بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو آزادیٔ کشمیر پر 6 دریا پاکستان کے ہونگے، ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو آزادیٔ کشمیر پر 6 دریا پاکستان کے ہوں گے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے بھارتی فوج کو ایسا سبق سکھایا ہے جو وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ بھارتی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے جو عسکری حکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ کئی دہائیوں تک زیر مطالعہ رہے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستانی فوج نے بھارت پر برتری حاصل کی ہے اور حالیہ حملے میں بھارت کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کا حوصلہ اور بھارت پر حاصل کی گئی برتری نے عوام کے دلوں میں فوج کی محبت کو بڑھا دیا ہے اور اب فوج عزت اور فخر کی علامت بن چکی ہے۔
اس سوال پر کہ حالیہ جھڑپوں میں پاکستان اور بھارت میں سے کون فاتح رہا؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ جنگ ہماری ہے اور فتح صرف اللہ کی ہے، لہٰذا میرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب بین الاقوامی برادری، پوری دنیا اور غیر جانبدار مبصرین کے پاس ہے، کیونکہ وہ اس کا درست جواب دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سوال اس وقت واضح ہو جاتا ہے جب آپ پاکستان کی سڑکوں اور شہروں کا دورہ کریں، اس کا جواب آپ پاکستانی عوام کے چہروں پر دیکھ سکتے ہیں، ان کی خوشیاں اور جشن جو وہ ابھی منا رہے ہیں، لہٰذا اس سوال کا جواب بہت ہی واضح ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ معاملہ صرف عسکری میدان تک محدود نہیں ہے، نہ ہی یہ محض فضائی اور زمینی لڑائیوں تک محدود ہے، اس تنازع میں پاکستان نے جھوٹ، فریب، دباؤ، جارحیت اور بھارت کے دیگر کئی پہلوؤں کا پردہ چاک کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے ایک فرضی کہانی گھڑی اور پاکستان کا مطالبہ بہت سادہ تھا، اگر آپ کے پاس کسی پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہے تو براہِ کرم وہ ثبوت پیش کریں، اسے بین الاقوامی برادری، کسی تیسرے فریق یا کسی معتبر ادارے کے حوالے کریں تاکہ شفاف تحقیقات ہو سکیں، بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور آج تک وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ ( بھارت) اپنی فضائیہ کی پوری طاقت اور دستیاب دفاعی نظام کے ساتھ اپنی مرضی کے وقت اور جگہ پر آئے، ہم نے ان کے 6 ہوائی جہاز گرا دیے، لہٰذا ہمیں وہاں برتری حاصل رہی اور ہم نے انہیں سخت ترین سزا دی، دنیا نے دیکھا کہ بھارتی فورسز نے لائن آف کنٹرول اور دوسری سرحدوں پر کئی مقامات پر سفید جھنڈے لہرائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت پر حملہ نہیں کیا، ہمارا جواب رات کے اندھیرے میں نہیں تھا جیسا کہ بزدل کرتے ہیں، ہم نے اعلان کیا کہ ہم جواب دیں گے، اس لیے تیار رہیں، ہم نے 26 اہداف منتخب کیے اور الحمدللہ، 26 کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ معلومات کے میدان میں بھی ہم شفاف رہے، ہم نے سچ بولا، جھوٹ نہیں بولا، نہ ہی حقائق کو مسخ کیا، دنیا نے دیکھا کہ ان کا میڈیا اور حکومت مسلسل جھوٹ بولتے رہے اور آج تک مختلف بے بنیاد کہانیاں پیش کر رہے ہیں۔ لہٰذا، میرا مختصر جواب یہ ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے چہروں کو دیکھیں اور طویل جواب یہ ہے کہ معاملے کو جس طرح چاہیں جانچیں،الحمدللہ! پاکستان کو وہ فتح نصیب ہوئی جس کا ہم امن کے لیے جشن منا رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہاکہ بھارتی کہتے ہیں کہ انہوں نے کراچی کی بندرگاہ پر حملہ کیا، کئی ہوائی جہاز گرائے اور کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کو محفوظ جگہ منتقل کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ان کے ہائی کمشنر نے جعلی لوگوں کی تصاویر دکھائیں اور کہا کہ وہ دہشت گرد ہیں، جن میں ایک نمازی بھی تھا جو اصل میں ایک عام شہری تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتیوں نے کہا کہ جوہری تابکاری ہوئی ہے، کچھ ہوا ہے اور عالمی ٹیکنالوجی کے ماہرین کو فوراً مداخلت کرنی چاہیے، لیکن یہ سب جھوٹ تھا، کوئی بھی معتبر اور سنجیدہ ادارہ بھارتی دعوؤں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ بھارت کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ خود پر حد سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ یہ اعتماد کہاں سے آیا، ان کے پاس غلط اندازے اور مفروضے تھے کہ وہ شہری مقامات، مساجد پر حملہ کریں گے اور کچھ نہیں ہوگا، پاکستان جواب نہیں دے گا، لہٰذا اب وہ فرضی کہانیاں بنا رہے ہیں اور وہ اس میں ماہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس بہت طاقتور میڈیا ہے جب کہ تھیٹر اور فلموں میں بھی وہ پاکستان سے بہت آگے ہیں، پھر بھی، وہ مختلف کہانیاں پیش کرتے رہتے ہیں، مثال کے طور پر کل انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا، جو کہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم اپنی حفاظت کر رہے ہیں، پنجاب کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس علاقے کی تمام مقدس جگہوں اور تمام مذہبی فرقوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہمارے اور سکھوں کے درمیان مشترکہ ثقافت، محبت اور ایک پنجابی زبان ہے، ہمارا طریقہ نہیں کہ ہم کسی بھی شہری یا مذہبی جگہ پر حملہ کریں، یہ ہمارے اصولوں اور دین کے خلاف ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ میرے خیال میں بھارتیوں کو پہلے اپنی ساکھ بنانی ہوگی اور ساکھ ہزاروں ویب سائٹس بند کرنے، میڈیا پر پابندیاں لگانے یا حکومت پر تنقید کرنے والوں کو قید کرنے سے نہیں بلکہ سچ بولنے سے بنتی ہے۔ اس کے برعکس کیا آپ نے حالیہ تنازع کے دوران دیکھا کہ پاکستان نے کوئی صحافی گرفتار کیا؟ نہیں، آپ ایسا نہیں پائیں گے، ہم نے ایسا نہیں کیا، یہی ہمارا پیغام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے فضائیہ کے جوانوں اور ان کی کارکردگی پر فخر کرتے ہیں اور اس حالیہ فوجی تصادم میں ہم نے زمینی، فضائی اور بحری افواج کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت اور مسلح افواج کے درمیان بھی درمیان ہم آہنگی دیکھی اور ساتھ ہی پوری پاکستانی قوم کے درمیان مضبوط اتحاد دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک مضبوط فولادی دیوار تھی، پاکستان نے ایک مستحکم فولادی دیوار کھڑی کی ہے جو کسی بھی بھارتی جارحیت کے خلاف ہے، یہ دیوار انضمام اور غلبے کی کوششوں کے خلاف سخت مزاحم ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے عوام، ہمارے سفارت کار، میڈیا، تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور فضائیہ، بحریہ، بری فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے ایک ساتھ مل کر اس جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے، یقیناً ہم اپنے پاکستانی فضائیہ پر فخر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ہمارا فخر نہیں ہے بلکہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ہونے والی فضائی جھڑپ کا دنیا نے مشاہدہ کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ آئندہ دہائیوں تک ایئر وار کالجز اور فوجی اداروں میں پڑھایا اور زیر بحث رکھا جائے گا۔
اس سوال پر کہ کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ جوہری ہمسایہ ممالک کے درمیان جنگ بندی قائم رہے گی؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جنگ بندی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف لڑائی روک دیں، لیکن اصل امن تبھی آئے گا جب بھارتی اس سیاسی ذہنیت سے آزاد ہو جائیں جو ان پر مسلط ہے، وہ ذہنیت جو جنگ کو اپناتی ہے اور بھارت کی سیاسی اشرافیہ پر حاوی ہے، یہ وہ جنگی جنون ہے جو بھارتی سیاسی منظرنامے پر غالب ہے اور اس کے تحت وہ مسلمانوں اور اقلیتوں پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں، اسے ایک معمول کی بات سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں، بلکہ عیسائیوں، سکھوں، دیگر برادریوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف بھی ہے، وہاں بہت ظلم ہو رہا ہے، لہٰذا جو معاشرہ اس ظلم کا شکار ہے، وہ اس کے خلاف فطری ردعمل ظاہر کرتا ہے، لیکن بھارتی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے سے انکاری ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ انتہا پسندی اور ان کے نیٹ ورکس بھی اسی ردعمل کا حصہ ہیں، جنہیں وہ نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے، مگر وہ اسے بیرونی مسئلے میں بدل کر پاکستان پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں، جب تک یہ اندرونی مسائل حل نہیں ہوں گے اور کشمیر کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا، جو ایک بیرونی مسئلہ ہے اور جس میں پاکستان، چین اور بھارت شامل ہیں اور جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی خواہش کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، تب تک کوئی حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے متعلق سوال پر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ صرف ایک پاگل ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ 24 کروڑ انسانوں کا پانی روک سکتا ہے، کوئی ایسا نہیں کر سکتا، ہمیں حقائق کو سمجھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر سے 6 دریا بہتے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے، 1960 میں طویل مذاکرات کے بعد ورلڈ بینک نے ثالثی کر کے ایک معاہدہ کروایا جس کے تحت 3 دریا پاکستان کو اور 3 دریا ہندوستان کو دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اس معاہدے کی پابندی نہیں کرنا چاہتا، تو یاد رہے کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، اگر کل کشمیر اپنے عوام کی مرضی کے مطابق پاکستان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے، تو یہ تمام 6 دریا پاکستان کے ہوں گے اور بھارت کو ایک بھاری بوجھ اٹھانا پڑے گا، ہم دیکھیں گے کہ اس کا ہم کس طرح مقابلہ کرتے ہیں، یہی حقیقت ہے۔
غزہ کی صورتحال سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے اور یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ یہ انسانی ضمیر پر ایک سیاہ داغ ہے، وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں بحیثیت پاکستان اور بحیثیت عسکری حکام ایک سبق سکھاتا ہے کہ آپ کے پاس اپنی طاقت ہونی چاہیے، آپ کو مضبوط کھڑا ہونا چاہیے اور ان کے سامنے ثابت قدم رہنا چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ وہ مداخلت کر سکتے ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے ممالک کو اپنی حفاظت کرنی چاہیے اور امت کو اپنی طاقت کو بڑھانا چاہیے، کیونکہ بدقسمتی سے اس دنیا میں کچھ مخصوص سیاسی ذہنیتیں موجود ہیں جو نہ صرف ایسے نسل کشی کے واقعات کا سوچ سکتی ہیں بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنا سکتی ہیں، جیسا کہ ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں اور جیسا ظلم کشمیر کے مسلمانوں اور بھارت میں اقلیتوں پر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک رائج عقیدہ ہے کہ آپ کا مذہب، یا آپ کا ڈی این اے یا آپ کے جینز آپ کو کمتر یا برتر بناتے ہیں، لیکن یہ وہ راستہ نہیں ہے جو انسانیت نے سیکھا ہے اور نہ ہی یہی طریقہ ہے جس سے پاکستانی اور مسلمان دنیا کو دیکھتے ہیں۔ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور زندگی کا انداز مختلف ہے، لہٰذا اگر ایسی اخلاقی گراوٹ ہو جائے تو انسان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور پاکستانی روزانہ یہی کچھ کرنے کوشش کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترجمان پاک فوج نے کہا کہ نے کہا کہ پاکستان انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر دریا پاکستان کہا کہ بھارت اس معاہدے کی نے کہا کہ ہم نے مزید کہا پاکستان نے پاکستان کے کے درمیان اور بھارت ہو رہا ہے کے مطابق سکتے ہیں کرتے ہیں یہ ہے کہ نہیں ہو کا جواب ہیں اور سوال پر رہے ہیں پر حملہ اس سوال کے خلاف ہیں کہ کے پاس کر رہے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔