کتاب سے دوری؛ کیا ہماری تہذیب کے خدوخال مٹ رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
یہ کہانی صرف ایک شہر یا ایک گھر کی نہیں، بلکہ پورے پاکستانی معاشرے کی ہے۔ یہ وہ منظر ہے جہاں ہماری تہذیبی شناخت کی بنیادیں، یعنی ہماری زبان، ہماری تاریخ، ہمارا ادب اور ہماری اقدار، سب کچھ کتابوں سے دوری کی نذر ہو رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب نئی نسل کے ہاتھوں میں رنگین کتابوں اور کہانیوں کا جہان ہوتا تھا، اور آج ان کے ہاتھ میں ’اسکرین ٹائم‘ کا ایک گمنام ڈیٹا تھما دیا گیا ہے۔ یہ اسکرین، جو بظاہر ہمیں پوری دنیا سے جوڑتی ہے، درحقیقت ہمیں اپنی جڑوں سے کاٹ رہی ہے۔ یہ صرف علم کا مسئلہ نہیں، یہ ہماری روح کا مسئلہ ہے۔
ہمارے معاشرے کے جو ستون کبھی کتابوں کے سہارے کھڑے تھے، وہ اب ایک ایک کر کے لرز رہے ہیں۔ ان کی لرزش کی آواز آج ہمیں نہیں سنائی دے رہی، لیکن کل جب یہ ستون گریں گے تو ہمیں کچھ بھی بچانے کو نہیں ملے گا۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کا سروے (2023) اس بات کا گواہ ہے کہ ہماری نئی نسل ایک خطرناک فکری انحطاط کا شکار ہے۔ اس سروے کے انکشافات دل دہلا دینے والے ہیں کہ 72 فیصد طلبا سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جعلی خبروں کو بغیر کسی تصدیق کے شیئر کرتے ہیں۔ اور وہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے کہ آیا یہ خبر سچ ہے یا نہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ’’کتابیں ہمیں غور کرنا سکھاتی تھیں، کتاب خوانی سے دور ہو جانے والے آج کل کے نوجوان ’شیئر بٹن‘ دبانے سے پہلے ’سوچ بٹن‘ استعمال ہی نہیں کرتے‘‘۔
یہ فکری غلامی کی پہلی سیڑھی ہے! یہ حقیقت ہے کہ جب آپ کا ذہن خود سوچنا چھوڑ دیتا ہے تو پھر کوئی اور آپ کے لیے سوچنے لگتا ہے۔ یہ فکری غلامی کی وہ کڑی ہے جو ہمیں اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا رہی ہے۔
کتابوں سے دوری نے ہمارے شناختی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، ہم اپنی تاریخ سے بیگانہ ہو گئے ہیں ہمارے اسلاف کی داستانیں اور بزرگوں کی کہانیاں ڈیجیٹل سیلاب میں بہنے لگی ہیں۔ کتابوں میں لکھی ہماری تاریخ، ہمارے بزرگوں کی وہ داستانیں ہیں جو سینہ بہ سینہ اوراق میں منتقل ہوا کرتی تھیں۔ مگر اب کیا؟
’تہذیبی ورثہ فاؤنڈیشن‘ کی 2024 کی رپورٹ کہتی ہے کہ 18 سے 25 سال کی عمر کے 68 فیصد نوجوان قائداعظم کے 1947 کے تاریخی خطوط سے بالکل ناواقف ہیں۔ انہیں اپنی تاریخ کے ہیروز کی جدوجہد کی کہانیاں بھی معلوم نہیں۔
ممتاز ادیب جمیل الدین عالی نے اپنی وفات سے قبل ’بی بی سی اردو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کتنا سچ کہا تھا ’’ہم نے کتابیں الماریوں میں بند کیں، اور نوجوانوں نے تاریخ، ٹک ٹاک پر ڈھونڈنی شروع کردی۔ اب ’پاکستان‘ ان کےلیے صرف ایک جیو ٹیگ ہے، جذبات نہیں!‘‘ یہ سچائی دل چیر کر رکھ دینے والی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اپنی شناخت سے اتنا دور کر دیا ہے کہ اب وہ اپنا ماضی بھی ڈیجیٹل اسکرین پر تلاش کرتے ہیں۔
زبان کسی بھی تہذیب کی روح ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اردو کی رگوں میں زہر گھول دیا ہے۔ اردو لغت بورڈ اسلام آباد کے اعداد و شمار (2023) کے مطابق گزشتہ 20 سال میں اردو کے 60 فیصد محاورے (جیسے ’آنکھ کا تارا‘ یا ’دل کا ٹکڑا‘) نوجوانوں کے ذخیرۂ الفاظ سے غائب ہو چکے ہیں۔ زبان کا وہ شیریں حسن جو کبھی ہماری گفتگو کا حصہ تھا، اب تقریباً ناپید ہوچکا ہے۔
معروف شاعرہ کشور ناہید نے اپنے کالم ’’زبان مر رہی ہے‘‘ میں یہ سچ بڑی بے باکی سے لکھا تھا کہ ’’جب نوجوان لڑکی اپنے محبوب کو ’آئی لوو یو‘ لکھتی ہے تو سمجھ لیں کہ میرؔ کی غزلیں اور غالبؔ کے خطوط ہماری اجتماعی یادداشت سے رخصت ہوچکے!‘‘ یہ صرف الفاظ کا مسئلہ نہیں، یہ ہماری زبان کی خوبصورتی اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی پوری تہذیبی تاریخ کا زوال ہے۔
کتابوں سے دوری کے باعث ہمارے تخیل کی موت ہونے لگی ہے اور اسکرین ٹائم نے ہمارے خواب بھی چرا لیے ہیں۔ تخیل وہ قوت ہے جو، انسان کو آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ مگر جب انسان کو سوچنے کا موقع ہی نہ ملے تو تخیل کیسے جنم لے گا؟
نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) لاہور کے طلبا کے پورٹ فولیو کا تقابلی جائزہ (2010 vs 2024) واضح طور پر دکھاتا ہے کہ ادبی حوالوں پر مبنی تخلیقی کاموں میں 70 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ نوجوان اب کتابوں سے متاثر ہوکر نئے جہان تخلیق نہیں کر رہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عائشہ ملک نے اپنی تحقیق ’’ڈیجیٹل ایج اینڈ دی ڈسکنیکٹڈ مائن‘‘ میں اس صورتحال کا درست تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کتابیں بچوں کو خواب دکھاتی تھیں، اور اب موبائل نے انہیں ’کنٹینٹ کنزیومرز‘ بنا دیا ہے۔ مقام فکر یہ ہے کہ جس نسل کا تخیل مار دیا جائے، وہ نسل تہذیب، تمدن اور اخلاقی اقدار کی آبیاری کیسے کر پائے گی؟‘‘ یہ ایک ایسی سچائی ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو کس قسم کے مستقبل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
کتابوں سے دوری کا ایک نتیجہ سماجی دیوالیہ پن اور خاندان کا بکھراؤ بھی ہے۔ خاندان کسی بھی معاشرے کی سب سے بنیادی اکائی ہے۔ مگر یہ اکائی بھی بکھرتی جارہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کا لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے 500 خاندانوں پر کیا گیا سروے بتاتا ہے کہ 89 فیصد گھرانوں میں شام کی وہ اجتماعی سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں جہاں کہانی سنانے، مباحثے کرنے اور اکٹھے وقت گزارنے کا رواج تھا۔
اور اب آپ ذرا اس منظر کو تصور کیجیے کہ سردی کی ایک شام، اسلام آباد کے ایک عالیشان بنگلے میں چار افراد۔ والد صاحب اخبار پڑھ رہے ہیں، ماں ٹی وی دیکھ رہی ہے، بیٹا موبائل گیم کھیل رہا ہے، اور بیٹی انسٹاگرام کی رییلز بنا رہی ہے۔ چاروں ایک ہی کمرے میں ہیں، مگر چار الگ دنیاؤں میں قید ہیں۔ یہ صرف ایک بنگلے کا منظر نہیں، یہ ہر اس گھر کا منظر ہے جہاں ’کتاب‘ کی جگہ ’اسکرین‘ نے لے لی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کا 2024 کا ڈیٹا کہتا ہے کہ ایک اوسط پاکستانی روزانہ پانچ گھنٹے ٹک ٹاک استعمال کرتا ہے، جبکہ مطالعے کا وقت محض 12 منٹ رہ گیا ہے۔ یہ اعدادوشمار کسی خوفناک خواب سے کم نہیں۔ یہ ڈیجیٹل یلغار ہماری تہذیب کے خلاف ایک خاموش سازش ہے، جس کا ہمیں ادراک ہی نہیں۔
اور یہ کتنا کرب انگیز ہے کہ ہم رات سونے سے پہلے کسی کتاب کے چند اوراق پڑھنے کے بجائے سیکڑوں ’شارٹ ویڈیوز‘ ضرور دیکھتے ہیں ورنہ نیند نہیں آتی۔
کتابوں سے دوری پر فکر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کتابیں مہنگی بہت ہو گئی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے مگر ’بات ہے رسوائی کی‘، کتابوں کے پبلشر اب ڈیجیٹل کتابوں کی دنیا میں قدم رکھنے کےلیے پر تول رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ کتاب خوانی کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے معاشرتی، تہذیبی اور ریاستی سطح پر اس مسئلے کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ’خواندگی مارچ‘ اور موبائل فری لائبریریاں قائم کرنے کے پروجیکٹ فائلوں کا پیٹ تو بھرتے رہیں گے۔ پنجاب کے 100 اسکولوں میں ’30 منٹ بک ریڈنگ‘ کا لازمی قرار دیا جانا بھی ایک اچھا آغاز ہے۔ کتابیں سستی کرو۔ الماری کھولو، کتابیں نکالو! اور بچوں کے سامنے بیٹھ کر کتابیں پڑھو۔ بصورت دیگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو تہذیب کے کھنڈرات بھی دے کر نہیں جائیں گے؟
ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ زبان کی شیریں شاعری کو ’میمرز‘ نے کھا لیا ہے، تاریخ کے اوراق ’وائرل نیوز‘ بن گئے ہیں، اور رشتوں کی گہرائی ’اسٹیٹس اپ ڈیٹس‘ میں ڈوب گئی ہے۔
جیسے فصل کو کیڑا لگ جاتا ہے، اسی طرح ہماری تہذیب کو ’موبائل‘ لگ گیا ہے، الماریوں میں بند کتابیں چلّا رہی ہیں ’’ہمیں زندہ رکھو، ورنہ تمہیں زندہ نہیں رکھا جائے گا!‘‘
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کتابوں سے دوری ہماری تہذیب ہے کہ ہم ہم اپنی رہے ہیں رہی ہے دیا ہے
پڑھیں:
کشمیر کی تاریخ پر 25 کتابوں کی پابندی، بھارت کی ایک لایعنی کوشش
آزاد کشمیر کی فضاؤں میں کتاب کی خوشبو کو کبھی قید نہیں کیا جا سکا لیکن اس بار خبر کچھ اور ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 25 ایسی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی ہے جو تاریخ کی گواہی دیتی ہیں، سوال اٹھاتی ہیں اور حقیقت کی پرتیں کھولتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر آزاد کشمیر میں اظہار تشکر ریلیوں کا انعقاد
حکم براہِ راست بھارتی آئین کے نئے فوجداری قانون Bharatiya Nyaya Sanhita (BNSS) 2023 کے تحت جاری ہوا ہے جس میں کتابوں کو ’علیحدگی پسند بیانیہ‘ قرار دے کر نہ صرف ان کی اشاعت بلکہ ان کی تقسیم اور فروخت کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔
ان کتابوں میں Arundhati Roy کی Azadi، A.G. Noorani کا The Kashmir Dispute 1947-2012، Sumantra Bose، Christopher Snedden، Victoria Schofield اور David Devadas جیسے عالمی شہرت یافتہ مؤرخین اور تجزیہ کاروں کے کام بھی شامل ہیں۔ حکم نامے میں ان کتابوں کو ’ضبط‘ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے اور قانون شکنی کی صورت میں مجرم کو 3 سال سے عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے 6 سال مکمل، آزاد کشمیر کے شہریوں کے تاثرات
آزاد کشمیر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ کتاب پر پابندی سوچ پر پابندی ہوتی ہے جو مستقبل کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کو دفنانے کی کوشش ہے مگر تاریخ مٹی میں بھی سانس لیتی ہے۔ دیکھیے فرحان طارق کی یہ ویڈیو رپورٹ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر بھارت کشمیر پر کتابوں پر پابندی کشمیر پر کتابیں کشمیر کی تاریخ مقبوضہ کشمیر