ایسے وقت میں جب دنیا فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کے گرداب میں الجھی ہوئی ہے، ایک ایماندار صحافی کی موجودگی کسی چراغ کی مانند ہے جو دھند میں سچ کا راستہ دکھاتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج سچ بولنے کی سزا موت ہے اور قلم اٹھانے کا مطلب تختہ دار پر قدم رکھنا بن چکا ہے، پھر بھی کچھ لوگ ،کچھ ضمیر والے اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ سچ لکھتے اور دکھاتے ہیں جو طاقتوروں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیتا ہے۔ یہی لوگ صحافت کے اصل علمبردار ہیں جن کی موجودگی ہمارے سماج کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔
ہم اکثر خبر پڑھتے ہیں، ایک تصویر دیکھتے ہیں اور چند لمحے غمزدہ ہو کر آگے بڑھ جاتے ہیں مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ اس ایک تصویر کے پیچھے ایک جان، ایک نظریہ ایک مقصد اور اکثر ایک قربانی ہوتی ہے۔
اناس الشریف کیمرے کی آنکھ سے نہ صرف دھماکوں کو قید کرتا تھا بلکہ ان لمحوں کی خاموشی بھی دکھاتا تھا جو تصویروں سے زیادہ بولتی ہیں۔ محمد قریقہ نے زخمی بچوں کی کراہ کو صرف رپورٹ نہیں کیا بلکہ دنیا کو وہ دکھ سننے پر مجبور کیا جسے وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔
ابراہیم زاہر نے ایک ایسے بازار میں سچ کا گواہ بن کر کام کیا جہاں ہر قدم خطرے سے خالی نہیں تھااور محمد نوفل جس کی آخری رپورٹ ایک تباہ حال عمارت کے ملبے پر کھڑے ہو کر دی گئی خود اس ملبے کا حصہ بن گیا مگر اس کی آواز اب بھی فضا میں گونج رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف ان کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرکے اپنی ذمے داری پوری کر سکتے ہیں؟ یا ہمیں بھی اپنے دائرہ کار میں رہ کر سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا؟ جب ایک صحافی سچ بولنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم کم از کم اس سچ کو سننے سمجھنے اور آگے پہنچانے کا حوصلہ پیدا کریں۔
ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جو قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو بھول جاتی ہیں، وہ خود تاریخ میں گمنام ہو جاتی ہیں۔ سچ بولنا صرف صحافی کا کام نہیں یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کیونکہ جب سچ دبایا جاتا ہے تو صرف صحافت نہیں مرتی انسانیت بھی دم توڑنے لگتی ہے۔
اناس، محمد، ابراہیم اور نوفل نے ہمیں سکھایا ہے کہ ظالم جتنا بھی طاقتور ہو ایک سچا قلم اس کی بنیادیں ہلا سکتا ہے۔ ہمیں ان کی روشنی کو زندہ رکھنا ہے اپنے الفاظ، اپنی سوچ اور اپنے ضمیر کے ذریعے۔
انسانی تاریخ میں صحافیوں کو خاموش کرنے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں۔ سقراط کو زہر پلایا گیا کیونکہ اس نے سوال کرنا چھوڑا نہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے مصنف اور شاعر زندہ جلائے گئے جنھوں نے حکمرانوں کی برائی کو بے نقاب کیا۔
برصغیر میں مولانا ظفر علی خان اور حسرت موہانی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں تاکہ سچ زندہ رہے۔ بیسویں صدی میں دنیا کے کئی گوشوں میں صحافی مارے گئے یا جیل کی تاریکیوں میں قید کیے گئے مگر ہر بار قلم کی طاقت نے اپنی روشنی برقرار رکھی۔
صحافی وہ آئینہ ہیں جو دنیا کے مظالم اور انسانی درد کو سامنے لاتے ہیں، وہ طاقتور کے جھوٹ اور عوام کے خوابوں کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہمیشہ خطرہ رہا۔ ظالم سمجھتے ہیں کہ اگر صحافی کو خاموش کر دیا جائے تو سچ مٹ جائے گا مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سچ کو کسی موت نے نہیں روکا ہر صحافی کا خون ہر خاموشی ایک طاقت بن کر ابھرتی ہے۔
آج جب ہم پاکستان میں آزادی کا جشن منا رہے ہیں تو یہ سوچنا ہوگا کہ آزادی صرف زمین یا پرچم تک محدود نہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ قلم آزاد ہو سوال کرنا جرم نہ ہو اور سچ کو دبایا نہ جا سکے، اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو ہمیں ہر اس صحافی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو ظلم کے سامنے ڈٹا ہے چاہے وہ غزہ کی گلیوں میں ہو یا کہیں اور دنیا کے کسی کونے میں۔
اناس الشریف، محمد قریقہ، ابراہیم زاہر اور محمد نوفل خاموش ہو گئے لیکن ان کے دکھائے ہوئے مناظر ان کی آوازیں اور ان کے عزم کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ یہ صحافی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اس کے محافظ کبھی نہیں مرتے۔ ان کی قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صحافت صرف پیشہ نہیں یہ انسانیت کا ضمیر ہے اور جس قوم کے پاس ضمیر موجود ہو وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔
یہ کالم ان تمام صحافیوں کے نام ہے جو خاموشی اور خوف کے باوجود سچ کی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہی حق ہے۔ ان کے خون سے روشن یہ درس ہمیں ہر لمحہ یاد رکھنا چاہیے، تاکہ ظلم کے اندھیروں میں بھی ایک روشنی موجود رہے اور صحافت کی یہ مشعل کبھی بجھنے نہ پائے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں ان کا نام دہراتی رہوں گی، ہر لفاظ میں ہر سانس میں کیونکہ ان کے بغیر سچ کا مطلب نامکمل ہے۔ اناس الشریف، محمد قریقہ، ابراہیم زاہر، محمد نوفل یہ صرف لوگ نہیں یہ روشنی ہیں یہ یادیں ہیں یہ سچ کے محافظ ہیں اور جب تک یادیں زندہ ہیں سچ بھی زندہ رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں اور ہے اور ہیں کہ ہیں یہ
پڑھیں:
جماعت اسلامی رہنمائوں کا سینئر صحافی راؤ افنان کی والدہ کی وفات پر اظہار تعزیت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-08-5
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ، جنرل سیکرٹری محمد یوسف، سینئر رہنما اسد اللہ بھٹو، اورسیکرٹری اطلاعات مجاہد چنانے سینئر صحافی و مقامی ٹی وی چینل کے رپورٹر راؤ افنان کی والدہ کی وفات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی مغفرت، بلند درجات اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔