غزہ کی صورتحال ’ناقابل برداشت‘ ہوگئی؛ جرمنی کا پہلی بار اسرائیل کیخلاف اقدامات کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
جرمنی نے غزہ میں جنگ بندی کے باوجود جاری اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر پہلی بار لب کشائی کرتے ہوئے صیہونی ریاست کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ جنگ کی ابتدا کے بعد سے پہلی بار جرمنی نے اسرائیل کی جارحیت کو تسلیم کرتے ہوئے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
فن لینڈ کے شہر تُرکو میں گفتگو کرتے ہوئے جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ میں ان لوگوں میں شامل نہیں جنھوں نے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر سب سے پہلے آواز اُٹھائی ہو لیکن اب پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں کھل کر کہوں کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ رہا ہے وہ نہ صرف اب قابل فہم نہیں رہا بلکہ ناقابل برداشت بھی ہوچکا ہے۔
چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔
جرمنی کے چانسلر نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فوجی حملے اب میرے لیے کسی منطقی جواز کے حامل نہیں لگتے۔
چانسلر فریڈرک مرز نے سوال اُٹھایا ’’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد کیسے حاصل ہو رہا ہے‘‘؟
یاد رہے کہ جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز رواں ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم جب اُن سے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق یہ معاملہ ابھی ایک سیکیورٹی کونسل میں زیر غور ہے جس کی صدارت خود فریڈرک مرز کرتے ہیں۔
جرمن نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ یوہان واڈیفُل نے بھی اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اسرائیل کے وجود کے حق اور سیکیورٹی کی ہماری مکمل حمایت کو اس موجودہ جنگی صورتحال کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جرمن وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ کیا اقدامات کیے جائیں۔
دوسری جانب جرمنی میں اسرائیلی سفیر رون پروسر نے جرمنی کے تحفظات کو تسلیم کیا لیکن کسی واضح اقدام کا وعدہ نہیں کیا۔
انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جب چانسلر فریڈرک مرز اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں تو ہم اسے بہت سنجیدگی سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چانسلر فریڈرک مرز نے مزید کہا اسرائیل کی کرتے ہوئے جرمنی کے کہا کہ
پڑھیں:
چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
بیجنگ/جنیوا: جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کی دوڑ میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں چین نے پہلی بار اقوام متحدہ کے جاری کردہ گلوبل انوویشن انڈیکس میں دنیا کے 10 سب سے زیادہ جدت پسند ممالک میں جگہ بنا لی ہے — اور اس عمل میں یورپ کی مضبوط ترین معیشت جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ ترقی بیجنگ میں نجی کمپنیوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیق و ترقی (R&D) کے شعبے میں مسلسل بھاری سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO) کی رپورٹ کے مطابق، چین اب دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق پر خرچ کرنے والا ملک بننے کے قریب ہے۔
انوویشن انڈیکس کی تازہ فہرست:
سوئٹزرلینڈ
سویڈن
امریکا
جنوبی کوریا
سنگاپور
برطانیہ
فن لینڈ
نیدرلینڈز
ڈنمارک
چین
جرمنی اس سال 11ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
WIPO کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں عالمی سطح پر درج ہونے والی پیٹنٹ (ایجادات) کی درخواستوں میں سب سے زیادہ — تقریباً 25 فیصد چین سے آئیں، جو ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس کے برعکس امریکا، جاپان اور جرمنی کی مشترکہ پیٹنٹ درخواستوں میں تقریباً 40 فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔
چین کی کامیابی کا راز
ماہرین کے مطابق، چین کی یہ ترقی اس کی نجی صنعتوں اور سرکاری اداروں کی مشترکہ حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جہاں نہ صرف مالی معاونت میں تیزی آئی بلکہ جدید ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت، اور توانائی کے شعبوں میں بھی غیر معمولی پیش رفت ہوئی۔
جرمنی کے لیے پیغام
انوویشن انڈیکس کے شریک مدیر ساچا وونش کا کہنا ہے کہ جرمنی کو 11ویں نمبر پر آنے پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ درجہ بندی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے تجارتی محصولات جیسے عوامل کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتی۔
WIPO کے ڈائریکٹر جنرل ڈیرن تانگ نے کہا کہ جرمنی کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخی صنعتی برتری کو برقرار رکھتے ہوئے، ڈیجیٹل انوویشن میں بھی ایک طاقتور مقام حاصل کرے۔
مستقبل غیر یقینی
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عالمی سطح پر انوویشن کا مستقبل کچھ غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو چکی ہے۔ اس سال عالمی ترقی کی شرح 2.3 فیصد رہنے کا امکان ہے، جو گزشتہ سال کی 2.9 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے — اور 2010 کے بعد سب سے کم سطح ہے۔
Post Views: 2