عدالت نے کہا ہے کہ مسنگ پرسن سے متعلق عدالت کو ان کیمرا بریفنگ دینے کے لیے متعلقہ حکام سے مشاورت کی جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، وزارت دفاع و داخلہ کے نمائندے متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد مشترکا رپورٹ پیش کریں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو چھ ہفتے میں لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کا تقرر کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 2015ء سے لاپتا شہری عبداللہ عمر کہ اپیلیں زینب زعیم کی پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ مسنگ پرسن سے متعلق عدالت کو ان کیمرا بریفنگ دینے کے لیے متعلقہ حکام سے مشاورت کی جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، وزارت دفاع و داخلہ کے نمائندے متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد مشترکا رپورٹ پیش کریں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت چھ ہفتے میں لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کا تقرر کرے، کیس ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار کے شوہر محمد عبداللہ عمر 2015ء سے لاپتا ہیں۔

تحریری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ دس سال گزرنے کے باوجود مسنگ پرسن کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کی وفات کے بعد نئے چیئرمین کا عہدہ تاحال خالی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت پاکستان چیئرمین لاپتا افراد کمیشن کی تعیناتی کے پراسیس میں ہے، چیئرمین کی تعیناتی کے فوری بعد متاثرہ خاندان کے لیے سپورٹ پیکج کا معاملہ اسپیشل کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اسپیشل کمیٹی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور وزارت انسانی حقوق کے سیکرٹریز پر مشتمل ہے، اسپیشل کمیٹی چیئرمین لاپتا افراد کمیشن کی نگرانی میں درخواست دہندہ کے کیس کا جائزہ لے گی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پچاس لاکھ روپے ہر متاثرہ خاندان کے لیے جاری کیے جائیں گے۔

عدالت نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مسنگ پرسن کی فیملی کے لیے ضروریات زندگی کو پورا کرنا نہایت مشکل ہے، چیئرمین تعینات ہونے کے بعد دو ہفتوں میں متاثرہ فیملی کو سپورٹ پیکیج کا فیصلہ کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افراد کمیشن کے چیئرمین متعلقہ حکام سے مشاورت ایڈیشنل اٹارنی جنرل لاپتا افراد کمیشن عدالت کو عدالت نے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

غزہ: اسرائیلی امریکی مشترکہ امدادی مراکز پر چھ ہفتوں میں 798 ضرورتمند ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے حکام نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے مراکز پر خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کو ہولناک اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

27 مئی کو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے غزہ میں امداد کی تقسیم کا متبادل نظام لاگو کیے جانے کے بعد کم از کم 798 افراد خوراک کے حصول کی کوشش میں فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں کم از کم 615 ہلاکتیں 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' (جی ایچ ایف) کے مراکز پر ہوئیں جبکہ 183 افراد امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ Tweet URL

'جی ایچ ایف' کو امداد کی تقسیم کا کام اسرائیل اور امریکہ نے سونپا ہے اور اس کا اقوام متحدہ یا اس کے اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ان ہلاکتوں پر تشویش اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خوراک کے حصول کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ ناقابل قبول اور نامعقول عمل ہے۔

بین الاقوامی قانون کی پامالی

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان روینہ شمداسانی نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں وسطی علاقے دیرالبلح میں اقوام متحدہ شراکت دار امدادی ادارے پراجیکٹ ہوپ کے مرکز پر امداد کے انتظار میں کھڑے افراد پر فائرنگ سے 15 ہلاکتیں ہوئیں جن میں نو بچے بھی شامل تھے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں پر عملدرآمد کے حوالے سے سنگین خدشات سامنے آئے ہیں۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں فلسطینی شہریوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہونے والے بیشتر لوگوں کو فائرنگ کے زخم آئے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان کرسچین لنڈمیئر کا کہنا ہے کہ امدادی مراکز پر لوگوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا جا رہا ہے۔

ہزاروں خواتین، بچے، مرد، لڑکے اور لڑکیاں امدادی مراکز پر، پناہ گاہوں میں، راستوں پر یا طبی مراکز میں ہلاک ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جو کسی طور قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایندھن کا بحران

کرسچین لنڈمیئر نے کہا ہے کہ 130 یوم کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں 75 ہزار لٹر ایندھن آیا ہے جس کی اس موقع پر اشد ضرورت تھی۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ایندھن، خوراک اور دیگر امدادی سامان کو بڑی مقدار میں اور تواتر سے غزہ میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہسپتالوں اور ایمبولینس گاڑیوں کو فعال رکھا جا سکے اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ، تنور اور طبی مراکز میں انکیوبیٹر کام کرتے رہیں۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ غزہ میں 94 فیصد ہسپتالوں کو جنگ میں نقصان پہنچا ہے یا وہ پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیل کی فوج کے احکامات پر لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تنگ اور گنجان علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ حالیہ دنوں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کا مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔ امن ہی بہترین دوا ہے اور غزہ کے تمام سرحدی راستے کھولنا ہی علاقے میں تمام لوگوں کو ضروری مدد پہنچانے کا واحد طریقہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسلم اکثریتی علاقے میں شراب کھولنے کی اجازت ، عدالت نے متعلقہ اداروں کو طلب کرلیا
  • غزہ: اسرائیلی امریکی مشترکہ امدادی مراکز پر چھ ہفتوں میں 798 ضرورتمند ہلاک
  • عدالتی پالیسی ساز کمیٹی اجلاس، لاپتا افراد معاملے پر تشویش
  • چیف جسٹس کی سربراہی میں اجلاس، لاپتا افراد کے معاملے پر سمجھوتہ نہ کرنے اور گہری تشویش کا اظہار
  • چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی کا اجلاس، لاپتا افراد کے معاملے پر گہری تشویش
  • چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیٹی کا اجلاس، لاپتا افراد کے معاملے پر گہری تشویش 
  • ٹیکساس میں سیلاب سے ہلاکتیں 120 تک پہنچ گئیں، 170 افراد اب بھی لاپتا
  • چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی مدت ختم، 32 رکنی ایجنڈہ پر مبنی پالیسی ساز اجلاس طلب
  • امریکا میں بارشوں سے تباہی، درجنوں افراد ہلاک، سیکڑوں لاپتا، گھر بہنے کی ویڈیو وائرل
  • چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی ٹی ڈاپ کیس کے 9 مزید مقدمات سے بری