جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنا جائے گا آئین خاموش ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے منتخب کرتے ہوئے کون سا اصول اپنایا گیا، وہ لاہور ہائیکورٹ کی سینیارٹی میں 15ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں اول آگئے۔

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ججز ٹرانسفر پر آئے ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے سنییارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکریٹری قانون نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی، جس پر اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ وضاحت کی وجہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہونا تھی۔

اٹارنی جنرل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، جو سینیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلہ پر درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔

مزید پڑھیں:ججز ٹرانسفر اورسینیارٹی کیس: ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، وکیل حامد خان کا استدلال

جسٹس شکیل احمد کا کہنا تھا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے، جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی استدعا کیا تھی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سینیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200 میں ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضح ہے، ججز ٹرانسفرز کے معاملے پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے ایگزیکٹیو کو نہیں۔

اٹارنی جنرل کے مطابق ججز ٹرانسفرز کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ سینیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گی، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ سینیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، سینیارٹی کو طے کرنا اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اختیار تھا۔

مزید پڑھیں:ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: چیف جسٹس سے ججز کی سینیارٹی کا معاملہ چھپایا گیا، وکیل فیصل صدیقی

جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنا جائے گا آئین خاموش ہے، اس معاملے میں کونسا اصول اپنایا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا، جسٹس ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں سینیارٹی میں 15ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے پر آگئے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ججز دیگر ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی طے کرنے کے مجاز نہیں تھے، اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ کیونکہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہوچکے تھے، لہذا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔

اس موقع پر جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، یہ ابھی طے ہونا ہے، جسٹس شکیل احمد نے اٹارنی جنرل کا مخاطب کرتے ہوئے ان سے 3  سوالات پر عدالت کی معاونت  طلب کی۔

مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفرز اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کے لیے کیے گئے، منیر اے ملک کا سپریم کورٹ میں مؤقف

جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہوتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹس سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل جج ہیں، ایڈیشنل ججز کی مستقل ہونے کے لیے کارکردگی کون جانچے گا بلوچستان یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس۔

جسٹس شکیل احمد نے مزید دریافت کیا کہ سینیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ دیگر ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا لیکن آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان کا مؤقف تھا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شکیل احمد بولے؛ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، یہاں ججز کے تبادلہ میں عوامی مفاد کیا تھا نوٹیفکیشن میں اس کا ذکر نہیں۔

مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفرز کیس: ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی والو لگا ہے، جسٹس نعیم افغان بولے؛ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن ایک اور دو کو ایک ساتھ پڑھا جائے، کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی شق 2 کے تحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جج کا تبادلہ عارضی ہوگا ذیلی سیکشن کے تحت اضافی الاؤنسز ملیں گے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق جج کا تبادلہ مستقل ہو گا تو کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملے گا، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفیکیشن میں مستقل یا عارضی ٹرانسفر کا ذکر نہیں، اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ ٹرانسفرنگ ججز نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا اور ان سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی۔

آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ طلب کر لیے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ دیے جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 17 جنوری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری جبکہ 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی، عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 10 فروری اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر کا نام بھی شامل تھا مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی درخواست میرٹ پر مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے ججز تبادلہ کیخلاف دیگر درخواستوں کو نا قابل سماعت قرار دیکر خارج کرنے کا تقاضا کیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے جس کے بعد وکیل فیصل صدیقی صاحب بھی جواب الجواب دلائل دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی ٹرانسفر جسٹس شکیل احمد جسٹس عامر فاروق جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سینیارٹی منصور عثمان اعوان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل اسلام ا باد ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی جسٹس شکیل احمد جسٹس عامر فاروق جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سینیارٹی منصور عثمان اعوان اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل منصور عثمان جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز جسٹس شکیل احمد نے کا کہنا تھا کہ جج جسٹس عامر فاروق ججز ٹرانسفر کے اٹارنی جنرل کا پر اٹارنی جنرل سینیارٹی کیس کے چیف جسٹس کونسا اصول سپریم کورٹ مزید پڑھیں کا تبادلہ آرٹیکل 200 کورٹ میں افغان کا ججز کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

ہمارے خلاف ریاستی جبر و فسطائیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے،عامر ڈوگر

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نجی ٹی وی پروگرام میں ملک کی سیاسی صورتحال پر اہم گفتگو ہوئی، جس میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کے رہنماؤں نے اپنی رائے دی۔

تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا ایک اہم اجلاس آج منعقد ہوگا اور کل پریس کانفرنس کے ذریعے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگست میں ایک بڑی اور ملک گیر تحریک شروع کی جائے گی جو جمہوری اور آئینی اصولوں پر مبنی ہوگی۔ عامر ڈوگر نے اس موقع پر کہا کہ ریاستی جبر اور فسطائیت کے باوجود تحریک انصاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل صرف سیاسی مذاکرات میں ہے اور گولی یا تشدد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ “ہم پر گولیاں برسائی گئیں مگر ہمارا نظریہ زندہ ہے،” انہوں نے کہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے لیکن اس کی کچھ حدود اور اخلاقی دائرہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک کے سیاسی مسائل کا حل تمام سیاسی قوتوں کے باہمی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

جے یو آئی ف کے سینئر رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے انتخابی عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک بھر میں دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انتخابی حلقے کھولے جائیں تو سچائی سامنے آ جائے گی۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگرچہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کا ماضی تلخیوں سے خالی نہیں، تاہم جمہوری عمل کو آگے بڑھانا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

پروگرام کے میزبان شوکت پراچہ کے سوالات کے جواب میں رہنماؤں نے ملکی سیاسی صورتحال پر کھل کر گفتگو کی اور آئندہ سیاسی تحریک کے حوالے سے اہم پیغامات دیے۔
مزیدپڑھیں:بھارت کو بڑا دفاعی جھٹکا، برازیل نے’ آکاش‘ میزائل سکیم مسترد کر دی

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے آئندہ ہفتے کا ججز روسٹر اور کاز لسٹ جاری
  • ہمارے خلاف ریاستی جبر و فسطائیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے،عامر ڈوگر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ: سابقہ میاں بیوی کے درمیان پلاٹ کی مشترکہ ملکیت برقرار، مہر اور زائد نان نفقہ کا دعویٰ مسترد
  • عافیہ کیس، رپورٹ نہ آنے پر کابینہ ہی نہیں، وزیراعظم کیخلاف کارروائی ہو گی: اسلام آباد ہائیکورٹ
  • وزن کم کرنے کا آسان اصول سامنے آگیا، مصروف افراد کے لیے بڑی سہولت
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس،اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو طلب کرنے کا عندیہ
  • عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا عندیہ
  • عافیہ صدیقی وطن واپسی کیس ؛رپورٹ پیش نہیں کی گئی تو صرف کابینہ نہیں وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی  ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب(سابق افغان جنرل کے ہوشرباانکشاف)
  • ای سی ایل سے نام نکالنے کی اعظم سواتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ