Nawaiwaqt:
2025-05-29@00:04:15 GMT

ججز کے تبادلوں میں 4مراحل پر منظوری لازمی ،سپریم کورٹ 

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

ججز کے تبادلوں میں 4مراحل پر منظوری لازمی ،سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ججز تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ججز کے تبادلوں میں4  مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں5رکنی آئینی بنچ نے کی، وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس قانون میں ججز کی تقرری کا تعلق صرف صوبوں سے ہے، جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کے نافذ ہونے کے بعد آرٹیکل 200 غیر مؤثر ہو چکا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ تبادلوں کے موجودہ نظام میں جوڈیشل کمشن کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، جو آئینی روح کے منافی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ سے ججز کے تبادلوں کے اثرات سب پر واضح ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے4 فورمز کی منظوری لازم ہے۔ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل200  کے تحت ججز کا ٹرانسفر مستقل بھی ہوتا ہے عارضی بھی۔ عارضی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن میں ذکر ہوتا ہے۔ عارضی ٹرانسفر پر ججز کو اضافی مراعات بھی ملتی ہیں۔ مستقل ٹرانسفر پر سرکاری رہائش ملتی ہے۔ محدود مدت کے لیے تبادلے پر جج اپنی اصل ہائیکورٹ میں واپس چلا جاتا ہے۔ اگر جج کا تبادلہ مستقل ہو تو پہلی والی ہائیکورٹ سے اس کی سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے پر آئے ججز کو مستقل سرکاری رہائش فراہم کی گئی لیکن تبادلے پر آئے ججز کو کوئی اضافی الائونسز نہیں مل رہے اور تبادلے پر آئے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جج کو حلف نئی تقرری پر اٹھانا پڑتا ہے۔ ججز تبادلے پر آئے ہیں، نئی تقرری نہیں ہوئی۔ جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دئیے کہ ہر جج نے اپنی ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا ہے۔ ہر ہائیکورٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تھرڈ شیڈول میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الگ حلف کا ذکر نہیں۔ آئین میں حلف کے لیے ہائیکورٹس کا ذکر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے وہی حلف لیا جو تبادلے پر آئے ججز نے اپنی تقرری کے بعد اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے تمام ججز کا حلف ایک جیسا ہے۔ عدالت کے سامنے5 ججز کی درخواست ہے، جن میں صرف جسٹس محسن اختر کیانی سپریم کورٹ میں جج بننے کی دوڑ میں ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل200  پر تبادلے کا نیا حلف نہیں ہو گا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل200  میں نئے حلف اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ججز ٹرانسفر کی آخری سمری میں حلف نہ اٹھانے کا ذکر کیوں کیا گیا؟ سنیارٹی اور حلف کو ججز ٹرانسفرز کی ابتدائی سمریوں میں چھپایا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی سنیارٹی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا ججز کا حلف اور سنیارٹی سیکرٹری قانون طے کرے گا؟ کیا کسی نے سیکرٹری قانون سے حلف اور سنیارٹی پر رائے مانگی تھی؟ سیکرٹری لانے آخری سمری میں سنیارٹی اور حلف کی وضاحت کیوں کی؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم کو ایڈوائس کے لیے بھیجی سمری انتظامی نوعیت کی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دئیے کہ سیکرٹری قانون کو آخری سمری میں یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ٹرانسفر ججز کو نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں۔ کیا سنیارٹی سے متعلق اصل حقائق کو چیف جسٹس صاحبان سے چھپایا گیا؟۔ اسی وجہ سے درخواست گزاران کی طرف سے بدنیتی پر سوالات اٹھائے گئے۔ کیا سیکرٹری قانون نے آخری سمری میں سنیارٹی خود طے نہیں کردی؟۔ کیا سیکرٹری قانون ایسا کرنے کے اہل تھے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلے پر آئے ججز اٹارنی جنرل نے سیکرٹری قانون فیصل صدیقی نے ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ چیف جسٹس کورٹ میں کی ضرورت کورٹ کا ججز کی ججز کا ججز کو ججز کے کہا کہ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس: درخواست گزار ججز کے وکلا نے عدالت کو تمام باتیں نہیں بتائیں، جسٹس محمد علی مظہر

سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اٹارنی جنرل نے ججز ٹرانسفر کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں، ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کا درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ٹرانسفر پر آئے ججز کو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکرٹری لا نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وضاحت کی وجہ یہ تھی کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا, جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کا درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی استدعا کیا تھی؟

اٹارنی جنرل نے کہا ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 میں ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضع ہے، ججز ٹرانسفرز کے معاملے پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے، ایگزیکٹیو کو نہیں، ججز ٹرانسفرز کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گئی، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا سنیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، سنیارٹی کے معاملے کو طے کرنا اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اختیار تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنایا جائے گا، آئین خاموش ہے، اس معاملے میں کونسا اصول اپنایا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا؟ جسٹس ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15 ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے پر آگئے۔

جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ ججز دیگر ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سنیارٹی طے کرنے کے مجاز نہیں تھے، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہوچکے تھے، لہٰذا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔

جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، یہ ابھی طے ہونا ہے، جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب 3 سوالات پر عدالت کی معاونت کیجیے، اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہوتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹس سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل جج ہیں، ایڈیشنل ججز کی مستقل ہونے کے لیےکارکردگی کون جانچے گا، بلوچستان ہائیکورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس؟ سنیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ دیگر ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا ہے؟

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا، آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا، یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہیں ہو سکتا۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، یہاں ججز کے تبادلے میں عوامی مفاد کیا تھا نوٹیفکیشن میں اسکا ذکر نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی وال لگا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن ایک اور دو کو ایک ساتھ پڑھا جائے؟ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی شق 2 کے تحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ جج کا تبادلہ عارضی ہوگا، ذیلی سیکشن کے تحت اضافی الاؤنسز ملیں گے، جج کا تبادلہ مستقل ہو گا تو کوئی اضافی الاونس نہیں ملے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ذیلی سیکشن کی زبان واضع نہیں ہے، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفیکیشن میں مستقل یا عارضی ٹرانسفر کا ذکر نہیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسفرنگ ججز میں سے کسی نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا، ٹرانسفرنگ ججز سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی۔

دوران سماعت آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن اجلاسوں کے منٹس آف میٹنگ طلب کر لے، جسٹس نعیم اختر افغان نے ہدایت کی کہ 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ دیے جائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا 17 جنوری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی، 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا 10 فروری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر بھی شامل تھے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا جی بلکل وہ لسٹ میں شامل تھے مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے ججز سینیارٹی کیس میں دلائل مکمل کرتے ہوئے ججز کے تبادلے کیخلاف درخواستیں میرٹ پر مسترد کرنی کی استدعا کردی اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواست میرٹ پر مسترد کی جائے جبکہ دیگر درخواستوں کو نا قابل سماعت قرار دے کر خارج کیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر درخواست گزار ججز کے وکیل جواب الجواب دلائل دیں گے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے منٹس طلب
  • جج ٹرانسفر کرکے جوڈیشل کمیشن کا اختیارغیرموثر کیا جاسکتا ہے؟ اصول کیا ہے؟کیسے طےکیا گیا؟ سپریم کورٹ
  • ججز ٹرانسفر کیس: درخواست گزار ججز کے وکلا نے عدالت کو تمام باتیں نہیں بتائیں، جسٹس محمد علی مظہر
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر کے لیے کونسا اصول اپنایا گیا؟ جسٹس نعیم افغان کا استفسار
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے ٹرانسفر کے عمل میں 4جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی، سپریم کورٹ
  • ججز ٹرانسفر کے عمل میں 4 جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی: سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلوں میں 4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے،  سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلوں میں 4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے: سپریم کورٹ
  • ججز کے تبادلوں میں 4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے، سپریم کورٹ