جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر کے لیے کونسا اصول اپنایا گیا؟ جسٹس نعیم افغان کا استفسار
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنا جائے گا آئین خاموش ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے منتخب کرتے ہوئے کون سا اصول اپنایا گیا، وہ لاہور ہائیکورٹ کی سینیارٹی میں 15ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں اول آگئے۔
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ججز ٹرانسفر پر آئے ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے سنییارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکریٹری قانون نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی، جس پر اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ وضاحت کی وجہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہونا تھی۔
اٹارنی جنرل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، جو سینیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلہ پر درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔
مزید پڑھیں:ججز ٹرانسفر اورسینیارٹی کیس: ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، وکیل حامد خان کا استدلال
جسٹس شکیل احمد کا کہنا تھا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے، جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی استدعا کیا تھی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سینیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200 میں ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضح ہے، ججز ٹرانسفرز کے معاملے پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے ایگزیکٹیو کو نہیں۔
اٹارنی جنرل کے مطابق ججز ٹرانسفرز کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ سینیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گی، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ سینیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، سینیارٹی کو طے کرنا اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اختیار تھا۔
مزید پڑھیں:ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: چیف جسٹس سے ججز کی سینیارٹی کا معاملہ چھپایا گیا، وکیل فیصل صدیقی
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنا جائے گا آئین خاموش ہے، اس معاملے میں کونسا اصول اپنایا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا، جسٹس ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں سینیارٹی میں 15ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے پر آگئے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ججز دیگر ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی طے کرنے کے مجاز نہیں تھے، اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ کیونکہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہوچکے تھے، لہذا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔
اس موقع پر جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، یہ ابھی طے ہونا ہے، جسٹس شکیل احمد نے اٹارنی جنرل کا مخاطب کرتے ہوئے ان سے 3 سوالات پر عدالت کی معاونت طلب کی۔
مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفرز اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کے لیے کیے گئے، منیر اے ملک کا سپریم کورٹ میں مؤقف
جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہوتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹس سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل جج ہیں، ایڈیشنل ججز کی مستقل ہونے کے لیے کارکردگی کون جانچے گا بلوچستان یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس۔
جسٹس شکیل احمد نے مزید دریافت کیا کہ سینیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ دیگر ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا لیکن آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان کا مؤقف تھا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شکیل احمد بولے؛ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، یہاں ججز کے تبادلہ میں عوامی مفاد کیا تھا نوٹیفکیشن میں اس کا ذکر نہیں۔
مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفرز کیس: ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی والو لگا ہے، جسٹس نعیم افغان بولے؛ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن ایک اور دو کو ایک ساتھ پڑھا جائے، کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی شق 2 کے تحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جج کا تبادلہ عارضی ہوگا ذیلی سیکشن کے تحت اضافی الاؤنسز ملیں گے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق جج کا تبادلہ مستقل ہو گا تو کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملے گا، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفیکیشن میں مستقل یا عارضی ٹرانسفر کا ذکر نہیں، اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ ٹرانسفرنگ ججز نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا اور ان سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی۔
آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ طلب کر لیے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ دیے جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 17 جنوری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری جبکہ 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی، عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 10 فروری اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر کا نام بھی شامل تھا مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔
اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی درخواست میرٹ پر مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے ججز تبادلہ کیخلاف دیگر درخواستوں کو نا قابل سماعت قرار دیکر خارج کرنے کا تقاضا کیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے جس کے بعد وکیل فیصل صدیقی صاحب بھی جواب الجواب دلائل دیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی ٹرانسفر جسٹس شکیل احمد جسٹس عامر فاروق جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سینیارٹی منصور عثمان اعوان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل اسلام ا باد ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی جسٹس شکیل احمد جسٹس عامر فاروق جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سینیارٹی منصور عثمان اعوان اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل منصور عثمان جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز جسٹس شکیل احمد نے کا کہنا تھا کہ جج جسٹس عامر فاروق ججز ٹرانسفر کے اٹارنی جنرل کا پر اٹارنی جنرل سینیارٹی کیس کے چیف جسٹس کونسا اصول سپریم کورٹ مزید پڑھیں کا تبادلہ آرٹیکل 200 کورٹ میں افغان کا ججز کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی ،اٹارنی جنرل دلائل دیں گے
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2025ء) سپریم کورٹ نے ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی کردی اٹارنی جنرل پاکستان دلائل کاآغاز کریں گے جبکہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس آف پاکستان۔ اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے 4 فورمز کی منظوری لازم ہے جبکہ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں،جبکہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت میں موقف اختیار کیاہے کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔(جاری ہے)
انھوں نے پیرکواپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کوبتایا۔سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بینچ نے کی،اس دوران سپریم کورٹ میں عدلیہ کی خودمختاری، سنیارٹی اور آئینی آرٹیکلز پر گہرے سوالات اٹھا ? گئے۔ وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے جب کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس قانون میں ججز کی تقرری کا تعلق صرف صوبوں سے ہے، جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کے نافذ ہونے کے بعد آرٹیکل 200 غیر مؤثر ہو چکا ہی فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ تبادلوں کے موجودہ نظام میں جوڈیشل کمیشن کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، جو آئینی روح کے منافی ہے۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ سے ججز کے تبادلوں کے اثرات سب پر واضح ہوں گے۔فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ سنیارٹی دہائیوں میں بنتی ہے اور ایگزیکٹو کے ذریعے راتوں رات اس فہرست میں ردوبدل کرنا ایک غاصبانہ عمل ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس آف پاکستان۔ اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے 4 فورمز کی منظوری لازم ہے۔ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اپنے دلائل دیں گے۔