پی ٹی وی کے 94 ملازمین کو گھر سمیت الاؤنس بھی دینے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (صباح نیوز) پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں پی ٹی وی کی جانب سے سرکاری رہائش گاہیں استعمال کرنے والے 94 ملازمین کو ہائوس الائونس بھی دیے جانے کا انکشاف ہوا جس سے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے، کمیٹی نے رقم کی ریکوری کا حکم دیتے ہوئے پیسے دینے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کردی، پی ٹی وی میں جعلی ڈگریوں پر معطل ہونے والے 5 ملازمین میں سے ایک ملازم کو سابق وفاقی سیکرٹری شاہیرہ نے بحال کردیا ہے کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کو بھیج دیا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر
معین عامر پیرزادہ کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت اطلاعات ونشریات کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔پیمرا کی جانب سے لائسنس فیس کی مد میں بقایاجات کی ریکوری نہ کیے جانے سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا ۔ سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے کہاکہ 17 ملین کی رقم رہتی ہے، پیمرا حکام نے کہاکہ 29 ملین ریکور ہوگئے ہیں، 17 ملین روپے رہتے ہیں، اس میں زیادہ تر کیبل آپریٹرز ہیں، ہم ریکور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔