کوئٹہ کے اسپتال میں پہلی مرتبہ بینٹال (bentall) پروسیجرسرجری کا آغاز کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق شیخ محمد بن زید النہیان اسپتال برائے امراض قلب کے ڈاکٹروں نے پہلی بینٹال سرجری کامیابی سے انجام دی ہے۔

اسپتال انتظامیہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بینٹال سرجری کی گئی ہے۔

انتظامیہ نے سرجری کے حوالے سے بتایا کہ بینٹال پروسیجر دل کے شریانوں کی پیچیدہ سرجری سے متعلق ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بلوچستان کے مریضوں کو اس سرجری کیلئے دیگر صوبوں میں جانا پڑتا تھا۔ اس اسپتال میں اس قسم کی مہنگی سرجریز سرکاری خرچ پر بالکل مفت کی جاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کیا جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ پانی پر ہوگی؟

جنوبی ایشیا میں جہاں زمین کی تہذیب ہزاروں برس پر محیط ہے، وہیں اس دھرتی کو جلا بخشنے والے دریا آج سیاسی قوت کے پنجے میں سسک رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اب اس نکتے پر آچکی ہے جہاں بارود کی بو نہیں، پانی کی روانی خطرہ بن گئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں پانی نہ صرف زندگی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک جغرافیائی و تزویراتی اثاثہ بھی ہے، جس پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں پانی کی تقسیم ایک مرکزی تنازع کے طور پر ابھری ہے، یہاں تک کہ بعض تجزیہ نگار اسے ممکنہ ’’ آبی جنگ‘‘ کی شروعات قرار دے رہے ہیں۔
1960 میں بھارت اور پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی میں جو ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کیا تھا، وہ بظاہر ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔

اس کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کو، اور تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو دیے گئے۔ یہ معاہدہ کئی دہائیوں تک امن کا ستون رہا، مگر اب اس کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔
بھارت نے پچھلے برسوں میں بگلیہار، رتلے اورکشن گنگا جیسے ڈیم تعمیرکیے جو کہ تکنیکی لحاظ سے معاہدے کی ’’سرحدی تشریحات‘‘ کے دائرے میں آ سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے یہ اقدامات آبی جارحیت کے مترادف ہیں۔ جب بھارتی وزیرِاعظم نے 2019 میں اعلان کیا کہ ’’ پاکستان جانے والے پانی کو روک دیا جائے گا ‘‘ تو یہ محض سیاسی بیان نہیں، ایک ماحولیاتی اور معاشی وارننگ تھی۔

پانی، جو زندگی کی علامت تھا، اب سیاسی سودے بازی کا آلہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت اسے زراعت اور توانائی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف پاکستان کے لیے یہی پانی زراعت کی بقا اور 24 کروڑ سے زائد افراد کی غذائی سلامتی کی ضمانت ہے۔ دریائے سندھ کی وادی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اگر یہ دریا سوکھنے لگے تو پاکستان صرف خشک نہیں، بھوکا بھی ہو جائے گا۔

پانی کی کمی صرف سیاست کا مسئلہ نہیں، یہ ایک ماحولیاتی بحران بھی ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ان دریاؤں کا منبع ہیں موسمیاتی تبدیلی کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں ان گلیشیئرزکا 30 سے 40 فیصد حصہ ختم ہو سکتا ہے، جس سے دریا پہلے سیلاب لائیں گے اور بعد میں سوکھ جائیں گے۔ مزید برآں، پانی کے بہاؤ میں کمی سے پاکستان کے جنوبی علاقے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان، شدید صحرا زدگی (desertification) کا شکار ہو رہے ہیں۔

مچھلی، جنگلی حیات، دریائی نباتات سمیت بہت کچھ زوال پذیر ہے۔ یہ صرف ’’ آبی بحران‘‘ نہیں، بلکہ ماحولیاتی زوال کا نکتہ آغاز ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پانی کی کمی کا براہِ راست تعلق تنازعات اور مہاجرت سے ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی سندھ و بلوچستان کے کسان نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں، اگر آبی دباؤ بڑھا، تو دیہی بدامنی، شہری بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کی نئی لہریں اٹھیں گی۔ دوسری طرف، بھارت میں پانی کی قلت خود ایک اندرونی چیلنج ہے، خاص طور پر دہلی، مہارا شٹرا اور مدھیہ پردیش میں۔ ایسے میں سرحد پار دریا کی روانی کو روکنا ایک جذباتی سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے۔

 لیکن اس کا انجام خطے کے دونوں ممالک کے لیے ہولناک ہوگا۔1997 میں ہونے والا اقوامِ متحدہ کا ’’بین الاقوامی آبی راستوں کا کنونشن‘‘  (UN Convention on the Law of the Non-Navigational Uses of International Watercourses) واضح کرتا ہے کہ سرحدی دریا مشترکہ اثاثہ ہوتے ہیں، اور ان کے استعمال میں انصاف، مساوات اور عدمِ ضرر (no harm) کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔

یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 مئی 1997 کو منظورکیا تھا۔ اس کا مقصد بین الاقوامی دریائوں اور آبی راستوں کے غیر بحری (non-navigational) استعمال سے متعلق قانونی اصول مرتب کرنا تھا جیسے آبپاشی، توانائی، پانی کی تقسیم، ماحولیاتی تحفظ، وغیرہ۔ لیکن نہ بھارت اس کنونشن کا حصہ ہے اور نہ پاکستان مشترکہ دریائوں پر ’’منصفانہ اور معقول استعمال‘‘ (equitable and reasonable utilization) کا اصول، دوسرے ملک کو ’’ نمایاں نقصان نہ پہنچانے‘‘ (no significant harm) کا اصول، معاہداتی تعاون، معلومات کا تبادلہ اور تنازعات کا حل اور طریقہ کار اس کے معاہدے کے بنیادی اصول ہیں۔

پاکستان نے اس کنونشن کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن ابھی تک دستخط یا توثیق (ratification) نہیں کی۔ بھارت نے اس کنونشن کے خلاف ووٹ دیا تھا اور وہ بھی اس کا فریق (party) نہیں ہے۔ یعنی دونوں ممالک ابھی تک اس کنونشن کے پابند نہیں اور اس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دریائوں کے حقوق و فرائض کے حوالے سے قانونی خلا موجود ہے۔2024 تک صرف 37 ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے، اور یہ 2014 میں نافذ العمل ہوا تھا (35 توثیقوں کے بعد)۔ تاہم بڑے ممالک جیسے چین، ترکی، بھارت، پاکستان اور مصر اس کا حصہ نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب عالمی ادارے بڑے پیمانے پر آبی انصاف کی ضمانت نہیں دے سکتے، توکیا انحصار صرف دو طرفہ اخلاقیات پرکیا جا سکتا ہے؟

یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب پانی جیسے قدرتی وسائل پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان دشمنی اتنی بڑھ جائے کہ وہ قومی سلامتی سے جڑ جائے، تو نتیجہ صرف سفارتی کشیدگی نہیں رہتا بلکہ وہ عسکری پوزیشننگ، جنگی بیانات اور بالآخر ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی سے استعمال تک جا پہنچتا ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ 2019 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان متعدد مرتبہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اور ایک موقع پر بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک، جب کہ پاکستان کی جانب سے فضائی رد عمل دیکھا گیا۔ اگر اس قسم کی کشیدگی پانی جیسے حساس مسئلے سے جڑ جائے، تو اس امر کا تصورکرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی معمولی فنی یا فوجی غلط فہمی کے نتیجے میں ایٹمی تصادم کا امکان بھی موجود ہو سکتا ہے۔

ماہرینِ تزویرات خبردار کر چکے ہیں کہ ’’آبی مسئلہ، اگر حل نہ ہوا، تو یہ جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔‘‘ اس جنگ کا دائرہ صرف فوجی تنصیبات تک نہیں، بلکہ کروڑوں شہریوں، ماحولیات، معیشت اور آیندہ نسلوں تک پھیلے گا۔ ایک ایٹمی دھماکے سے زیادہ خطرناک وہ سیاسی ضد ہوگی جو پانی کو ایندھن بنائے گی۔ہم پانی کو جنگ کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے امن کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔

مشترکہ ڈیمز،آبی تحقیقاتی مراکز اور موسمیاتی ہم آہنگی کے منصوبے خطے میں اعتماد کی فضا پیدا کر سکتے ہیں۔ دریا کی روانی اگر دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، مواصلات اور تعلق کی راہ بنے تو شاید بارود کی بو کو دریا کی خوشبو میں بدلا جا سکتا ہے۔

آج جنوبی ایشیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دریا کی ہر بوند فیصلہ کن ہے، اگر یہ بوند امن کی ہو تو خوشحالی آئے گی، لیکن اگر یہی بوند غصے، انا اور طاقت کی بھینٹ چڑھی، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پانی کی جنگ کسی فاتح کو نہیں صرف پیاسے لوگوں کو جنم دے گی۔کیا ہم دریا کو دشمن بنائیں گے یا دوست؟
 

متعلقہ مضامین

  • کیا جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ پانی پر ہوگی؟
  • محکمہ اوفاق کے ملازمین دکانوں کو سیل کرکے ذاتی اکاؤٹس میں پیسے مانگ رہے ہیں، تاجران بلوچستان
  • کنول شوزب کا ویڈیو لیک ہونے کے بعد پہلی بار علیمہ خان سے آمنا سامنا
  • کوئٹہ: خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملہ، 4 اہلکار شہید
  • کرسٹیانو رونالڈو نے ایک مرتبہ پھر بڑا اعزاز حاصل کر لیا
  • پاکستان نے ایک مرتبہ پھر سفارتی برادری کو اعتماد میں لے لیا
  • کراچی، علماء قتل کیس میں ملزمان کو 4 مرتبہ سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی گئی
  • کراچی: علمائے دین کے قتل میں ملزمان کو 4 مرتبہ سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنادی گئی
  • کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں ویسکیولر سرجنز کی شدید قلت کا انکشاف