ججز کے تبادلوں میں 4مراحل پر منظوری لازمی ،سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ججز تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ججز کے تبادلوں میں4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں5رکنی آئینی بنچ نے کی، وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس قانون میں ججز کی تقرری کا تعلق صرف صوبوں سے ہے، جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کے نافذ ہونے کے بعد آرٹیکل 200 غیر مؤثر ہو چکا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ تبادلوں کے موجودہ نظام میں جوڈیشل کمشن کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، جو آئینی روح کے منافی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ سے ججز کے تبادلوں کے اثرات سب پر واضح ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے4 فورمز کی منظوری لازم ہے۔ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر مستقل بھی ہوتا ہے عارضی بھی۔ عارضی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن میں ذکر ہوتا ہے۔ عارضی ٹرانسفر پر ججز کو اضافی مراعات بھی ملتی ہیں۔ مستقل ٹرانسفر پر سرکاری رہائش ملتی ہے۔ محدود مدت کے لیے تبادلے پر جج اپنی اصل ہائیکورٹ میں واپس چلا جاتا ہے۔ اگر جج کا تبادلہ مستقل ہو تو پہلی والی ہائیکورٹ سے اس کی سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے پر آئے ججز کو مستقل سرکاری رہائش فراہم کی گئی لیکن تبادلے پر آئے ججز کو کوئی اضافی الائونسز نہیں مل رہے اور تبادلے پر آئے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جج کو حلف نئی تقرری پر اٹھانا پڑتا ہے۔ ججز تبادلے پر آئے ہیں، نئی تقرری نہیں ہوئی۔ جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دئیے کہ ہر جج نے اپنی ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا ہے۔ ہر ہائیکورٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تھرڈ شیڈول میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الگ حلف کا ذکر نہیں۔ آئین میں حلف کے لیے ہائیکورٹس کا ذکر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے وہی حلف لیا جو تبادلے پر آئے ججز نے اپنی تقرری کے بعد اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے تمام ججز کا حلف ایک جیسا ہے۔ عدالت کے سامنے5 ججز کی درخواست ہے، جن میں صرف جسٹس محسن اختر کیانی سپریم کورٹ میں جج بننے کی دوڑ میں ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل200 پر تبادلے کا نیا حلف نہیں ہو گا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل200 میں نئے حلف اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ججز ٹرانسفر کی آخری سمری میں حلف نہ اٹھانے کا ذکر کیوں کیا گیا؟ سنیارٹی اور حلف کو ججز ٹرانسفرز کی ابتدائی سمریوں میں چھپایا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی سنیارٹی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا ججز کا حلف اور سنیارٹی سیکرٹری قانون طے کرے گا؟ کیا کسی نے سیکرٹری قانون سے حلف اور سنیارٹی پر رائے مانگی تھی؟ سیکرٹری لانے آخری سمری میں سنیارٹی اور حلف کی وضاحت کیوں کی؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم کو ایڈوائس کے لیے بھیجی سمری انتظامی نوعیت کی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دئیے کہ سیکرٹری قانون کو آخری سمری میں یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ٹرانسفر ججز کو نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں۔ کیا سنیارٹی سے متعلق اصل حقائق کو چیف جسٹس صاحبان سے چھپایا گیا؟۔ اسی وجہ سے درخواست گزاران کی طرف سے بدنیتی پر سوالات اٹھائے گئے۔ کیا سیکرٹری قانون نے آخری سمری میں سنیارٹی خود طے نہیں کردی؟۔ کیا سیکرٹری قانون ایسا کرنے کے اہل تھے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلے پر آئے ججز اٹارنی جنرل نے سیکرٹری قانون فیصل صدیقی نے ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ چیف جسٹس کورٹ میں کی ضرورت کورٹ کا ججز کی ججز کا ججز کو ججز کے کہا کہ
پڑھیں:
کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
کراچی:گجر، اورنگی اور محمود آباد کے نالہ متاثرین نے حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر حربے آزمانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گجر، اورنگی، محمود آباد کے نالہ متاثرین نے کہا کہ پلاٹ کی الاٹمنٹ تک ہر خاندان کو 30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے اور ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہوسکے ۔
نالہ متاثرین نے متاثرین نے سپریم کورٹ سے عدالتی حکم کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ نہ دینے، تعمیراتی رقم میں اضافے اور پلاٹ کی الاٹمنٹ تک کرائے کی ادائیگی کے مطالبات کردیے اور کہا کہ انہیں اب تک ان کا حق نہیں دیا گیا اور حکومت کی غفلت، افسران کی بدعنوانی اور انصاف کی نفی کے خلاف عدالت عظمیٰ سےنوٹس لینے کی اپیل کردی۔
کراچی بچاؤ تحریک کے تحت خرم علی نیئر، عارف شاہ اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال قبل 2020 کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد کراچی کو جو نقصان پہنچا، اس کا گزشتہ برسوں کے دوران سارا ملبہ کچی آبادیوں پر ڈالا گیا، 2021 میں گجر، اورنگی اور محمودآباد نالوں کے اطراف کے ہزاروں مکان مسمار کیے گئے اور تقربیاً 9 ہزار سے زائد گھروں کی تباہی سے 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گجر نالے کے عوام کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے کم سے کم عدالت نے ان متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ دیا اور جب تک انہیں آباد نہیں کیا جاتا انہیں کرایہ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا مگر متاثرین کو فقط دسمبر 2023 تک کرائے جاری کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے آخری حکم نامے میں ہر متاثرہ خاندان کو ہر مسمار مکان کے عوض 80 گز کا پلاٹ اور تعمیراتی رقم جاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر حکومت سندھ نے محض معمولی تعمیراتی رقم جاری کی، جس سے ایک کمرہ بنوانا مشکل تھا جبکہ پلاٹ 2027 تک دینے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
متاثرین نے مطالبہ کیا کہ فی خاندان30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے، جب تک پلاٹ الاٹ اور تعمیر ممکن نہ ہو اس وقت تک ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو دو ہزار سے زائد شکایات خارج کی گئیں ان کا فوری اندراج کیا جائے اور اندراج کا عمل مکمل طور پر شفاف اور عوامی نگرانی میں ہو، نیز پلاٹس 90 دن کے اندر الاٹ کیے جائیں اور متبادل اراضی فراہم کی جائے۔
متاثرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کا فوری نفاذ یقینی بنایا جائے، عدالت نے جو 80 گز پلاٹ اور تعمیراتی معاوضہ طے کیا تھا، اس میں کسی قسم کی تاخیر یا من مانی قبول نہیں ہوگی۔
مزید کہا کہ جو لوگ بے گھر ہونے کے نتیجے میں دل کے دورے پڑنے یا حادثات میں ہلاک ہوئے، ان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ اور سرکاری امداد دی جائے اور تمام چیک کا اجرا، پلاٹ الاٹمنٹ اور اندراج کا عمل آن لائن شفاف ریکارڈ میں ڈال دیا جائے اور متاثرین اور سول سوسائٹی کی مستقل نگرانی ممکن بنائی جائے۔
متاثرین نے کہا کہ اگر ان مطالبات کو ایک ہفتے تک پورا نہیں کیا گیا تو کراچی بچاؤ تحریک متعلقہ قانونی راستوں کے ساتھ ساتھ پر امن مگر سخت عوامی احتجاج، دھرنے اور سڑکوں پر مؤثر تحریک شروع کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدام کرے اور حکومت اور بیوروکریسی کو نوٹس جاری کرے۔