سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ان دنوں ایک خبر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے 2025 کے آخر تک 10، 20، 50، 100، 500، 1000 اور 5000 روپے کے نئے ڈیزائن کے کرنسی نوٹس جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فیکٹ چیک کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ خبر بالکل جعلی ہے اور اسٹیٹ بینک نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

وائرل ہونے والے آرٹیکل میں کہا گیا کہ نئے نوٹس میں:

جدید سکیورٹی فیچرز شامل ہوں گے۔ پلاسٹک نما پولیمر میٹیریل استعمال ہوگا۔ 50 روپے کے نوٹ پر مارخور کی تصویر ہوگی۔ نوٹس پر علامہ اقبال کی شاعری کندہ ہوگی۔ 500 روپے کے نوٹ پر یو وی لائٹ میں چمکنے والا نقشہ اور صوفی ڈانسر کا عکس ہوگا۔

وائرل پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ 2024 میں خفیہ آرٹ مقابلہ کروا کر یہ ڈیزائن منتخب کیے گئے۔ لیکن ان تمام دعوؤں کو اسٹیٹ بینک نے مسترد کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس 2025 میں کرنسی نوٹس کے ڈیزائن تبدیل کرنے یا پولیمر نوٹس کے تجربے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ جو نوٹ 2005 سے 2008 کے درمیان متعارف ہوئے، وہی اس وقت بھی قابل استعمال ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گے۔‘‘

اسٹیٹ بینک نے یہ بھی واضح کیا کہ نہ تو علامہ اقبال کی شاعری کندہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے، نہ ہی چمکنے والے نقشے شامل کیے جارہے ہیں۔


یہ خبر جعلی کیوں ہے؟

کوئی مستند ذریعہ نہیں: وائرل آرٹیکل میں “اسٹیٹ بینک ذرائع” جیسے جعلی نام دیے گئے، جبکہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ یا آفیشل ٹوئٹر/X اکاؤنٹ پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

فرضی کہانیاں: 10 لاکھ روپے انعام کے ساتھ ملک گیر آرٹ مقابلے کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے۔

کلیکٹر مارکیٹ کا فریب: یہ کہنا کہ نئے نوٹ 50 ہزار سے 1 لاکھ روپے میں فروخت ہوں گے، بے بنیاد ہے۔

غلط ٹیکنالوجی کے دعوے: اسٹیٹ بینک نے ایسی کسی ہائی ٹیک مواد کے استعمال کا اعلان نہیں کیا جو دنیا کی کرنسی میں بھی کم استعمال ہوتی ہے۔

 


اصل حقیقت کیا ہے؟

اسٹیٹ بینک کرنسی نوٹوں کی سیکیورٹی کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتا رہتا ہے، تاہم اس وقت نوٹوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ آخری بار 2019 میں 1000 روپے کے نوٹ میں سیکیورٹی فیچر اپڈیٹ کیا گیا تھا۔ اگر آئندہ کوئی تبدیلی کی جائے گی تو اسٹیٹ بینک کم از کم 12 سے 18 ماہ پہلے باضابطہ اعلان کرے گا۔

 


جعلی خبر کا نقصان کیا ہوا؟

اس جھوٹی خبر نے عوام میں الجھن پیدا کی۔ کچھ لوگوں نے نئے نوٹوں کے پری آرڈر کے بارے میں پوچھا۔

اسٹیٹ بینک نے خبردار کیا کہ ایسی افواہیں فراڈ اور مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ کرنسی کی قیمت میں 25-30 فیصد سالانہ اضافے کا دعویٰ بھی لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے سائبر حکام کے ساتھ مل کر اس جعلی خبر کے پھیلانے والوں کا پتا لگانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس وقت آپ کے موجودہ کرنسی نوٹ مکمل طور پر قابل استعمال ہیں اور 2025 میں نئے ڈیزائن کے نوٹس جاری کرنے کی کوئی حقیقت نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک نے کرنسی نوٹ روپے کے کیا ہے کے نوٹ

پڑھیں:

پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-6

 

متین فکری

بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔

بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔

اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔

متین فکری

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • پولیس اسٹیٹ
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
  • کینوا نے نیا ڈیزائن ماڈل اور جدید اے آئی فیچرز متعارف کرا دیے
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان