WE News:
2025-09-17@23:50:05 GMT

ماسک کیوں پہنا جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

تم ماسک کیوں پہنتی ہو؟ ہم سے سوال کیا گیا۔

کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں بار بار کووڈ ہو اور پھر لانگ کووڈ بھی۔۔۔ ہم نے جواب دیا۔

کیا تم نے ویکسین نہیں لگوائی؟ پھر سوال۔

ہم نے فائزر کے 3 انجیکشن بھی لگوائے ہیں اور ماڈرنا کے بھی۔۔۔ ہمارا جواب۔

پھر تو تم محفوظ ہو گئیں نا۔۔۔

نہیں، وائرس بار بار اپنی شکل بدل کر حملہ کر رہا ہے۔ ہم نے کہا۔

تو بھئی اب یہ فلو جیسا ہو گیا نا، روٹین کی بات ۔۔۔ جواب ملا۔

نہیں یہ فلو جیسا نہیں، یہ ایچ آئی وی جیسا ہے جو ایڈز بیماری پیدا کرتا ہے سو اس سے جتنا بچ کر رہا جائے اتنا ہی اچھا۔۔۔ ہم نے جواب دیا۔

اس کا مطلب ہے ویکسین کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ مایوسی کااظہار۔

فائدہ ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ فوری طور پر موت واقع نہیں ہو گی جیسے سال 2019 میں ہوا مگر جب وائرس کی تبدیل زدہ شکل جسم  میں داخل ہو گی تب لازمی طور پر جسم کو نقصان پہنچائے گی جو کچھ عرصے بعد پتا چلے گا۔

اب لانگ کووڈ کی کہانی سنیے!

3 براعظموں میں مقیم ریسرچر جو کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے مگر ان کی ریسرچ کا تانا بانا ایک دوسرے سے ملتا ہے۔

براعظم یورپ کے ملک اٹلی میں ایک چائلڈ اسپیشلسٹ نے نوٹس کرنا شروع کیا کہ کووڈ کا شکار ہونے والے بچے ٹھیک ہونے کے بعد بھی سانس کی بے ترتیبی اور شدید تھکاوٹ کا شکار تھے۔ کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جسم میں چھوٹی شریانوں کو نقصان پہنچا ہے اور خون میں جمنے کی صلاحیت زیادہ ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے خون کے لوتھڑے جسم میں مختلف شریانوں میں جا کر پھنس جاتے ہیں اور اس عضو کو پہنچنے والا خون یا تو بند ہوجاتا ہے یا انتہائی کم۔

کیا اس وجہ سے ان بچوں میں سانس بے ترتیب اور تھکاوٹ ہونے کی علامات ظاہر ہوئیں؟

کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر اس  کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے، اس نے سوچا۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں پہلی تھیوری تھی۔

براعظم  امریکا میں رہنے والے ایک مائیکرو بیالوجسٹ ڈاکٹر نے مشاہدہ کیا کہ کووڈ ہو جانے کے بعد بھی وائرس جسم میں موجود رہتا ہے اور بعد میں نظر آنے والی علامات کا ذمہ دار ہے۔ وائرس کا خاص ٹھکانہ نروز ہیں اور اسی سے بے تحاشا تھکاوٹ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں دوسری تھیوری تھی۔

براعظم آسٹریلیا میں مقیم یونیورسٹی آف ساؤنڈ ویلز کے ڈاکٹر نے دریافت کیا کہ کووڈ کے بعد انسانی جسم کی قوت مدافعت کا نظام انتہائی بگڑ جاتا ہے۔ وہ سیلز جو کووڈ کے خلاف لڑتے ہیں کبھی نارمل نہیں ہو پاتے۔

یہ لانگ کووڈ کے بارے میں تیسری تھیوری تھی۔

تینوں ریسرچرز نے ان تھیوریز کا آپس میں تعلق دریافت کرنے کی کوشش کی جو لانگ کووڈ کا سبب بنتا ہے۔

یورپین ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ایک مثلث کی مانند ہے۔ جسم میں موجود وائرس خون کی شریانوں پر حملہ کرتا ہے، جواباً بلڈ کلاٹس بننے لگتے ہیں یا امیون سسٹم بگڑنے لگتا ہے۔

امریکا میں کووڈ سے مرنے والے 44 لوگوں کے جسم کا معائنہ کیا گیا۔ ان سب کے مختلف اعضا میں وائرس موت کے بعد بھی موجود تھا۔ ان اعضا میں دماغ ، پٹھے اور پھیپھڑے شامل تھے۔

اس ریسرچ کے بعد ایک گیسٹرو انٹرولجسٹ نے ان مریضوں کی انتڑیوں سے مواد لیا جو لانگ کووڈ کے شکار تھے اور یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ وہاں وائرس موجود تھا۔

لانگ کووڈ ہے کیا؟

امریکا کے ادارے سی ڈی سی نے 20 لاکھ مریضوں کا میڈیکل ریکارڈ دیکھنے کے بعد رپورٹ کیا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک مریض جسے کووڈ ہوا، ٹھیک ہونے کے بعد لانگ کووڈ کا شکار ہے۔

امریکا میں رہنے والے ایک ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 اور لانگ کووڈ ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں ۔ کووڈ 19 جنہیں ہوایا ہو رہا ہے وہ لانگ کووڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کا تناسب ان لوگوں میں زیادہ ہے جنہیں کئی بار کووڈ 19 کے مختلف اسڑینز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لانگ کووڈ کی ایک اور اہم علامت برین فاگ ہے یعنی دماغی صلاحیتوں کا کمزور پڑ جانا۔ دماغ کی شریانوں میں ننھے منے کلاٹ پھنس کر ان کو بند کرتے ہیں اور نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ بے کار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلاٹس نروز کو بلاک کرتے ہوئے انہیں ہلاک کرتے ہیں۔

صاحب، جو بھی ہے وہ کچھ برسوں بعد ہی کھلے گا ، تب تک احتیاط کیجیے کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ماسک پہنیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

برین فاگ کرونا ریسرچ کووڈ لانگ کووڈ ماسک ماسک کی اہمیت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کووڈ لانگ کووڈ ماسک کی اہمیت ہیں اور کے بعد

پڑھیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں

دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔

رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:

پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔

دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔

پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔

یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔

ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔

یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔

اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔

چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

متعلقہ مضامین

  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • پاک بھارت میچ کے بعد سلمان آغا پوسٹ میچ پریزنٹیشن میں کیوں نہیں گئے؟ وجہ سامنے آگئی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟
  • تارا محمود نے سیاستدان کی بیٹی ہونے کا راز کیوں چھپایا؟ اداکارہ نے بتادیا
  • عامر خان کی سابقہ اہلیہ کرن راؤ کی فلم ‘دھو بی گھاٹ’ کے بعد طویل تاخیر کیوں ہوئی؟ اداکار نے بتا دیا