Express News:
2025-05-25@05:00:12 GMT

ذہنی صحت : ایک نظرانداز شدہ بحران

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

ذہنی صحت انسان کی مجموعی فلاح و بہبود کا ایک لازمی جزو ہے، جو نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ پورے معاشرے پرگہرا اثر ڈالتی ہے۔ دنیا بھر میں ذہنی امراض میں اضافہ ایک عالمی چیلنج بنتا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اس بحران سے محفوظ نہیں۔ معاشرتی دباؤ، اقتصادی غیر یقینی، تعلیمی و خاندانی نظام میں بگاڑ اورآگاہی کی کمی نے ذہنی بیماریوں کو ایک خاموش وبا کی شکل دے دی ہے۔

ذہنی صحت کی اہمیت کو تسلیم کیے بغیرکوئی بھی معاشرہ حقیقی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ اس پس منظر میں سندھ میں ذہنی صحت سے متعلق اداروں، قانون سازی اور عملی اقدامات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے، تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور آگے کس سمت جانا ہے۔

سندھ میں نفسیاتی علاج کے لیے چند ادارے ہیں جن میں کاؤس جی مینٹل انسٹیٹیوٹ نمایاں طور پر اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے، جسے سرکاؤس جی جہانگیر انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری بھی کہا جاتا ہے، 1852میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں قائم کیا گیا۔

یہ ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا نفسیاتی اسپتال شمار ہوتا ہے، جو ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کو تشخیص، علاج، دیکھ بھال اور بحالی کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ صرف ایک طبی مرکز ہونے سے بڑھ کر، یہ انسٹیٹیوٹ سندھ میں ذہنی صحت کے تاریخی شعورکی ایک علامت بھی ہے۔

 پاکستان میں ذہنی بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ وزارتِ صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے، اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباً آٹھ کروڑ افراد کسی نہ کسی درجے پر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔ اس سنگین صورتحال کے پیش نظر 2013 میں ’’ سندھ مینٹل ہیلتھ ایکٹ‘‘ منظورکیا گیا، جس نے برطانوی عہد کے متروک Lunacy Act 1912 کی جگہ لی۔

اس نئے قانون کی بنیاد انسانی وقار، جدید اصولوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ پر رکھی گئی، جس کا مقصد ذہنی مریضوں کی عزتِ نفس، بحالی اور ان کی سماجی شمولیت کو یقینی بنانا تھا۔

 2019 میں ’’ سرکاؤس جی جہانگیر انسٹیٹیوٹ آف سائیکائٹری اینڈ بہیویئرل سائنسز ایکٹ 2019 کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس کا مقصد صرف علاج فراہم کرنا نہیں، بلکہ متاثرہ افراد کو تعلیم اور تربیت کے ذریعے بااختیار بنانا تھا، تاکہ وہ دوبارہ معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں۔

یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ذہنی صحت صرف دوا یا اسپتال تک محدود نہیں بلکہ یہ تعلیم، معاشی استحکام، خاندانی ماحول اور سماجی رویوں کی بہتری سے جڑی ہوئی ہے۔ جب کوئی فرد ذہنی دباؤکا شکار ہوتا ہے تو اس کا اثر اس کے اہلِ خانہ، کام کی کارکردگی اور معاشرتی توازن پر بھی پڑتا ہے۔ مؤثر بحالی کی عدم موجودگی نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے آج بھی ذہنی بیماریوں کو شرمندگی کے زمرے میں لایا جاتا ہے۔ اور ذہنی امراض کو ’’ پاگل پن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں متاثرہ افراد علاج لینے سے گریزکرتے ہیں۔ سرکاؤس جی جہانگیر انسٹیٹیوٹ آف سائیکائٹری اینڈ بہیویئرل سائنسز ایکٹ 2019 کے مطابق، سی ای او کے تقرر کے لیے واضح تعلیمی اور پیشہ ورانہ معیار طے کیے جانے تھے۔

سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل (HR Case No.

505) کے تحت محکمہ صحت کو ہدایت دی گئی کہ ماہرین کی ٹیم سے ادارے کا جائزہ لے کر اصلاحی تجاویز مرتب کی جائیں، جس کے بعد ایک مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ علاوہ ازیں، سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی چیئرپرسن کی درخواست پر چیف سیکریٹری سندھ نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس طلب کیا، جس میں قانون، صحت، اور انجینئرنگ کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو کے ساتھ منسلک ہو کر پی سی ون اور مسودہ قانون تیار کیا۔

اداروں کا استحکام کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کسی ادارے میں شفافیت، انصاف اور مؤثر انتظامیہ کا فقدان ہو، تو وہاں کام کرنے والے افراد میں بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ ایسے ماحول میں ملازمین نہ صرف اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں بلکہ ان کے اندر ادارے سے وابستگی کا جذبہ بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر ان کی کارکردگی اور پیشہ ورانہ رویے پر پڑتا ہے، کیونکہ جب اعتماد نہ ہو تو دلجمعی سے کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

جب دنیا بھر میں ذہنی صحت کو ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ بنایا جا رہا ہے، سندھ میں ایک مؤثر، خود مختار ادارے کی عدم موجودگی ایک تشویشناک خلا ہے۔ قانون سازی محض ابتدائی قدم ہے، جب تک اس پر سنجیدہ عملدرآمد، شفاف نگرانی اور تمام متعلقہ اداروں کا اشتراک نہ ہو، ذہنی صحت کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ حکومت، سول سوسائٹی، ماہرینِ نفسیات اور میڈیا کو مل کر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، ورنہ ہر تاخیر انسانی المیے میں اضافہ کرتی رہے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

خوراک کا بحران

پاکستان High level of food insecurity خوراک کی کمی کی بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم Food and Agriculture Organization کی Global Report 2025 میں تحریر کیا گیا ہے کہ ایک کروڑ 10 لاکھ افراد خوراک کی بدترین عدم دستیابی کا شکار ہوئے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا صوبوں کے سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی 22 فیصد آبادی کے لیے تین وقت کا کھانا ملنا بہت مشکل رہا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان اعداد و شمار میں وہ 1.7 ملین افراد بھی شامل ہیں جو شدید ایمرجنسی کی صورتحال میں خوراک سے محروم رہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ برسوں میں صورتحال کچھ بہتر رہی مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں صورتحال مزید خراب ہوئی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال 2023میں بھی 11.8 ملین افراد نومبر 2025سے جنوری 2024 تک خوراک کی شدید کمی کا شکار رہے۔ اس رپورٹ میں سندھ اور بلوچستان میں کم غذائیت کے اثرات(Global Actue Malnutrition ) کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع میں تو 10 فیصد سے لے کر 30 فیصد افراد کم غذائیت کا شکار ہوئے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ کے ماہرین نے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مارچ 2023 سے جنوری 2024تک کے مہینوں کے دوران 9 ماہ کے بچے سے لے کر 6 سال کی عمر کے 2.1 ملین بچے کم غذائیت کے مرض کا شکار ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خاص طور پر سندھ اور پختون خواہ صوبوں میں حاملہ عورتیں اور بچوں کو دودھ پلانے والی عورتیں کم غذائیت کا بدترین شکار ہوئیں۔ ان علاقوں میں ملیریا، ڈائریا اور انفیکشن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شکل اختیار کرگئی۔ خاص طور پر برسات کے موسم میں ملیریا اور ڈینگی کے مرض نے بڑی تباہی مچائی۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2022میں مون سون کی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلابوں نے صاف پانی کے ذخائر کو ملاوٹ زدہ کردیا تھا اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام برباد ہوگیا، یوں ایک طرف سیلابی پانی دوسری طرف بیماریوں نے غریب افراد کی زندگیوں کو اجیرن کیے رکھا۔

اس رپورٹ میں پاکستان میں غذا کی قلت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار Lower Middle Income Country میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑے گہرے اثرات پڑرہے ہیں، یوں مسلسل بارشوں اور دریاؤں میں آنے والے سیلاب اور پھر سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں مسلسل خشک سالی کی بناء پر خوراک کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہا ہے۔

 پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقائق واضح طور پر نظر آتے ہیں کہ 1947ء میں جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو پاکستان کی کل آبادی 30 ملین کے قریب تھی جس سے 20 ملین افراد خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ آزادی کے وقت سابقہ مشرقی پاکستان کے علاوہ سندھ،پنجاب، بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں دیہاتوں میں ہر طرف غربت کے آثار گہرے ہوتے نظر آتے تھے۔ اس وقت معیشت کا سارا دارومدار زراعت پر تھا۔ زرعی شعبہ ایک پسماندہ شعبہ تھا، کاشت کاری کے قدیم طریقے رائج تھے، بیشتر علاقوں میں سال میں صرف ایک فصل پیدا ہوتی تھی۔

پاکستان اپنے قیام کے بعد سے بدترین طرزِ حکومت کا شکار رہا ہے۔ 60ء تک کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اور کراچی کی حکومت کی پالیسیوں میں غربت کا خاتمہ ایجنڈا کے طور پر شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے علاوہ باقی صوبوں میں بھی گندم، چاول اور دالوں کی شدید قلت پائی جاتی تھی۔ اس وقت کی حکومتوں نے انگریز حکومت کے راشننگ کے نظام کو دوبارہ قائم کیا ۔ یہ نظام زیادہ تر شہروں تک محدود تھا اور ہر خاندان کو راشن کارڈ پر محدود مقدار میں آٹا، چاول اور چینی وغیرہ کنٹرول ریٹ پر فراہم کی جاتی تھی۔ 50ء کی دہائی سے ملک میں صنعتیں لگانے کا آغاز ہوا۔

حکومت نے پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (P.I.D.C) کا ادارہ قائم کیا۔ پی آئی ڈی سی نے نجی شعبہ کو صنعتیں لگانے کے لیے قرضے اور تکنیکی امداد فراہم کرنے شروع کیے، یوں دیہاتوں کے مزدوروں کو صنعتی اداروں میں روزگار ملنے لگا۔ یوں آمدنی میں معمولی اضافہ سے لوگوں کی قوتِ خرید بہتر ہوئی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکا کا سب سے بڑا اتحادی بن گیا، امریکی امداد کی بھرمار شروع ہوگئی۔ اسی زمانے میں سندھ اور سابقہ مغربی پاکستان میں حکومت نے میکسی پاک بیج رائج کیا۔

اس بیج سے گندم سال میں دو دفعہ پیدا ہونے لگی۔ ایک طرف امریکی بحری جہازوں سے آنے والا گیہوں اور خشک دودھ کے ڈبے ’’تھینک یو امریکا ‘‘کے نعرے کے ساتھ پاکستان میں دستیاب ہونے لگے ۔ ایوب خان کی حکومت میں کراچی، لاہور، لائل پور، حیدرآباد، ملتان اور ہری پور وغیرہ میں صنعتی علاقے قائم ہوئے۔ اب مزدوروں کی تعداد ملک بھر میں بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ ہی غذائی صورتحال بھی بہتر ہوئی مگر اس ساری ترقی سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ سابق مشرقی پاکستان اور بلوچستان محروم رہے۔ جنرل ایوب خان نے پہلی دفعہ زرعی اصلاحات نافذ کیں مگر یہ اصلاحات کاغذوں تک محدود رہیں۔ پیپلز پارٹی کی جب پہلی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جامع زرعی اصلاحات نافذ کیں۔

قومی صنعتوں اور بینکوں کو قومیالیا گیا۔ ان زرعی اصلاحات کے نتیجے میں لاکھوں بے زمین کسان زمینوں کے مالک بن گئے۔ صنعتی اداروں میں مزدوروں کو اچھی تنخواہیں اور مراعات ملنے لگیں مگر پھر جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوا۔ حکومت امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغان جہاد کے پروجیکٹ کا حصہ بن گئی۔ امریکا اور اتحادی ممالک کے علاوہ سعودی عرب سے ڈالروں کی مسلسل بارش ہوئی۔ افغان جہاد پروجیکٹ سے منسلک بعض مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں کی نسلیں امراء کے طبقہ میں شامل ہوگئیں۔ مگر زرعی اصلاحات، صنعتی ترقی اور غربت کے خاتمے کے اہم مسائل کو نظرانداز کردیا گیا۔

 پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔ یہ پروگرام خواتین کی بہبود سے متعلق ہے مگر یہ پروگرام اگر مکمل طور پر شفاف ہو تو اس کے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت نے کسان کارڈ اور دیگر اسکیمیں شروع کیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے صحت کارڈ کا اجراء کیا اور اب خیبرپختون خوا میں حکومت نے لازمی انشورنس کی اسکیم منظور کی ہے۔

اس کے ساتھ ہی بڑے شہروں میں بہت سے رفاہی ادارے لوگوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کرتے ہیں۔ سندھ حکومت نے کراچی میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے اسکولوں میں کھانا فراہم کرنے کا پروجیکٹ شروع کیا۔ مگر ان تمام تر اقدامات کے باوجود ملک کی آبادی کا 42 فیصد حصہ خط غربت کے نیچے زندگی گزاررہا ہے۔ وسطی پنجاب میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں پر فرد محض چند ہزار کے لیے اپنے گردے فروخت کررہے ہیں۔

 پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان کے بعد پہلا ملک ہے جہاں زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ترقیات کے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ (فیاضی کے طریقوں سے) وقتی طور پر تو لوگوں کو کھانا مل جاتا ہے مگر غربت ختم نہیں ہوتی۔ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتوں کا قیام ضروری ہے۔

ناموافق حالات کی بناء پر غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مقامی صنعت بجلی،گیس اور پٹرول کی نایابی اور انتہائی مہنگی قیمتوں کی بناء پر مستقل بحران کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ کی یہ رپورٹ اسلام آباد میں بجٹ بنانے والے افراد اور وزیر خزانے کے لیے الارم کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب تک کم غذائیت کی بناء پر عورتیں اور بچے مرتے رہیں گے خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کم نہیں ہوگی اور حکومت کی ترقی کے سب دعوی محض دعوے ہی رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں سیاسی بیداری
  • خوراک کا بحران
  • شام میں استحکام کے لیے عالمی برادری کی مدد درکار، امدادی ادارے
  • آئی ایم ایف پروگرام پاکستان میں معاشی استحکام کیلیے مددگار ثابت ہوا، صدر مملکت
  • آئی ایم ایف پروگرام پاکستان میں معاشی استحکام کیلیے مددگار ثابت ہوا، صدر مملکت
  • تمام سرکاری و نیم سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، اور نجی ادارے بند ،ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کردیا گیا
  • آئی ایم ایف پروگرام معاشی استحکام کا باعث بن رہا ہے ، صدر زرداری
  • امریکا، یہودی میوزیم میں 2 اسرائیلی سفارتکاروں کو قتل کرنیوالا شخص کون ہے؟
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سے عالمی مالیاتی ادارے کے وفد کی جہاد اظہور (Jihad Azour) کی قیادت میں ملاقات