مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرینگے، حاجی لشکری رئیسانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار میں سب شامل ہیں۔ آئندہ نسلوں کی بقاء کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کی سیاسی شخصیت نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر حال میں بلوچستان کے وسائل اور حقوق کا دفاع کریں گے۔ اپوزیشن کے جن ارکان نے صوبے کے وسائل دوسروں کے ہاتھ میں دیئے وہ ایکٹ کے خلاف قرارداد لائیں یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائیں۔ بلوچستان کا مسئلہ قومی ہے، لیکن 70 سال میں اس کو طبقاتی مسئلہ پیش کرکے مسائل کو الجھایا گیا اور اس کی بہتری کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل بے دریغ طریقے سے طاقت کے زور پر لوٹے جا رہے ہیں اور اب وسائل لوٹنے کیلئے کراچی سے ایک فرضی ادارہ لاکر ان کو پیسے کھلائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار میں سب شامل ہیں۔ آئندہ نسلوں کی بقاء کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پاس کرایا گیا۔ اب معدنیات کے حوالے سے اختیار صوبے کا نہیں، بلوچستان کے لوگ اپنی سرزمین پر اجنبی بن گئے۔ اپوزیشن قرارداد لائے کہ اسے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قبول نہیں یا مستعفی ہوجائے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں ڈیل کے ذریعے حکومت لائے جانے والوں کے ذریعے 5 منٹ میں ڈی ایچ اے کا ایکٹ منظور کرایا گیا اور بلاپیمودہ زمینوں کا اختیار سرکار کو دیا گیا، جبکہ ہم نے صوبوں کو 2008 میں صوبائی خودمختاری اور 18 ترمیم کے ذریعے اختیارات دیئے۔ لیکن 2013 سے 2018 میں ان کو پامال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2008 میں بننے والی حکومت نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ جسے بعد میں آنے والی حکومت نے واپس کیا۔ ہم نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرایا، لیکن 600 بلین ڈالر کا اثاثہ ایک بار پھر پراسرار اور مشکوک طریقے سے دوسروں کے حوالے کیا گیا۔ جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں۔ ان کا احتساب ووٹ کے ذریعے کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں بعض اوقات تکلیف اور بحرانوں سے گزرتی ہیں۔ ہماری تاریخی سرزمین پر آج بدامنی ہے۔ بہت سے لوگ بحرانوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان اس وقت بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بحران نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں و سماجی عمائدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ صوبے میں بدامنی، افراتفری اور حالات خراب کرکے شارٹ کٹ اختیار کرنے والے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی نے ہر موقع پر بلوچستان کے وسائل، حقوق کا دفاع کیا اور کسی بھی ایسے معاہدے یا پروگرام کا حصہ نہیں بنے۔ جس میں بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا گیا ہو۔ جس میں ریکوڈک کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا۔ انہوں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں صوبے میں ہونے والی قتل و غارت گری کے حوالے سے ایوان میں بااختیار کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دانستہ طور پر پارلیمانی سیاست سے لوگوں کو دور رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نوجوان ماضی کے انتخابات سے سبق سیکھیں کیونکہ ایک بار پھر آنے والے پانچ سالوں کے لئے منظورنظروں کے لئے راہ ہموار کی جائے گی۔ نوجوان نسل نے سہولت کاروں کا راستہ روکنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مائنز اینڈ منرلز ایکٹ بلوچستان کے وسائل انہوں نے کہا کہ کے حوالے حوالے سے کے ذریعے کیا گیا رہے ہیں نے والے
پڑھیں:
جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔
آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔
اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔
جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔