Express News:
2025-10-04@16:56:01 GMT

قلم کے شہید

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

ایسے وقت میں جب دنیا فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کے گرداب میں الجھی ہوئی ہے، ایک ایماندار صحافی کی موجودگی کسی چراغ کی مانند ہے جو دھند میں سچ کا راستہ دکھاتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج سچ بولنے کی سزا موت ہے اور قلم اٹھانے کا مطلب تختہ دار پر قدم رکھنا بن چکا ہے، پھر بھی کچھ لوگ ،کچھ ضمیر والے اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ سچ لکھتے اور دکھاتے ہیں جو طاقتوروں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیتا ہے۔ یہی لوگ صحافت کے اصل علمبردار ہیں جن کی موجودگی ہمارے سماج کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔

ہم اکثر خبر پڑھتے ہیں، ایک تصویر دیکھتے ہیں اور چند لمحے غمزدہ ہو کر آگے بڑھ جاتے ہیں مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ اس ایک تصویر کے پیچھے ایک جان، ایک نظریہ ایک مقصد اور اکثر ایک قربانی ہوتی ہے۔

اناس الشریف کیمرے کی آنکھ سے نہ صرف دھماکوں کو قید کرتا تھا بلکہ ان لمحوں کی خاموشی بھی دکھاتا تھا جو تصویروں سے زیادہ بولتی ہیں۔ محمد قریقہ نے زخمی بچوں کی کراہ کو صرف رپورٹ نہیں کیا بلکہ دنیا کو وہ دکھ سننے پر مجبور کیا جسے وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔

ابراہیم زاہر نے ایک ایسے بازار میں سچ کا گواہ بن کر کام کیا جہاں ہر قدم خطرے سے خالی نہیں تھااور محمد نوفل جس کی آخری رپورٹ ایک تباہ حال عمارت کے ملبے پر کھڑے ہو کر دی گئی خود اس ملبے کا حصہ بن گیا مگر اس کی آواز اب بھی فضا میں گونج رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف ان کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرکے اپنی ذمے داری پوری کر سکتے ہیں؟ یا ہمیں بھی اپنے دائرہ کار میں رہ کر سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا؟ جب ایک صحافی سچ بولنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم کم از کم اس سچ کو سننے سمجھنے اور آگے پہنچانے کا حوصلہ پیدا کریں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جو قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو بھول جاتی ہیں، وہ خود تاریخ میں گمنام ہو جاتی ہیں۔ سچ بولنا صرف صحافی کا کام نہیں یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کیونکہ جب سچ دبایا جاتا ہے تو صرف صحافت نہیں مرتی انسانیت بھی دم توڑنے لگتی ہے۔

اناس، محمد، ابراہیم اور نوفل نے ہمیں سکھایا ہے کہ ظالم جتنا بھی طاقتور ہو ایک سچا قلم اس کی بنیادیں ہلا سکتا ہے۔ ہمیں ان کی روشنی کو زندہ رکھنا ہے اپنے الفاظ، اپنی سوچ اور اپنے ضمیر کے ذریعے۔

انسانی تاریخ میں صحافیوں کو خاموش کرنے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں۔ سقراط کو زہر پلایا گیا کیونکہ اس نے سوال کرنا چھوڑا نہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں یورپ کے مصنف اور شاعر زندہ جلائے گئے جنھوں نے حکمرانوں کی برائی کو بے نقاب کیا۔

برصغیر میں مولانا ظفر علی خان اور حسرت موہانی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں تاکہ سچ زندہ رہے۔ بیسویں صدی میں دنیا کے کئی گوشوں میں صحافی مارے گئے یا جیل کی تاریکیوں میں قید کیے گئے مگر ہر بار قلم کی طاقت نے اپنی روشنی برقرار رکھی۔

صحافی وہ آئینہ ہیں جو دنیا کے مظالم اور انسانی درد کو سامنے لاتے ہیں، وہ طاقتور کے جھوٹ اور عوام کے خوابوں کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہمیشہ خطرہ رہا۔ ظالم سمجھتے ہیں کہ اگر صحافی کو خاموش کر دیا جائے تو سچ مٹ جائے گا مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سچ کو کسی موت نے نہیں روکا ہر صحافی کا خون ہر خاموشی ایک طاقت بن کر ابھرتی ہے۔

آج جب ہم پاکستان میں آزادی کا جشن منا رہے ہیں تو یہ سوچنا ہوگا کہ آزادی صرف زمین یا پرچم تک محدود نہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ قلم آزاد ہو سوال کرنا جرم نہ ہو اور سچ کو دبایا نہ جا سکے، اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو ہمیں ہر اس صحافی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو ظلم کے سامنے ڈٹا ہے چاہے وہ غزہ کی گلیوں میں ہو یا کہیں اور دنیا کے کسی کونے میں۔

اناس الشریف، محمد قریقہ، ابراہیم زاہر اور محمد نوفل خاموش ہو گئے لیکن ان کے دکھائے ہوئے مناظر ان کی آوازیں اور ان کے عزم کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ یہ صحافی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اس کے محافظ کبھی نہیں مرتے۔ ان کی قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صحافت صرف پیشہ نہیں یہ انسانیت کا ضمیر ہے اور جس قوم کے پاس ضمیر موجود ہو وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔

یہ کالم ان تمام صحافیوں کے نام ہے جو خاموشی اور خوف کے باوجود سچ کی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہی حق ہے۔ ان کے خون سے روشن یہ درس ہمیں ہر لمحہ یاد رکھنا چاہیے، تاکہ ظلم کے اندھیروں میں بھی ایک روشنی موجود رہے اور صحافت کی یہ مشعل کبھی بجھنے نہ پائے۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں ان کا نام دہراتی رہوں گی، ہر لفاظ میں ہر سانس میں کیونکہ ان کے بغیر سچ کا مطلب نامکمل ہے۔ اناس الشریف، محمد قریقہ، ابراہیم زاہر، محمد نوفل یہ صرف لوگ نہیں یہ روشنی ہیں یہ یادیں ہیں یہ سچ کے محافظ ہیں اور جب تک یادیں زندہ ہیں سچ بھی زندہ رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہیں اور ہے اور ہیں کہ ہیں یہ

پڑھیں:

انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال

واشنگٹن میں موجود ڈان اخبار سے منسلک سینیئر صحافی انور اقبال کا کہنا ہے کہ انڈیا پر امریکا کی جانب سے پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول اب امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیرف جنگ کے باوجود بھارت اور امریکا کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں جاری

وی نیوز کے پروگرام وی ورلڈ میں بات کرتے ہوئے انور اقبال نے بتایا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کی خرابی سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ س کی چھوٹی سی مثال کچھ یوں ہے کہ باسمتی چاول امریکا میں انڈیا سے آیا کرتا تھا لیکن اس وقت انڈین دکانوں میں بھی پاکستانی چاول نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ سستا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بھارت پر طویل المدتی امریکی پابندیاں لگتی ہیں تو پاکستان مصالحوں، گارمنٹس اور دیگر اشیا کی سپلائی بڑھا سکتا ہے لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی معیشت مضبوط ہو اور آپ امریکی مارکیٹ میں سستے داموں چیزیں پہنچا سکیں۔

’اس وقت دنیا پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کر رہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان جو چاہ رہا تھا وہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے یہ چاہتا تھا کہ اسے انڈیا، ایران یا افغانستان کی عینک سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جائے جس نے دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ایٹمی ہتھیار بنائے۔

انور اقبال نے کہا کہ امریکا میں پاکستان کی اہمیت آیا مشرقِ وسطٰی کے تناظر میں بڑھی ہے یا افغانستان کے تناظر میں، اس سوال کےجواب میں انور اقبال نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت، افغانستان کے ساتھ جو سرحد ہے اس حوالے سے بھی پاکستان کی اہمیت ہے لیکن جس طرح سے پاکستان نے بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی میں مؤثر طریقے سے اپنا دفاع کیا ہے اس سے اقوام عالم میں پاکستان کا قد بڑھا ہے پاکستان کی اہمیت بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو لگتا تھا کہ چین کو قابو میں رکھنے کے لیے اُسے بھارت کی ضرورت ہے لیکن بھارت کو قابو میں رکھنے کے لیے اُسے پاکستان کی بھی ضرورت ہے کیوںکہ بھارت قابو سے باہر نکل سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کی معدنیات میں امریکا کو دلچسپی ہے اس کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان نہیں چاہتا کہ وہ ماضی کی طرح کسی بلاک کے ساتھ الحاق کر کے کسی دوسرے بلاک کے خلاف جنگ کرے اور اب یہ پاکستان کو سوٹ نہیں کرتا اور نہ ہی امریکا یہ چاہتا ہے اور نہ چین یہ چاہتا ہے۔

انور اقبال نے کہا کہ اس وقت پاکستان پالیسی ساز اداروں کے پاس سنہری موقع ہے کہ پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کروائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت مضبوط کرنی پڑے گی۔

مزید پڑھیے: بھارت امریکا تجارتی کشیدگی: مودی کی قوم سے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کی معیشت بہتر نہ ہو تو آپ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان کو اپنی معیشت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

’چینی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پاکستان کا جنگ جیتنا بھی اہم بات ہے‘

انور اقبال نے کہا کہ مئی میں ہونے والی پاک بھارت فوجی کشیدگی میں امریکا نے پاکستان کی کوئی فوجی مدد نہیں کی اور پاکستان نے یہ جنگ چینی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جیتی جس نے امریکا کو سوچنے پر مجبور کیا اور امریکا کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان مکمل طور پر چین کے ساتھ شامل ہو جائے اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان پر اُس کا کچھ نہ کچھ اثر قائم رہے۔

 ’اسرائیل جانتا ہے اس کے اقدامات قانونی نہیں‘

اسرائیل کی جانب سے صمود فلوٹیلا پر حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل شروع سے ایک غیر مقبول ریاست ہے اور اُنہیں بھی پتا ہے کہ کل وہ مقبول ریاست نہیں بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن نے پاکستانی مندوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ ہماری مخالفت کریں گے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل جانتا ہے کہ جب تک مغربی طاقتیں اُس کے ساتھ ہیں اُسے کچھ نہیں ہو سکتا اور اسرائیلیوں کو اپنی دفاعی طاقت، اپنے بین الاقوامی تعلقات پر بڑا بھروسہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب ممالک کی باتوں کو جھٹلا کے سروائیو کر سکتے ہیں اس لیے اُن کے لیے اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اُن کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

’مغربی دنیا میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں کمی آ رہی ہے‘

انور اقبال نے کہا کہ نئی نسل کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں کمی آ رہی ہے اور اس کے لیے اسرائیلی پریشان بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مخالف مظاہروں سے نئی نسل کو دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسرائیل مخالف مظاہروں میں یہودی بھی شرکت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا نے 32 کمپنیوں کو تجارتی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا، چین اور بھارت کی فرمیں بھی متاثر

انہوں نے کہا کہ نئی نسل ابھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں اور جب وہ ہو جائے گی تو اسرائیل کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس وقت جو نسل حکمران ہے وہ اسرائیلی کی حمایت کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا میں پاکستانی چاول بھارت بھارت پر امریکی پابندیاں پاکستان سینیئر صحافی انور اقبال

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، ہمیں کوئی فکر نہیں، ہر وقت جواب دینے کیلیے تیار رہتے ہیں: سیکیورٹی ذرائع
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • پولیس گردی کی مذمت، صحافیوں کے ساتھ ہیں: فضل الرحمن 
  • مشاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلیے بااثر یورپی ملک سے رابطے میں ہیں،اسحق ڈار
  • لاہور، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر کی مزار شہید ڈاکٹر پر حاضری
  • پشاور میں گزشتہ روز دھماکے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار کی نماز جنازہ ادا
  • اسلام آباد پریس کلب میں پولیس داخل اور توڑ پھوڑ، ’اب تو صحافی پریس کلب میں بھی محفوظ نہیں’
  • غزہ: موت کے سائے میں صحافت
  • حکومت سے ماضی میں جیسے علیحدہ ہوئے وہ ہمیں یاد ہے بھولے نہیں‘کائرہ
  • شہید حسن نصراللہ کے افکار و مشن کو زندہ اور عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، متحدہ علماء محاذ