تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 17 مئی ۔2025 )ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران کو امریکہ کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جوہری معاہدے کے بارے میں کوئی تحریری تجویز موصول نہیں ہوئی عراقچی نے ”ایکس“ پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایران کو نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ کسی قسم کی کوئی تحریری تجویز ملی ہے جو پیغامات ہم تک پہنچ رہے ہیں اور دنیا تک پہنچ رہے ہیں وہ اب بھی الجھاﺅ اور تضاد کا شکار ہیں.

(جاری ہے)

بیان میں انہوں نے کہاکہ اس کے باوجود ایران اپنے موقف میں پرعزم اور واضح ہے یعنی ہمارے حقوق کا احترام کریں، اپنی پابندیاں ہٹائیں، ہم معاہدے تک پہنچ جائیں گے . عراقچی نے زور دے کر کہا کہ ایران کسی بھی صورت اپنے اس جائز اور حاصل شدہ حق سے دست بردار نہیں ہوگا کہ وہ پر امن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی کرے یہ حق جوہری عدم پھیلاﺅکے معاہدے کے تحت تمام رکن ممالک کو حاصل ہے انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ باہمی احترام پر مبنی مکالمے کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور ہر قسم کے دباویا مسلط کردہ شرائط کو مسترد کرتے ہیں .

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا

پڑھیں:

ٹرمپ کے 60 روزہ جنگ بندی معاہدے پر اسرائیل متفق؛ حماس کا ردعمل بھی سامنے آگی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حماس نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے پیش کی گئی نئی 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز، جس پر اسرائیل نے اتفاق کر لیا ہے، ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچا دی گئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق، حماس کے ترجمان نے بتایا کہ تنظیم کے اعلیٰ رہنما اس پیشکش کا تفصیل سے جائزہ لے رہے ہیں۔

حماس کے سینئر رہنما طاہر النونو نے کہا ہے کہ “ہم سنجیدہ ہیں اور تیار بھی، اگر کوئی بھی تجویز جنگ کے مکمل خاتمے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو ہم اسے قبول کرنے کو تیار ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ حماس کے رہنما قاہرہ میں مصری اور قطری ثالثوں سے ملاقات کریں گے تاکہ اختلافات کو کم کر کے مذاکرات کی راہ دوبارہ ہموار کی جا سکے۔

ترجمان نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اس نے ماضی میں بارہا جنگ بندی معاہدوں کی یک طرفہ خلاف ورزی کی، جس سے اعتماد کو شدید نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ اگر عالمی طاقتیں اسرائیل کی ضمانت فراہم کریں، تو حماس اپنی شرائط کے تحت اس نئی تجویز پر غور کرنے کو تیار ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز بیان دیا تھا کہ اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ ہو چکا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ حماس بھی اس تجویز کو قبول کرے، بصورت دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ قطر اور مصر نے اس امن معاہدے کے لیے انتھک محنت کی ہے، اور “میں چاہتا ہوں کہ حماس یہ موقع ضائع نہ کرے، کیونکہ ایسا موقع دوبارہ شاید نہ ملے۔”

ایک اسرائیلی عہدیدار کے مطابق، صدر ٹرمپ کی اس مجوزہ پیشکش میں 60 روزہ جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا جزوی انخلا، انسانی امداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ، اور مستقبل میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کی طرف سے یقین دہانی شامل ہے۔

تاہم اس تجویز میں یرغمالیوں کی تعداد واضح نہیں کی گئی، مگر ماضی میں ایسی تجاویز کے تحت تقریباً 10 یرغمالیوں کی رہائی کی بات چیت ہوئی ہے۔

دوسری جانب حماس کا مستقل مؤقف ہے کہ وہ بقیہ تقریباً 50 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اس وقت ہی آمادہ ہوگی جب اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے انخلا کرے اور جنگ کا خاتمہ کرے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، رانا ثنا اللہ
  • مولانا سے عدم اعتماد  لانے پر کوئی بات نہیں ہوئی: رانا ثناء 
  • ٹرمپ کے 60 روزہ جنگ بندی معاہدے پر اسرائیل متفق؛ حماس کا ردعمل بھی سامنے آگی
  • میرے بیٹے عباس آفریدی کی موت حادثہ نہیں قتل ہے، سابق سینیٹر شمیم آفریدی
  • ایران کیخلاف جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر حملہ کیا گیا، برطانوی اخبار کا اعتراف
  • ایران نے جوہری مذاکرات کی بحالی کیلئے امریکا سے مکمل سیکیورٹی کی گارنٹی کا مطالبہ کر دیا
  •  علمی اداروں کی بندش یا ضم کرنے کی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں :وزیراعظم کی سینیٹر عرفان صدیقی سےملاقات میں گفتگو
  • ایران سے نہ بات ہو رہی ہے نہ کوئی پیشکش کی ہے؛ ٹرمپ
  • امریکہ سے مذاکرات کس شرط پرہوں گے ،ایران نے بتادیا
  • امریکہ نے کچھ حاصل نہیں کیا، ٹرمپ حقیقت چھپا رہے ہیں:خامنہ ای