کچھ لوگوں کو جنرل عاصم منیر کا فیلڈ مارشل بننا ہضم نہیں ہورہا. رانا ثنااللہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 21 مئی ۔2025 )وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں کو جنرل عاصم منیر کا فیلڈ مارشل بننا ہضم نہیں ہورہا،پاکستان اور بھارت کے درمیان پسِ پردہ مذاکرات کا عمل جاری ہے ایک انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے معرکے میں ملک کا موثر دفاع کیا، دشمن کےخلاف ملک کے موثر دفاع میں پوری قوم شامل تھی، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں افواج نے جرات مندانہ دفاع کیا.
(جاری ہے)
رانا ثنااللہ نے کہا کہ دشمن کےخلاف معرکے میں روح رواں جنرل عاصم منیر ہی تھے، دشمن کےخلاف کامیابی سے ملک کو عزت اور مقام ملا ہے، ملک کو عز ت ملی اس کے روح رواں جنرل عاصم منیر ہیں انہوں نے کہا کہ پوری قوم چاہتی تھی کہ جنرل عاصم منیر کو اعلی ترین اعزاز دیا جائے، اعزاز ملنے سے فیلڈ مارشل عاصم منیرکی مدت ملازمت پر فرق نہیں پڑے گا ، فیلڈ مارشل کا اعزاز جنرل عاصم منیر کےساتھ ہمیشہ رہےگا، حکومت فیلڈ مارشل کا اعزاز دے سکتی ہے،مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ اس سے متعلق آرڈر نہیں کرسکتا، فیلڈ مارشل کے اعزاز سے متعلق آرمی ایکٹ میں ذکر موجود ہے، ہائیکورٹ کسی بھی اعزاز سے متعلق حکومت کو ڈائریکشن نہیں دے سکتی. انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل ایک اعزاز ہے جو تاحیات ساتھ رہے گا، فیلڈ مارشل اعزاز دینے کی مثال آرمی ایکٹ میں موجود ہے ایئرچیف کی خدمات کے اعتراف میں مدت ملازمت بڑھانے کی بات کی گئی، کوئی کسی بھی رینک میں ہو حکومت کے پاس مدت بڑھانے کا اختیار ہے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا توایئرچیف کی مدت ملازمت سے متعلق تفصیل ہوگی، جنہوں نے اس معرکے میں حصہ لیا ان سب کو اعزازات دیے جائیں گے. دریں اثنا ایک اور انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پسِ پردہ مذاکرات کا عمل جاری ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات ڈی جی ایم اوز کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے علاوہ ہیں، اور جلد ان کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے رانا ثنااللہ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت ملک کی اندرونی سیاسی صورتِ حال کے باعث ان مذاکرات کا کھلے عام اعتراف نہیں کر سکتے، تاہم دونوں ممالک کے درمیان خفیہ رابطے جاری ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رانا ثنااللہ نے کہا نے کہا کہ
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔