جاپان: ٹیکسی ڈرائیور پر 50 خواتین سے زیادتی کا الزام، 3,000 ویڈیوز برآمد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
ٹوکیو: جاپان میں پولیس نے ایک سابق ٹیکسی ڈرائیور کو نشہ آور دوا دے کر خواتین سے زیادتی کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
جاپانی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس شخص کے قبضے سے تقریباً 3,000 ویڈیوز اور تصاویر ملی ہیں، جن میں وہ مبینہ طور پر 50 سے زائد خواتین پر جنسی حملے کرتا دکھائی دیتا ہے۔
پولیس کے مطابق، 54 سالہ ملزم نے گزشتہ سال ایک 20 سالہ خاتون کو نیند کی گولیاں دے کر بے ہوش کیا، پھر اسے اپنے گھر لے گیا اور غیر اخلاقی حرکتیں کر کے ان کی ویڈیو بھی بنائی۔
پولیس نے بتایا کہ اس واقعے کی تصدیق متاثرہ خاتون کے بالوں میں سلیپنگ پلز کی موجودگی سے ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ویڈیوز اور تصاویر کا ریکارڈ 2008 سے موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ جرم کئی سالوں سے جاری تھا۔
ملزم کو اکتوبر 2024 میں ایک اور خاتون کو نشہ دے کر 40,000 ین (تقریباً 280 امریکی ڈالر) کی رقم چرانے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تھا، لیکن بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ اسے دسمبر میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا، اور اب اسے ایک نئے مقدمے میں دوبارہ حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس نے ملزم پر غیر رضامندانہ جنسی عمل اور جنسی مواد کی غیر قانونی فلم بندی کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔