UrduPoint:
2025-09-18@00:10:07 GMT

کون سا ماضی؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

کون سا ماضی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) ماضی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کا استعمال طبقاتی معاشرے میں علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم عروج کے بعد زوال کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ماضی کو سیاسی نظریات پر تشکیل دیتی ہے۔ ماضی کو شاندار بنانے کے لیے فتوحات کا ذکر ہوتا ہے۔ جن میں دشمنوں کو شکست دی گئی اور ان کے مالِ غنیمت کو لوٹ کر مفتوحہ لوگوں کو غلام بنایا گیا۔

جب تاریخ کو فتوحات اور جنگوں کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے تو ان کے ذریعے اشرافیہ لوگوں میں فخر کے جذبات کو پیدا کرتی ہے لیکن اگر تاریخ کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فاتح اور حملہ آور ڈاکوؤں کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کے مال و دولت کو طاقت کے ذریعے لوٹتے ہیں۔

(جاری ہے)

تاریخ میں فاتحین کو عظیم بنانا انسانیت کے ساتھ ایک مذاق ہے کیونکہ یہ لوگوں کا قتل عام کرکے فاتح بنتے ہیں۔

اس لیے یہ تاریخ کے مجرم ہیں۔ اس کی ایک مثال اسکندر کی فتوحات ہیں۔ یونان سے نکل کر اس نے ایران، مصر، افغانستان اور ہندوستان میں لوگوں کا قتل عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے جرائم پر تنقید کرنے کے بجائے حکمران خود اسکندر بننا چاہتے تھے۔ جولیس سیزر اور علاؤ الدین خلجی ان حکمرانوں میں سے تھے جو اسکندر کے نقشے قدم پر چلنا چاہتے تھے۔

اکثر قوموں میں ایسی اقلیتیں ہیں جن کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ ماضی۔ جب مفتوحہ لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھا تو ان کو اپنے خاندان معاشرے کلچر سے علیحدہ کرکے مختلف خریداروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ ان کے مالک بدلتے رہتے تھے اور ان کی حیثیت انسان کے بجائے بے جان اشیاء کی طرح ہو جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے لیے انہیں اپنے مالکوں کا وفادار ہونا پڑتا تھا۔

جب امریکہ اور کیریبیئن جزائر میں افریقی غلاموں کو لے جایا گیا تو یہ نہ صرف اپنے وطن سے محروم ہوئے بلکہ ان کے مالکوں نے انہیں نئے نام دیئے۔ ان کے مذہب کو تبدیل کیا اور ان سے محنت و مشقت کرا کے اس سے معاشی فوائد حاصل کیے۔ اگرچہ افریقی غلاموں نے اپنی آزادی کے لیے کچھ بغاوتیں ضرور کیں مگر انہیں سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ 1791 کی فرانسیسی کالونی سینٹ ڈومینگو میں افریقی غلاموں نے بغاوت کر کے آزادی حاصل کی۔

مسلمان معاشرے میں جب سولہویں صدی میں تین بڑی سلطنتوں کا زوال شروع ہوا تو سترہ سو عیسوی میں صفوی خاندان کا خاتمہ ہوا۔ مغل خاندان زوال پذیر ہوا اور عثمانی سلطنت نے اپنی طاقت کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا۔ ان سلطنتوں کے زوال نے مسلمان معاشرے کے ذہن پر گہرے اثرات ڈالے۔ مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ان میں بدلتے ہوئے حالات سے مقابلے کی ہمت نہ تھی اس لیے نئے خیالات اور افکار کی جگہ انہوں نے ماضی کو واپس لا کر اس میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہا۔

آج تک مسلم معاشرہ اسی ماضی کی تلاش میں ہے جسے شاعروں، ناول نگاروں اور تاریخ دانوں نے تشکیل دیا ہے۔ موجودہ دور میں یہی شاندار ماضی ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ہندوستان کے ہندو معاشرے میں تاریخ اور ماضی پر اعلیٰ ذاتوں کی اجارہ داری ہے۔ جب کہ اچھوت یا دلت ذات کے لوگ نہ تو اپنی تاریخ رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ماضی ہے۔ اگر ان میں ماضی کی کچھ یادیں نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں تو وہ انتہائی تلخ اور ناخوشگوار ہیں۔

کیونکہ صدیوں سے ہندو معاشرے میں ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔ ماضی ان کے لیے آج بھی ایک عذاب ہے کیونکہ اس میں نہ ان کی عزت تھی نہ وقار۔ برطانوی دور حکومت میں ان کو پہلی مرتبہ اپنی ذات کی شناخت کا علم ہوا۔ انہیں اپنی شناخت کے لیے نئے سرے سے ماضی کو تشکیل دینا ہو گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماضی کو اور ان کے لیے

پڑھیں:

غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملے تیز ہو گئے ہیں جہاں سے ہزاروں خاندانوں کو ان کے بھوکے بچوں سمیت جنوبی علاقوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں ایک اور جہنم زار ان کا منتظر ہے۔

جنوبی غزہ میں موجود یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا ہے کہ شمالی علاقوں سے بڑے پیمانے پر انخلا کے نتیجے میں انتہائی بدحال لوگوں کی زندگی کو مہلک خطرات لاحق ہیں۔

700 یوم تک متواتر جنگ کا سامنا کرنے والے پانچ لاکھ بچوں کو ایک سے دوسری تباہ حال جگہ پر جانے کے لیے کہنا غیرانسانی رویہ ہے۔ Tweet URL

اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر کے 10 لاکھ لوگوں کو علاقے سے انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں جس کے بعد علاقے سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈیڑھ لاکھ افراد کی نقل مکانی

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق گزشتہ چند روز میں 70 ہزار لوگوں نے جنوبی علاقوں کا رخ کیا ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے عرصہ میں ایک لاکھ 50 ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ واحد دستیاب راستے شاہراہ الراشد کے ذریعے سفر کر رہے ہیں جس پر بہت زیادہ رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔

یونیسف کی ترجمان نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایک ایسی ماں سے ہوئی جو غزہ شہر سے اپنے پانچ بچوں کے ساتھ چھ گھنٹے کا پیدل سفر کر کے جنوبی علاقے میں آئی تھی۔ یہ تمام لوگ میلے کچیلے، پیاسے اور بھوکے تھے جبکہ دو بچوں کے پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے ساتھ المواصی اور گردونواح پر مشتمل نام نہاد محفوظ علاقے کی جانب نقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے جہاں حالات پہلے ہی خراب ہیں۔

المواصی میں مایوسی کا سمندر

ٹیس انگرام نے کہا ہے کہ غزہ شہر سے انخلا کرنے والے لوگ مایوس کن حالات میں جنوبی غزہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ جگہ عارضی خیموں کے سمندر کے مترادف ہے جہاں بنیادی سہولیات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد مقیم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں میں غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

یونیسف کا اندازہ ہے کہ اس وقت تقریباً 26 ہزار بچوں کو شدید غذائی قلت کا علاج درکار ہے جن میں 10 ہزار کا تعلق غزہ شہر سے ہے جہاں گزشتہ ماہ کے آخر میں غذائی تحفظ کے ماہرین قحط کی تصدیق کر چکے ہیں۔غذائی قلت کے علاج سے محرومی

ٹیس انگرام نے بتایا کہ انخلا کے احکامات اور عسکری کارروائیوں کی وجہ سے رواں ہفتے غزہ شہر میں غذائیت کی فراہمی کے مراکز بند ہو گئے ہیں۔

اس طرح غذائی قلت کا شکار بچوں سے علاج کے مواقع چھن گئے ہیں۔ اگرچہ امدادی کارکن موقع پر موجود ہیں اور بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہر بمباری اور ہر رکاوٹ کے ساتھ یہ کام مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، گزشتہ اتوار کو امدادی ٹیموں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ 17 کارروائیاں طے کی تھیں جن میں سے چار کے لیے ہی اجازت مل سکی جبکہ سات کو مسترد کر دیا گیا۔

دیگر امدادی مشن راستوں میں رکاوٹوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیے گئے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ غزہ میں لوگ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دو ہفتے قبل المواسی پر حملے میں آٹھ بچے اس وقت مارے گئے جب وہ پانی کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف تین سال تھی۔

متعلقہ مضامین

  • ماتلی میں آئس کے بڑھتے نشے کیخلاف آگاہی سیمینار
  • غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • ماضی کی معروف اداکاراؤں کیساتھ افیئر؛ کمار سانو کا ردعمل سامنے آگیا
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • مدد کے کلچر کا فقدان
  • ’’سائنس آن ویلز‘‘سیریز کا دوسرا پروگرام اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ، چینی صدر کے ’’ہم نصیب معاشرے‘‘کے وژن کا عملی عکس
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
  • 2 ارب لوگوں کی نظریں اسلامی سربراہی اجلاس پر ہیں: اسحاق ڈار