ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی صدر کی گرفتاری سیاسی انتقام ہے، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
انہوں نے کہا کہ سانحہ سوات کے متاثرین مدد کے لئے پکارتے رہے، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کچھ نہ کرسکی، پاکستان پیپلزپارٹی نے سانحہ سوات کا مقدمہ لڑا اور اس کی پاداش میں آج خیبرپختونخوا میں ہمارے جیالوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی صدر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ پی پی پی ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی صدر ملک فرحان افضل دھپ کو سیاسی انتقام کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا ہے لہذا انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبہ بچاؤ مہم کے بعد پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ سوات کے متاثرین مدد کے لئے پکارتے رہے، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کچھ نہ کرسکی، پاکستان پیپلزپارٹی نے سانحہ سوات کا مقدمہ لڑا اور اس کی پاداش میں آج خیبرپختونخوا میں ہمارے جیالوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان پیپلزپارٹی سانحہ سوات بلاول بھٹو کہا کہ
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔