UrduPoint:
2025-11-03@10:42:10 GMT

محققین نے یورالک لوگوں سے متعلق قدیم معمہ حل کرلیا

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

محققین نے یورالک لوگوں سے متعلق قدیم معمہ حل کرلیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) محققین نے یورالک زبانوں کی ابتدا کے بارے میں ایک قدیم معمہ حل کر لیا ہے۔ یہ زبانیں ہزاروں سال پہلے بولی جاتی تھیں لیکن ان کے بولنے والے ابتدائی لوگ کون تھے؟

یہ جاننے کے لیے، محققین نے جینیاتی اور آثار قدیمہ کے اعداد و شمار کو مربوط کر کے ان لوگوں کے آباؤ اجداد کا پتہ لگایا جو اب یورالک زبانیں بولتے ہیں۔

قدیم ثقافتی روایات کے تحفظ کی کوششیں

جریدہ ’نیچر‘میں شائع ہونے والی ان کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 11,000 اور 4,000 سال قبل کے درمیان یوریشیا میں یورالک بولنے والی آبادی کے پھیلاؤ کے لیے انہیں کس طرح ایک ’جینیاتی ٹریسر ڈائی‘ملا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح یورالک لوگ سائبیریا سے بحیرہ بالٹک اور مشرقی ایشیا تک ہجرت کر کے اپنے ساتھ تکنیکی ترقی اور یورالک زبان لے کر آئے۔

(جاری ہے)

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج کل رہنے والے 25 ملین سے زائد یورالک زبان بولنے والے اپنے ڈی این اے میں اس نسب کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

یورپ میں دو سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں

ایسٹونیا کی ٹارٹو یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کی ماہر کرسٹینا ٹمبیٹس، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، نے کہا، ’’یہ مطالعہ میرے لیے بحیثیت اسٹونین ناقابل یقین حد تک دلچسپ ہے۔

ہم یورالک بولنے والوں میں سائبیرین ڈی این اے کا یہ تھوڑا سا حصہ ہے۔ ہمارے کل ڈی این اے کا تقریباً 5 فیصد۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جین تمام یورالک لوگوں کو ہماری آبائی ثقافتوں اور زبانوں سے جوڑتے ہیں۔‘‘ یورالک لوگوں کا آبائی وطن؟

سائنسدانوں نے اس سے قبل ہند یورپی زبانوں کی جڑوں کا سراغ لگایا ہے۔ یہ لسانی جڑ وسطی ایشیا سے یورپ اور بھارت کی طرف ہجرت کرنے والے لوگوں کے ذریعے 5000 سال پہلے شروع ہوئی۔

آخرکار، زبان جرمن، سلاوی، اور رومانی جیسے جدید گروہوں میں پھیل گئی۔

لیکن یورالک زبانیں بالکل مختلف ہیں۔ ماہرین اس زبان کی اصلیت یا اسے کون لوگ بولتے تھے، کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورالک زبانیں، مثلاﹰ ایسٹونیا، ہنگری اور فن لینڈ میں بولی جانے والی زبانیں، انڈو-یورپی زبانوں کے مقابلے میں، ایک بالکل مختلف لسانی اصل سے آتی ہیں۔

تاریخ لکھنے کا آغاز کب ہوا اور اس کی بنیادیں کیسے بنتی ہیں؟

ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ یورالک زبانیں جدید دور کے روس اور قازقستان میں، یورال پہاڑوں کے قریب کہیں سے شروع ہوئیں۔ لیکن بحث یہ ہے کہ اس کی اصل جگہ کہاں تھی، اور یوریشیا میں یورالک زبانیں کیسے پھیلیں۔

مطالعہ کے مصنفین کا مقصد قدیم یورالک لوگوں کے جینز کا مطالعہ کرکے اس معمہ کو حل کرنا تھا۔

قدیم افراد کے ڈی این اے کے نمونوں اور تغیرات کا تجزیہ کرکے، وہ اس بات کی از سر نو تشکیل کر سکتے ہیں کہ اس آبادی نے کئی نسلوں میں کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی۔

انہوں نے 180 قدیم یورالک لوگوں کے جینوم کا تجربہ کیا، جو 11,000-4,000 سال پہلے یوریشیا کے ایک بہت بڑے علاقے میں رہتے تھے- اس میں جدید دور کے روس اور اس کے پڑوسیوں کی پوری رینج کا احاطہ کیا گیا۔

انہوں نے اس قدیم جینومک ڈیٹا کا موازنہ دوسرے 1,312 قدیم لوگوں کے ڈی این اے سے کیا جن کا سائنسدانوں نے پہلے ہی مطالعہ کیا تھا۔

پاکستان کا لسانی ورثہ: 74 زبانوں کا ادبی عجائب گھر

ان کے اعداد و شمار نے اس بات کی ایک پیچیدہ تصویر دکھائی کہ کس طرح یورالک لوگوں نے ہزاروں سالوں میں سائبیریا کے متعدد اصل علاقوں سے ہجرت کی۔

اس تحقیق کے پہلے مصنف ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ کے تیان چن زینگ نے کہا، ’’ہمارا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ دور کے یورالک بولنے والے اپنا تعلق اپنے آباؤ اجداد کا ایک حصہ مشرق سے بہت دور، سائبیریا کے یاکوتیا علاقے سے پاتے ہیں۔

‘‘

ان ہجرت کرنے والے لوگوں کی جینیات کا سراغ لگاتے ہوئے، محققین نے پایا کہ ابتدائی پروٹو یورالک لوگ ہزاروں سالوں میں کئی مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔

ایک بڑا گروپ مغرب کی طرف بالٹک یعنی فن لینڈ، ایسٹونیا اور شمال مغربی روس جیسے علاقے کی طرف چلا گیا، جہاں آج کل یورالک زبان بولنے والے رہتے ہیں۔

سینکڑوں زبانیں ناپیدگی کے خطرے سے دوچار

ایک اور پروٹو یورالک گروپ جسے ینیسیئن کہتے ہیں، تقریباً 5,400 سال قبل وسطی سائبیریا میں رہنے کے لیے چلے گئے۔

وہاں، زندہ رہنے والی ینیسیائی زبان صرف کیٹ ہے۔

اور ایک اور شاخ تقریباً 4,500 سال قبل مشرقی ایشیا میں ہجرت کر گئی تھی، جس کے بارے میں مصنفین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے یورالک بولنے والے لوگ کچھ مشرقی ایشیائی نسب رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ پھر امریکہ کی طرف ہجرت کر گئے اور مقامی امریکیوں کی طرح پروان چڑھے۔

وسطی یوریشیائی میدانی سرزمین کے دیگر یورالک گروہ تقریباً 3,000 سال قبل مغرب کی طرف ہنگری میں ہجرت کر گئے تھے۔

یہ مطالعہ اس خیال کی بھی تائید کرتا ہے کہ مشرقی یورال پہاڑ یورالک زبانوں کا وطن ہے۔

ٹمبیٹس نے کہا، ’’یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ لوگ اپنے جین کی بنیاد پر کون سی زبانیں بولتے ہیں۔‘‘

جدید ثقافت پر قدیم یورالک لوگوں کے اثرات

اسٹونین روٹس کے سینٹر آف ایکسیلنس کے سربراہ ٹمبیٹس نے کہا کہ یہ مطالعہ نسب کے بارے میں سوالات کو حل کرنے کا ’’طریقہ‘‘ ہے۔

’’یہ جینیات، زبان اور آثار قدیمہ کے بارے میں تمام مختلف پہلوؤں کو ایک ساتھ لاتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح یورالک بولنے والے لوگ اس بات کا پتہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے کس طرح اس (ہجرت) کے راستے پر عمل کیا اور 4,000 سال پہلے ’سوپر کول‘ تکنیکی ترقی کے ساتھ پھلے پھولے۔‘‘

’سوپر کول ترقی‘ سے ٹمبیٹس کی مراد دھات کاری، خاص طور پر تانبے اور کانسی کی دھات کاری ہے، اور تجارتی نیٹ ورک جو ابتدائی یورالک لوگوں نے تیار کیے تھے۔

زینگ نے ایک ای میل میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے یورالک لوگوں نے ''یورپ جاتے ہوئے مختلف لوگوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر میل جول کی۔‘‘

ٹمبیٹس نے کہا، یہ یورالک لوگ یوریشیا کے آس پاس کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ بالٹک میں،’’ابتدائی (انڈو-یورپی) آباد کار اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد یورالک بولنے والے لوگوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے۔

میں اس انضمام کی ایک موزیک ہوں۔‘‘

اپنی زبانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ، یورالک لوگوں نے انڈو-یورپی زبانوں کو بھی متاثر کیا جو آج زیادہ تر یورپی بولتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ'پانی‘، 'برتن‘اور'مچھلی‘جیسے الفاظ اصل میں پروٹو یورالک سے نکلے ہیں۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورالک زبانیں یورالک زبان کے بارے میں ڈی این اے سال پہلے لوگوں کے والے لوگ کے ساتھ سال قبل نے کہا کی طرف

پڑھیں:

1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت

گلگت بلتستان (جی بی) کے 78ویں یوم آزادی پر تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے پریڈ کا معائنہ کیا۔

صدر آصف زرداری کو گورنر گلگت بلتستان نے جشن آزادی کی تقریب میں روایتی ٹوپی پہنائی، صدر تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے ہیں۔

صدر مملکت کی تقریب میں آمد پر بگل بجایا گیا، صدرمملکت کا گورنر اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے استقبال کیا۔

صدر آصف علی زرداری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1947 میں گلگت بلتستان کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، حالاں کہ اس جنگ میں آپ کے ایک ہزار 700 جوان شہید اور 30 ہزار زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے مذہب کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کی، آج میرا دل آپ کا پیار دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے، یہ میرا گھر ہے، اور آپ سب میرے پڑوسی ہیں

آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے پہلے دور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایف سی آر کو ختم کرکے بادشاہت کا خاتمہ کیا، اور سول انتظامیہ کا نظام دیا، شہید بینظیر بھٹو نے یہاں سول حکومت کا ڈھانچہ بنایا، جب کہ 2008 میں بننے والی ہماری حکومت نے آپ کو قانون ساز اسمبلی کا تحفہ دیا۔

صدر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، یہاں کے پانی سے بجلی بنائی جاسکتی ہے، اور جس طرح کے جہاز میں یہاں آج میں آیا ہوں، وہ زیادہ مہنگے نہیں، اگر یہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے گلگت بلتستان کی اپنی ایئرلائن بن جائے تو کیا ہرج ہے؟

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع ہیں، جن کے لیے کام کیا جانا چاہئے، یہاں کے پہاڑ ہمارا سرمایہ ہیں، یہ کوئی دیوار نہیں ہے۔

صدر زرداری نے کہا کہ بھارت میں آج مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسی لئے آج احساس ہوتا ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے ہمارے لیے جو کام کیا، اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

صدر زرداری نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

تقریب میں آمد پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وقت کی ضرورت ہے، 72 ہزار مربع میل کا گلگت بلتستان کا علاقہ ڈوگروں سے بغیر کسی بیرونی مدد کے آزاد کروایا، اور کلمے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو شہدا کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، جس کے سپوتوں نے پاک فورسز میں ملک کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، گلگت بلتستان دفاعی اہمیت کا حامل ہونے کے علاوہ قدرتی وسائل کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے، تاہم یہاں کے لوگوں کو مختلف چینلجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے صدر زرداری کی جانب سے 2009 میں علاقے کو خودمختاری دینے کے فیصلے کو یاد کیا اور کہا کہ گلگت بلتستان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے سے یہاں کے عوام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا، اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سازشیں بھی خاک میں مل جائیں گی۔

قبل ازیں سرکاری ’پی ٹی وی نیوز‘ کے مطابق وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے یکم نومبر یومِ آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں گلگت بلتستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یکم نومبر 1947 کو ہمارے آباؤ اجداد نے بغیر کسی بیرونی امداد کے، دفاعی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل اس خطے کو ڈوگروں سے آزاد کرایا اور کلمے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنا آسان نہیں تھا، مگر ایک قوم بن کر اتحاد و اتفاق اور غیرتِ ایمانی کے جذبے سے سرشار ہوکر ہمارے بزرگوں نے دشمن کو اس خطے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

وزیرِاعلیٰ حاجی گلبر خان نے کہا کہ آج گلگت بلتستان کو تعمیر و ترقی کے جس مرحلے سے گزرنا ہے، وہ آزادی کے وقت درپیش چیلنجز سے کم نہیں، ہمیں اپنے آباؤ اجداد کے خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے زیادہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور معاشی طور پر خودمختار گلگت بلتستان کی بنیاد رکھ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے قلیل مدت میں آزادی کے حقیقی معنوں کے مطابق پسماندہ علاقوں کی ترقی، محروم طبقے کی فلاح اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر خصوصی توجہ دی ہے۔

وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہداء اور غازیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، آج کے اس تاریخی دن پر ہم اپنے شہدا اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل کا بڑا گروہ بلوچستان کے ساحل پر نمودار
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • جاپانی کمپنی نے پیٹ کی چربی ختم کرنے والا پانی متعارف کرادیا
  • سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
  • لاہور؛ شوہر کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے
  • چوہنگ میں ڈکیتی کی جھوٹی کال کرنے والا ملزم گرفتار
  • لاہور؛ شہری کے قتل کا معمہ حل، بیوی اور اسکا آشنا ملوث نکلے،پولیس
  • کوئٹہ میں سردیوں کی آمد، موسم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدلنے لگے
  • 1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت
  • ’کھودا پہاڑ نکلا تابنا‘، اٹلی کی سبز ممی کا معمہ حل ہوگیا!