مریم نواز پنجاب کے سیلاب متاثرین کو 10، 10 لاکھ کے امدادی چیک دینے جا رہی ہیں، آپ بی آئی ایس پی کے ذریعے سندھ کے سیلاب متاثرین کو 10، 10 ہزار دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل شرمیلا فاروقی نے آج صبح ’جیوپاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ایک صوبے کاچیف ایگزیکٹو یہ کہے گا کہ میرا پیسہ، میرا پانی، انگلی توڑ دیں گے، یہ بدقسمتی ہے۔
شرمیلا فاروق نے کہا کہ وہ چیلنج کرتی ہیں سندھ اور پنجاب کی کارکردگی کا موازنہ کر لیں کہ سندھ میں صحت کا نظام کیا ہے اور پنجاب میں کیا ہے، سندھ سیلاب زدگان کے لیے کیا کر رہا ہے اور پنجاب کیا کر رہا ہے۔