بلوچستان: سرکاری اساتذہ اور ملازمین کے 6 الاؤنسز ختم، تنخواہوں میں 40 فیصد تک ممکنہ کمی
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
بلوچستان حکومت نے صوبے کی سرکاری جامعات کے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو دیے جانے والے 6 مختلف الاؤنسز ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں تنخواہوں میں 40 فیصد تک کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
محکمہ کالجز، ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن بلوچستان کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ختم کیے گئے الاؤنسز میں یوٹیلٹی الاؤنس، ہاؤس ریکوزیشن، آرڈرلی الاؤنس، ہارڈ شپ الاؤنس، ٹیکنیکل سبجیکٹ الاؤنس اور اسپیشل الاؤنس شامل ہیں۔
ان کی جگہ کوئٹہ کی جامعات کے لیے 2022 کے بیسک پے اسکیل کے تحت 25 فیصد اور کوئٹہ سے باہر کی جامعات کے لیے 35 فیصد ’پی ایس یو الاؤنس‘ متعارف کرایا گیا ہے۔ تاہم، یہ الاؤنس کنٹریکٹ، ایڈہاک یا ٹی ٹی ایس بنیادوں پر کام کرنے والے ملازمین کو نہیں ملے گا اور اس کا اطلاق پینشن یا گریجویٹی پر بھی نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی: خضدار میں دہشتگرد حملے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور
اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی الاؤنس میں رد و بدل صرف صوبائی کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہوگا۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت اور ایچ ای سی کی جانب سے دی جانے والی گرانٹس کو صرف تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جا سکے گا، جبکہ دیگر اخراجات جامعات کو اپنے وسائل سے پورے کرنے ہوں گے۔
اساتذہ اور ملازمین میں شدید تشویشحکومتی اقدام پر جامعات کے اساتذہ اور ملازمین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان کی جامعات میں قلم چھوڑ ہڑتال کی گئی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر کلیم اللہ نے کہا کہ یہ اقدام دراصل ملازمین کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ اُن کے مطابق حکومت الاؤنسز ختم کرکے 40 فیصد کٹوتی کر رہی ہے، اور اس کے بدلے 2022 کے پے اسکیل کے مطابق معمولی اضافہ پیش کیا جا رہا ہے۔
کلیم اللہ کے مطابق جس ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے، اس سے 40 ہزار کاٹ کر صرف ساڑھے 12 ہزار کا پی ایس یو الاؤنس دیا جائے گا، یعنی تنخواہ 72 ہزار روپے رہ جائے گی۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔
مزید پڑھیں:بلوچستان میں معصوموں کا خون، مودی ذمہ دار ہے: گرپتونت سنگھ پنوں
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی جامعات میں 15 ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں، جو پہلے ہی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اب مزید کٹوتیوں سے یہ شعبہ مزید زبوں حالی کا شکار ہو گا۔
’بیوروکریسی جامعات کو تباہ کر رہی ہے‘کلیم اللہ نے الزام عائد کیا کہ حکومت اور بیوروکریسی دراصل سرکاری جامعات کو ختم کرکے پرائیویٹ اداروں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اُن کے بقول، حکومت ہمیں مشورہ دے رہی ہے کہ فیسیں بڑھائی جائیں، جبکہ سرکاری جامعات میں وہی طلبہ آتے ہیں جو مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ فیسوں میں اضافہ طلبہ کی تعداد میں مزید کمی کا سبب بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ جامعات سالانہ 90 کروڑ سے ایک ارب روپے تک حکومت کو آمدنی دیتی ہیں، اس کے باوجود یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں کم کی جا رہی ہیں۔ اگر نوٹیفکیشن پر عمل ہوا تو ایک گریڈ 21 کا پروفیسر، سیکریٹریٹ کے گریڈ 11 کے کلرک کے برابر تنخواہ لے گا۔
مزید پڑھیں: حملے کی اطلاعات تھیں مگر بچوں کو نشانہ بنانے کی توقع نہیں تھی، وزیراعلیٰ بلوچستان
احتجاج کا اعلاناساتذہ نے حکومت کو 4 دن کی مہلت دی ہے کہ وہ نوٹیفکیشن واپس لے۔ بصورت دیگر آئندہ ہفتے سے بھرپور احتجاج کیا جائے گا، جس میں کلاسوں کا بائیکاٹ، ٹرانسپورٹ کی معطلی، اور کوئٹہ کی اہم شاہراہوں پر دھرنے شامل ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اساتذہ الاؤنسز ختم بلوچستان حکومت سرکاری جامعات ملازمین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اساتذہ الاو نسز ختم بلوچستان حکومت سرکاری جامعات ملازمین سرکاری جامعات الاو نسز ختم اساتذہ اور جامعات کے کی جامعات کے مطابق الاو نس کے لیے کیا جا
پڑھیں:
نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایمسٹرڈم:۔ نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے انتخابات میں قومی سیاسی دھارے کے حامی سیاستدان 38 سالہ روب ییٹن کی قیادت میں سینٹرل پارٹی D66 نے ایک انتہائی سخت اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست جماعت پارٹی فار فریڈم PVVکو شکست دے دی۔
جرمن ٹی وی کے مطابق مقامی خبر رساں ادارے ANP کے مطابق D66نے محض پندرہ ہزار ووٹوں کی معمولی برتری کے باوجود واضح پوزیشن حاصل کی اور وائلڈرز کی PVV اب یہ فرق ختم نہیں کرسکتی۔ اس فتح کے بعد روب جیٹن ممکنہ طور پر نیدرلینڈز کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں گے۔
یہ نتائج D66 کے لیے ایک شاندار عروج کا نشان ہیں، جو یورپی اور سماجی لحاظ سے ایک لبرل پارٹی ہے اور اس نے انتخابی مہم میں ماحولیاتی پالیسی، سستی رہائش، اور اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے پر زور دیا۔ تقریباً 18 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ پارٹی ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کے لیے اسے کم از کم تین دیگر شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔
ییٹن اب ممکنہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتی مذاکرات کی قیادت کریں گے، جو نیدرلینڈز کے متنوع سیاسی منظرنامے میں کئی ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں۔ انتخابات میں D66نے ایک متحرک انتخابی اور تشہیری مہم کی بدولت اپنی نشستوں کی تعداد تقریباً تین گنا بڑھا لی۔
مرکزی سیاسی دھارے کی تمام بڑی جماعتیں اور بائیں بازو کے سیاسی دھڑے وِلڈرز کے امیگریشن مخالف سخت موقف اور قرآن پر پابندی کے سابقہ مطالبات کی وجہ سے ان کے ساتھ مخلوط حکومت سازی سے انکار کر چکے ہیں۔ وِلڈرز نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے تو وہ پھر بھی حکومت بنانے کا پہلا حق طلب کرتے۔ انتخابی نتائج کی حتمی تصدیق پیر کو متوقع ہے، جب بیرون ملک مقیم ڈچ شہریوں کے ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی۔