ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام کیوں ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد، انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموترخ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کا مقصد غزہ کی پٹی میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا ہے اور آبادی کو جنگی علاقوں سے باہر دھکیلنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، آبادی پٹی کے جنوب میں پہنچ جائے گی، اور (پھر) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی تیسرے ممالک میں چلے جائیں گے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ٹرمپ کے غزہ سے باہر آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوجائے گا تو وہ جنگ ختم کردیں گے۔ تحریر: ملیحہ لودھی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ سہ ملکی دورے کے دوران بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو دورے سے قبل یا مشرقِ وسطیٰ میں کیے گئے اپنے فیصلوں میں دیوار سے لگایا اور ایسا کرنے کی ان کے پاس معقول وجہ تھی۔ ٹرمپ نے جو اقدامات کیے، انہوں نے یقینی طور پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو پریشان کیا۔ واشنگٹن نے شام پر سے پابندیاں اٹھا لیں اور ٹرمپ نے ریاض میں شامی صدر احمد الشراع سے ملاقات بھی کی۔
شامی صدر سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے ایک ایسے شخص کی تعریف کی جس کے سر پر امریکا نے انعام رکھا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی بھی تعریف کی جوکہ اسرائیل کے ایک اور مخالف ہیں۔ انہی کے مشورے پر امریکی صدر نے شام پر سے پابندی اٹھائیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو نے ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پابندیاں ختم نہ کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی بھی کی جس کے ساتھ ہی دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی حملے روکنے پر اتفاق کیا۔ اس معاملے میں بھی اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا۔ ٹرمپ نے امریکا اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں غزہ میں آخری امریکی یرغمالی کی رہائی کو بھی یقینی بنایا لیکن تل ابیب کو سب سے زیادہ جس امر نے پریشان کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران سے براہ راست جوہری مذاکرات کرنا ہے جس کی اسرائیل سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے۔
یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کو نئی انٹیلی جنسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نتائج کی پروا کیے بغیر ایسا کرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں اور نیتن یاہو کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا بالخصوص اب کہ جب حال ہی میں ٹرمپ نے ٹیلی فونک گفتگو میں نیتن یاہو سے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے لیے لکھتے ہوئے کم گٹاس کہتی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ’اسرائیل کو حیرت میں مبتلا کررہے ہیں کہ وہ اسے معاہدوں سے الگ کررہے ہیں‘۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا کے درمیان دہائیوں پرانا اتحاد قائم رہے گا۔ دیگر مبصرین نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ٹرمپ کے دورے کے دوران محض ایک تماشائی کے طور پر دیکھا کیونکہ امریکی صدر اسرائیل کے دشمنوں کے قریب ہوگئے ہیں۔
اس سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام ہیں یا وہ اسے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ طویل عرصے سے تنازع کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا تھا کہ بنیامن نیتن یاہو اگر جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس میں تنہا ہوں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور انسانی امداد کی بندش کو جاری رکھا ہے۔
روزانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے جبکہ نیتن یاہو نے حماس کو ہمیشہ کے لیے تباہ کرنے کے لیے پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل کے آپریشن گیدیئن چیرٹس (Gideon’s Chariots) کو انجام دینے کے لیے جنوبی اور شمالی غزہ میں اضافی فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کی چھتوں سے جبراً محروم کیاجارہا ہے۔ فلسطینیوں کی بے دخلی ہمیشہ سے بنیامن نیتن یاہو کا مقصد رہا ہے۔
اس سب نے تباہ کُن صورت حال کو جنم دیا ہے جبکہ انسانی بحران کو سنگین تر بنادیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی سطح پر اضطراب پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سنگین صورت حال کو ناقابلِ بیان، ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ امداد کی بندش ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، غزہ کی پوری آبادی کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے قریبی مغربی اتحادیوں نے بھی تل ابیب کے خلاف آواز اٹھائی ہیں۔
مشترکہ بیان میں فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے کارروائیاں اور امداد کی پابندیاں ختم نہیں کیں تو اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے جن میں پابندیاں لگائے جانے کا امکان بھی شامل ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کرے گا جبکہ اسپین جیسے ممالک نے عالمی برادری سے پابندیوں سمیت سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
23 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل سے غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ لوگوں کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ میں کچھ امداد سامان کی ترسیل کی اجازت دی لیکن عالمی برادری نے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ردعمل میں کہا کہ یہ اشتعال انگیز اور اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے کہ نسل کشی کے دوران، بھوک اور ظلم کے تقریباً 80 دنوں کے بعد دنیا نے مکمل محاصرے کو تھوڑا سا کم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جس نے خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر تمام اشیا کے داخلے کو مکمل بند کیا ہوا ہے۔
دوسری جانب دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی کوششیں کسی نتیجہ خیز سمت کی جانب جاتی نظر نہیں آرہیں۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ پیش رفت نہ ہونے پر اضطراب کا شکار ہے لیکن پھر بھی وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے رواں ماہ اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ لیا۔ اگرچہ اسرائیلی جارحیت کے باوجود بھی بات چیت جاری رہی لیکن نیتن یاہو نے معاہدے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔
انہوں نے مارچ میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے کو توڑا اور بار بار اعلان کیا کہ وہ تب تک جنگ ختم نہیں کریں گے کہ جب تک انہیں حماس کے خلاف مکمل فتح حاصل نہیں ہوجاتی۔ ان حملوں میں غزہ نے زیادہ خونریزی، نقل مکانی اور تباہی کا سامنا کیا۔ غزہ تک امداد پہنچانے کا امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی منصوبہ بہت متنازعہ ہے۔ اس میں چند اہم امدادی مراکز کا قیام شامل ہے جہاں لوگوں کو مدد حاصل کرنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ ان مراکز کی حفاظت فوجی اور نجی مسلح سیکورٹی فورسز کریں گی۔
سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن، ان مراکز کا انتظام سنبھالے گی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبے کو مزید نقل مکانی کی ایک حکمت عملی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ امدادی اہلکار نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبے میں لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فاقہ کشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امداد کی بندش کو عسکریت پسندی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد، انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموترخ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کا مقصد غزہ کی پٹی میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا ہے اور آبادی کو جنگی علاقوں سے باہر دھکیلنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، آبادی پٹی کے جنوب میں پہنچ جائے گی، اور (پھر) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی تیسرے ممالک میں چلے جائیں گے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ٹرمپ کے غزہ سے باہر آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوجائے گا تو وہ جنگ ختم کردیں گے۔
اب یہ واشنگٹن کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کرے کہ آیا اسرائیل واقعی ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو اس سے اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ پڑے گا۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس سے امریکی صدر کے امن پسند تشخص کو نقصان پہنچے گا جس کے فروغ کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں۔
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1913383
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے نیتن یاہو نے کرنے کے لیے امریکی صدر اسرائیل کو اسرائیل کے کے منصوبے کے درمیان انہوں نے آبادی کو امداد کی کے ساتھ کے خلاف کیا گیا کا مقصد کرنا ہے سے باہر نے ایک دیا ہے رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
اسرائیل صحافیوں کو غزہ تک رسائی دینے سے کیوں انکاری ہے؟ سینئر اسرائیلی صحافی کا انکشاف
نیٹّا اہیتوف ممتاز اسرائیلی اخبار ’ دی ہارتز‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ اس اخبار کے میگزین سیکشن کی سینیئر ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اخبار میں ایک تجزیہ لکھا۔ جس میں ممتاز فرانسیسی مورخ اور ماہر امور مشرق وسطیٰ جان پیئر فلیو (جنہوں نے کئی ماہ غزہ میں گزارے ہیں)کے حوالے سے غزہ میں تباہی کی تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی۔ وہ لکھتی ہیں:
غزہ میں تباہی کی تصویرغزہ کی پٹی میں داخل ہونے کے بعد، جب جان پیئر فلیو، ممتاز فرانسیسی مورخ اور ماہر امور مشرق وسطیٰ، نے پہلی بار وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ وہ وہ جگہیں، جو انہیں اپنی کئی سابقہ سفروں میں مانوس لگتی تھیں، اب بالکل بدل چکی تھیں۔ ان کے لیے یہ منظر بے حد حیران کن تھا۔ سڑکیں، گلیاں، عمارتیں، پورے شہر – سب کچھ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیے غزہ جنگ: اسرائیلی فوجی بدترین نفسیاتی مسائل سے دوچار، 43 فوجیوں کی خودکشی
یہ تباہی اتنی وسیع اور غیر معمولی تھی کہ جان پیئر فلیو کے لیے سب کچھ اجنبی اور غیر واضح محسوس ہوا۔ وہ ان علاقوں کو پہچاننے سے بالکل قاصر تھے جہاں وہ پہلے کبھی آتے جاتے تھے۔ اس تباہی کا منظر انسان کے اندر کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ علاقے آباد، متحرک اور زندگی سے بھرپور تھے، لیکن اب وہاں ملبہ ہی ملبہ تھا۔
ایک مکمل تباہی کا منظرفلیو کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا، وہ صرف ایک جنگ یا فوجی حملے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل انسانی المیہ ہے جس نے علاقے کی بنیادی جڑوں کو چھین لیا۔ وہ جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی منظرنامے جو ایک بار غزہ کی پہچان تھے، اب وہاں کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ جان پیئر فلیو جیسے ماہر بھی اس منظر کو دیکھ کر مکمل طور پر چونک گئے تھے۔
اسرائیل کی صحافیوں پر پابندیاںاس تباہی کے منظر کو دیکھنے کے بعد جان پیئر فلیو نے کہا کہ اب انہیں اس بات کا پورا احساس ہو رہا ہے کہ اسرائیل نے صحافیوں کو غزہ میں جانے سے کیوں روک رکھا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کی غزہ تک رسائی محدود کرنے کے پیچھے ایک بڑی حکمت عملی چھپی ہوئی ہے: وہ نہیں چاہتے کہ دنیا اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اگر دنیا غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی کو دیکھے گی تو یہ عالمی رائے عامہ میں ایک بہت بڑا اثر ڈالے گی اور اسرائیل پر مزید دباؤ پڑے گا۔
ایک خطے کی شناخت کا خاتمہغزہ کی تباہی صرف اس کی عمارتوں اور انفراسٹرکچر کا خاتمہ نہیں بلکہ اس خطے کی ثقافتی اور سماجی شناخت کا بھی خاتمہ ہے۔ وہ علاقے جہاں کبھی لوگ مل کر رہتے تھے، تجارتی سرگرمیاں ہوتی تھیں، اب وہ سب ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ تباہی محض جغرافیائی سطح پر نہیں، بلکہ ایک پورے معاشرے کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔
بین الاقوامی برادری کا کرداراسرائیل کی جانب سے میڈیا تک رسائی کو محدود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی عوام کی کہانی زیادہ تر دنیا تک نہیں پہنچ پاتی۔ عالمی میڈیا کی نظر سے یہ تباہی غائب رہ جاتی ہے، اور صرف وہی خبریں سامنے آتی ہیں جو اسرائیل کے موقف سے ہم آہنگ ہوں۔ اس طرح عالمی سطح پر اس انسانی بحران کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسانی نقصان اور عالمی ردعملفلیو کی رپورٹ اور اس جیسے دوسرے صحافیوں کی کوششیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی یا فوجی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انسانی بحران ہے جس کا اثر لاکھوں افراد کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ غزہ کے شہریوں کی دردناک صورتحال اور ان کی زندگیوں کی تباہی عالمی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل غزہ میں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوسکتا، ایلون مسک
تاہم، عالمی سطح پر اس بحران کی حقیقت کو سامنے لانا اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ اگر صحافی غزہ کے اندر رپورٹ نہیں کر سکتے، تو یہ ان لاکھوں افراد کے لیے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جو عالمی توجہ اور مدد کے مستحق ہیں۔
یہ پورا منظر نہ صرف غزہ کی تباہی کی تصویر پیش کرتا ہے، بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ کیوں اسرائیل نے صحافیوں کو اس خطے میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ عالمی برادری کو اس انسانی بحران کی سنگینی کو سمجھنا اور اس کے حل کے لیے اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے، تاکہ غزہ کے عوام کے حقوق کا دفاع کیا جا سکے اور ان کی آواز دنیا تک پہنچ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل جان پیئر فلیو غزہ نیٹّا اہیتوف