City 42:
2025-11-02@17:06:21 GMT

گرمیوں کی آمد کے ساتھ مٹی کے گملوں کی مانگ میں اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

سٹی42: گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی مٹی کے گملوں کی مانگ میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

 گھروں، دفاتر اور باغیچوں کی تزئین و آرائش کے شوقین افراد کی جانب سے گملوں کی خریداری میں تیزی آئی ہے جس کے باعث کاریگر دن رات گملے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

کاریگروں کا کہنا ہے کہ دورِ جدید میں بھی مٹی کے گملے بنانا محض ایک کاروبار نہیں بلکہ ایک فن اور ہنر ہے۔ گیلی مٹی کو خوبصورت شکل دینا ایک محنت طلب عمل ہے جس میں مہارت، صبر اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔

غزہ:اسرائیلی بمباری سےفلسطینی خاتون ڈاکٹر کے 9 بچے شہید

ایک کاریگر نے بتایا کہ ہر گملا ہماری محنت اور فن کا نمونہ ہوتا ہے، یہ کام وقت لیتا ہے لیکن اس سے ملنے والا سکون اور خوشی سب سے زیادہ ہے۔

مٹی کے گملے نہ صرف سستے اور ماحول دوست ہوتے ہیں بلکہ پودوں کی نشوونما کے لیے بھی مفید سمجھے جاتے ہیں۔ ان گملوں کی بڑھتی ہوئی طلب اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم روایتی ہنر آج بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: گملوں کی مٹی کے

پڑھیں:

خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹنڈوالہیار(نمائندہ جسارت) دی ایجوکیٹر اسکول کے ڈائٹر یکٹر محمد وسیم شیخ نے طلبہ و طالبات کو لیکچر دیتے ہو ئے کہا کہ خواجہ ناظم الدین وہ نام ہے جو تاریخِ پاکستان کے ابتدائی ابواب میں سنہری حروف سے رقم ہے، وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر انجام دیا، اور خدمتِ خلق کو ایمان کا حصہ جانا۔ ان کی زندگی کی ابتدا دولت سے ہوئی مگر اختتام سادگی پر، وہ بنگال کی زمین کے فرزند تھے مگر دل ان کا پورے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ ان کے لہجے میں نرمی تھی، کردار میں وقار، اور ارادوں میں فولاد کی سی مضبوطی۔ انہوں نے نہ صرف مسلم لیگ کے قیام میں اپنی بصیرت عطا کی بلکہ تحریکِ پاکستان کی روح کو بھی اپنی عمل سے تازہ رکھا۔زمانے نے دیکھا کہ جب اقتدار کی کرسی ان کے سامنے آئی تو وہ غرور میں نہیں ڈوبے، بلکہ عاجزی ان کا زیور رہی۔ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ بنگال کے زمانے میں عوام کی خدمت کو مقصدِ حیات بنایا۔ قحط بنگال کا وقت تھا، لوگ بھوک سے نڈھال تھے، ناظم الدین نے دن رات محنت کی، خوراک کی تقسیم کے انتظامات کیے، لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ان کے نزدیک حکومت رعایا کے لیے تھی، حکمران کے لیے نہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوئے، اور پھر لیاقت علی خان شہید ہوئے، تب قوم پر قیادت کا خلا چھا گیا۔ ایسے وقت میں خوجہ ناظم الدین نے قدم بڑھایا اور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کا دور مشکلات سے بھرا تھا، مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ وہ جانتے تھے کہ نوزائیدہ مملکت کو استحکام دینا آسان نہیں، لیکن وہ صبر اور تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ قربانی کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اور ایمان کے بغیر سیاست بے روح ہے۔ان کی سیاست کی بنیاد مفاہمت پر تھی، وہ اختلاف کو دشمنی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے لبوں پر ہمیشہ شائستگی تھی، اور دل میں قوم کے لیے خلوص۔ وہ جانتے تھے کہ ایک رہنما کا اصل کام صرف حکومت کرنا نہیں بلکہ قوم کو متحد رکھنا ہے۔ ان کے دور میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے، ثقافت اور قومی شناخت کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنیں۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
  • ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت سے بلدیاتی انتخابات کیلئےضروری ڈیٹا اور نقشے مانگ لیے
  • اسلام آباد میں سردی بڑھنے سے پہلے ہی مچھلی کی مانگ میں اضافہ
  • خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ