قومی ٹیم کے نئے ہیڈکوچ مائیک ہیسن نے مبینہ طور پر بابراعظم اور محمد رضوان کو دوبارہ ٹی20 سیٹ اَپ میں لیکر آجائیں گے۔

میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نو منتخب پاکستانی ٹیم کے ہیڈکوچ مائیک ہیسن بابراعظم اور محمد رضوان کو دوبارہ ٹی20 اسکواڈ میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں اور انہیں آئندہ ایشیاکپ 2025 اور ٹی20 ورلڈکپ 2026 کیلئے ٹیم میں واپسی کروانا چاہتے ہیں۔

بنگلادیش کے خلاف آئندہ ہوم سیریز میں ہیڈکوچ رضوان اور بابراعظم کی جوڑی واپس لانے کے خواہشمند ہیں جبکہ دورہ نیوزی لینڈ میں بدترین کارکردگی پر انہیں ٹی20 اسکواڈ سے ڈراپ کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بابراعظم نے کوہلی اور بمراہ کو "ٹی20 ورلڈ الیون" سے نکال دیا

ہیڈکوچ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہیسن بابراعظم اور رضوان کی تکنیک کو بہتر بنانے کے علاوہ انکے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ جارحانہ انداز کیساتھ کھلوایا جاسکے۔

مزید پڑھیں: رضوان کے "وِن اور لَرن" سے متعلق بیان پر بابراعظم بھی بول اُٹھے

پاکستان کی اگلی ٹی20 سیریز بنگلادیش کیخلاف شیڈول ہے جس میں دونوں کی واپسی متوقع ہے جبکہ انہیں کَن نمبرز پر کھلایا جائے گا، اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کیونکہ فخر زمان اور صائم ایوب بھی ٹیم میں واپس آچکے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جولائی 2025ء) ہجرت کر کے جرمنی آنے والے بہت سے غیر ملکی اپنے بہتر مستقبل اور سماجی استحکام کے خواب لیے یورپ کے قلب میں واقع اس ملک کا رُخ کرتے ہیں۔جرمن معاشرے میں ضم ہونے کی شرائط پوری کرنے کے باوجود ان میں سے اکثر خود کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں نظر انداز ہوتا اور الگ تھلگ کر دیا گیا محسوس کرتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب بہت سے ایسے تارکین وطن کی کہانیوں میں ملتا ہے۔

''وہ سب کچھ جو مجھے جرمنی لے کر آیا وہ یہاں نہیں ہے۔ ایک وقت یہ آیا کہ میں نے سوچا بس اب کافی ہو گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے، اگر کبھی ہوئے، اس ملک میں پروان چڑھیں۔‘‘ یہ الفاظ ہیں گیانس این کے، جنہوں نے اپنا آخری نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کی۔

(جاری ہے)

گیانس اٹھارہ سال کی عمر میں یونانی جزیرے ساموس کو چھوڑ کر جرمنی میں سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ انہوں نے ترک وطن کا فیصلہ جرمنی میں ایک مضبوط سماجی انصاف کے نظام اور یہاں مستقبل کے بہتر مواقع کی شہرت سے مرعوب ہوکر کیا۔

2020ء میں، ماسٹر کی ڈگری ان کے ہاتھ آ چُکی تھی، لیکن پھر انہوں نے 16 سال بعد اپنے وطن واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔

انہوں نے مغربی جرمنی کے شہر ایسن میں پرائیویٹ سیکٹر میں پراجیکٹ مینیجر کے طور پر کام بھی کیا اور بعد ازاں ایک سول انجینئر کے طور پر پبلک سیکٹر میں پل کی تعمیر کا کام انجام دینے لگے۔ آخر کار انہیں فری لانسر کے طور پر اپنی قسمت آزمانا پڑی۔

39 سالہ گیانس این نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے وہاں (جرمنی ) میں زندگی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرتا رہا۔

‘‘

گیانس نے ایک حیرت انگیز مثال دیتے ہوئے کہا، ''میں ایک تعمیراتی سائٹ پر کام کر رہا تھا۔ میرے کلائنٹ نے حتمی رسید ادا کرنے سے انکار کر دیا- یہ ایک لاکھ یورو کی خطیر رقم تھی۔ جب میں نے اُن سے اپنے کام کی یہ فیس طلب کی تو ان کا جواب تھا، میں تمہیں یہاں جرمنی میں امیر نہیں ہونے دوں گا۔‘‘

گیانس کے بقول یہ رویہ ان کے غیر ملکی پس منظر سے ناراضگی اور مخالفت کا اظہار تھا۔

انہیں شدت سے یہ احساس ہوا کہ انہیں کبھی بھی صحیح معنوں میں قبول یا تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ان کے اس احساس نے انہیں بالآخر جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا۔

گیانس نے یہ سمجھنے کے بعد کہ چاہے وہ جرمن معاشرے میں کتنا ہی مربوط اور ضم کیوں نہ ہوجائیں، انہیں ہمیشہ ایک''یونانی‘‘ کے طور پر دیکھا جائے گا۔

گیانس نے مزید کہا،''پہلے آپ یونیورسٹی میں سست یونانی کہلاتے ہیں، پھر کام پر کرپٹ یونانی۔

میں یونانی ہونے پر فخر کرتا ہوں، لیکن اس سوچ نے آخرکار میرے لیے زہر بننا شروع کر دیا۔‘‘ جرمن زبان میں مہارت کے بغیر 'بھوت‘کی حیثیت

تینتیس سالہ ترک نژاد اُتکو سین پیشے کے لحاط سے سائبر سکیورٹی انجینئر ہیں۔ انہوں نے بھی تین سال کے بعد جرمنی چھوڑ دیا - وہ بھی گیانس جیسے احساسات رکھتے ہیں۔ برلن میں اپنے پہلے سال کو ''ایک سہاگ رات‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے سین نے ڈوئچے ویلے ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اس امر کا بھرپور ادراک تھا کہ جرمن زبان میں مہارت کے بغیر کسی بھی نئے غیر ملکی کے لیے جرمنی میں زندگی بسر کرنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں،''ایک ترک باشندے کے طور پر میں نے خود کو ہمیشہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح محسوس کیا۔ میں نے سوچا کہ جرمن کمیونٹی کا حصہ بننے میں کئی دہائیاں لگیں گی بلکہ شاید ایسا کبھی نہیں ہو پائے گا۔‘‘

سین جرمنی میں روزمرہ کے امتیازی سلوک کے بارے میں ترک زبان میں یو ٹیوب پر ایک ویڈیو پر پوسٹ کرنے کے فوراً بعد لندن چلے گئے۔

اس ویڈیو نے تقریباً نصف ملین ویوز حاصل کیے۔ جرمن زبان کی روانی بھی ہمیشہ مدد نہیں کرتی

بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کالینا ویلیکووا کے مطابق جرمن زبان روانی سے بولنا جرمنی میں انضمام کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم نہیں کرتا۔ 35 سالہ ویلیکووا نے بون میں نو سال تعلیم حاصل کرنے اور سماجی خدمات سر انجام دینے میں گزارے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی یونیورسٹی کے ابتدائی سالوں کے دوران ہی محسوس ہو گیا تھا کہ مہارت سے جرمن بولنے کے باوجود لوگ انہیں قریب نہیں آنے دیتے۔

وہ کہتی ہیں،'' میں ایک دن کسی سے بات کروں تو اگلے دن ایسا لگتا تھا کہ وہ مجھے پہچانتا ہی نہیں۔‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ سماجی دوری کا احساس کالینا ویلیکووا کے لیے بڑھتا گیا۔

2021ء میں، ویلیکووا بون سے صوفیہ کے لیے روانہ ہوئیں، جہاں اب وہ بطور پراجیکٹ مینیجر کام کرتی ہیں۔

جرمنی کو کیا کرنا چاہیے؟

ان تمام کہانیوں کے پیچھے ایک مشترکہ احساس پایا جاتا ہے۔

یہ سچے کردار اس امر کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ جرمنی کو سیاسی اور سماجی ہم آہنگی اور کھلے پن کو فروغ دینا ہوگا۔ تارکین وطن کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جرمن معاشرے میں وسیع پیمانے پر تعلیم او تربیت اشد ضروری ہے۔

اس ضمن میں نسل پرستی اور اجانب دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے حکومتی اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے نیز کم آمدنی والے افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی بھی متعارف کروائی جانا چاہیے۔ مذکورہ افراد کی کہانیاں جرمنی میں سماجی تبدیلی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ادارت : شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • اداکار ثاقب سمیر کا جن سے سامنا ہوا تو جن نے انہیں کیا کہا؟
  • بین اسٹوکس نے اینڈریو فلنٹوف کا وکٹوں کا ریکارڈ برابر کر دیا
  • بین اسٹوکس نے ٹیسٹ میں سابق ہم وطن کھلاڑی کا ریکارڈ برابر کر دیا
  • انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟
  • لاہور سے معروف ٹک ٹاکر ایک مرتبہ پھر گرفتار
  • بھارت کا ایک مرتبہ پھر راہ فرار، ایس سی اووزرا سربراہی کانفرنس میں عدم شرکت 
  • دبئی میں جعلی پولیس بن کر لوٹنے والے 5 ایشیائی باشندوں کو قید کی سزا
  • ’لامہ‘ جانشینی کا سلسلہ جاری رہے گا، دلائی لامہ
  • شندور فیسٹول کے موقع پر حکومت کا ہیلی کاپٹر ایک مرتبہ استعمال ہوا: بیرسٹر سیف
  • ویمن ٹی20 رینکنگ؛ بولنگ میں سعدیہ اقبال کی پہلی پوزیشن برقرار