اسلام آباد (خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے قومی فریم ورک ناگزیر ہے۔ قانون و انصاف کمشن کے زیراہتمام عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر سمپوزیم کا اہتمام کیا گیا، جس میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، سپریم کورٹ کے ججز اور ماہرین نے شرکت کی۔ جسٹس شاہد وحید نے پاکستان کے عدالتی نظام میں معلوماتی ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور ارتقاء کا جائزہ پیش کیا، چیف جسٹس نے نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے اقدامات کو سراہا۔ سمپوزیم کے شرکاء سے گفتگو، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھاکہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا انضمام وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان عدالتوں کو عوام کے لیے مزید قابل رسائی اور شفاف بنایا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں ای فائلنگ، ویڈیو لنک، ڈیٹا اینالٹکس کا نفاذ کر رہے ہیں۔ عدالتی ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے قومی فریم ورک ناگزیر ہے، عوامی اعتماد اور انصاف کی بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال لازم ہے۔ سمپوزیم میں بین الاقوامی ماہرین نے پاکستانی عدالتی نظام میں اصلاحات پر اظہار خیال کیا، سپریم پیپلز کورٹ آف چائنہ کی نمائندہ لی ژیاؤہوئی نے چین کی عدالتی اصلاحات میں ڈیجیٹل سفر بیان کیا۔ ریکٹر استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈاکٹر حسن مندل نے دنیا بھر میں عدالتوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر روشنی ڈالی، ترکی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر چیتن الماس نے انصاف کی فراہمی میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کردار پر گفتگو کی۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق پروگرام کو تاریخی قرار دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا انضمام محض جدیدیت نہیں بلکہ عوا م کے لئے عدالتوں کو زیادہ قابل رسائی‘ شفاف اور مؤثر بنانے کا ایک لازمی ذریعہ ہے۔چیف جسٹس یحییٰ آ فریدی نے سمپوزیم کو بروقت قرار دیا جو قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی (این جے پی ایم سی) کے آئندہ اجلاس کے اصلاحاتی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ چیف جسٹس نے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس علی باقر نجفی (ججز سپریم کورٹ آف پاکستان) /چیئرمین و ممبران نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی) این جے اے سی(اور قانون و انصاف کمیشن آف پاکستان) ایل جے سی پی کی قیادت میں اس اقدام کو سراہا۔ انہوں نے بین الاقوامی مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور چینی سپریم پیپلز کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ژانگ جن اور ترکی کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جسٹس قادر اوزکایا کے مسلسل تعاون اور عدالتی اشتراک پر شکریہ ادا کیا۔ اصلاحاتی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے چیف جسٹس نے حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے متعارف کردہ ڈیجیٹل اختراعات جیسا کہ ای-فائلنگ، فیصلوں پر کیو آر کوڈز، ویڈیو لنک سماعتوں کی توسیع، شہری رائے کے پورٹل اور مقدمات کی نگرانی کے لیے ڈیٹا اینالٹکس کے استعمال کا ذکر کیا تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈیجیٹل خلیج، بدلتے قانونی ڈھانچے اور سائبر سکیورٹی کے خطرات اب بھی اہم چیلنجز ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی میں مزاحمت اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے اور ایک جامع قومی فریم ورک کی ضرورت ہے جو عدالتی ڈیجیٹل تبدیلی کی راہنمائی کرے جس میں مضبوط سائبر سکیورٹی پروٹوکولز، اے آئی کے استعمال کے لیے اخلاقی رہنما اصول اور اعلیٰ عدالتوں، عدالتی اکیڈمیوں، سرکاری اداروں، تعلیمی اداروں اور قانونی برادری کے درمیان تعاون کا کلچر شامل ہو۔ انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ وہ اتحاد اور عزم کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ ایسا عدالتی نظام تشکیل دیا جا سکے جو حال کی ضروریات کو پورا کرے اور آنے والی نسلوں کا اعتماد حاصل کرے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: عدالتی نظام میں میں ٹیکنالوجی چیف جسٹس نے کے استعمال سپریم کورٹ جسٹس یحیی انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کے مقدمات کا ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کردی

اسلام آباد:

عدالت عظمیٰ نے فواد چوہدری کے مقدمات کا ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شکر کریں عدالتیں کام کررہی ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی 9 مئی کے مقدمات کو یکجا کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے  لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کا حق متاثر نہ ہو، اس لیے فریقین کی موجودگی میں فیصلہ تحریر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور فواد چوہدری کو چیمبر میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’شکر کریں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مختلف اضلاع میں مقدمات ہونے کی وجہ سے درخواست گزاروں کو استثنا حاصل ہو رہا ہے، حتیٰ کہ فواد چوہدری کو بھی لاہور ہائی کورٹ سے حاضری سے استثنا ملا ہے۔

اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے اعتراض اٹھایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس میرٹس پر نہیں چلا، بلکہ صرف ناقابلِ سماعت قرار دے کر اعتراض عائد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھنے کا باقاعدہ اسپیکنگ آرڈر جاری نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ اعتراضات بھی لاہور ہائی کورٹ نے ہی دیکھنے ہیں، اس لیے کیس وہیں سنا جانا چاہیے۔

عدالت عظمیٰ نے فواد چوہدری کی جانب سے مقدمات کے ٹرائل کو حتمی فیصلے تک روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل پر حکم امتناع دینا ہائی کورٹ کا اختیار ہے۔ فواد چوہدری نے شکایت کی کہ ان کا ٹرائل رات بارہ بجے تک جاری رہتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ’شکر کریں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔‘

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو دونوں فریقین کے مقدمات پر اثر پڑ سکتا ہے، اس لیے یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہی طے ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا پی ٹی سی ایل پنشنرز کے حق میں فیصلہ، 90 دن میں ادائیگی کا حکم
  • سپریم کورٹ نے پی ٹی سی ایل کے سابق ملازمین کے پنشن کیس پر فیصلہ سنا تے ہوئے انھیں پنشن کاحقدار قراردے دیا
  • پنشن کیس، سپریم کورٹ کا پی ٹی سی ایل پنشنرز کے حق میں فیصلہ دے دیا
  • پولیس پر عوامی اعتماد ہی اصل پیمانہ ہے کہ ہم ایک آئینی ریاست ہیں یا پولیس اسٹیٹ، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: پی ٹی سی ایل کے سابقہ ملازمین پینشن کے مکمل حقدار قرار
  • سپریم کورٹ کا پی ٹی سی ایل پنشنرز کے حق میں فیصلہ ، 90 دن میں ادائیگی کا حکم
  • سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کے مقدمات کا ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کردی
  • ملک ریاض کو عدالتوں میں سنگین مقدمات کا سامنا، اشتہاری قرار، ریڈ وارنٹ جاری
  • سپریم کورٹ ، سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کیخلاف 9مئی کیسز سماعت کیلئے مقرر
  • سپریم کورٹ: رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کا کیس سماعت کے لیے مقرر